بالآخر 13ماہ بعد راولپنڈی اسلام آ باد میٹرو بس پراجیکٹ جسے اب ’’خادم پنجاب‘‘ نے’’ پاکستان میٹرو پراجیکٹ ‘‘ کا نام دے دیا ہے مکمل ہو گیا ہے میں ان لوگوں میں شامل ہوں جن کا مری روڈ سے ہر روز گذر ہو تاہے رات کے پچھلے پہر دفتر سے واپسی پر پراجیکٹ پر کام کا ذاتی طور پر مشاہدہ کرنے کا موقع ملا ہے منصوبہ کی تکمیل کے دوران بار ہا راستہ تبدیل کرنا پڑا بعض اوقات تو دیو ہیکل گاڑیوں کی زد میں آتے آتے بچا ہوں اس اہم ترین منصوبہ کی تکمیل سے ٹریفک کی مشکلات کی کمی کی امید نے راولپنڈی و اسلام آباد کے لاکھوں شہریوں کے ساتھ مشکلات کو برداشت کیا بہت کم لوگوں کو اس بات علم ہے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے سب سے پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو یہ منصوبہ شروع کرنے کی تجویز پیش کی تھی لاہور میٹرو بس پراجیکٹ پہلے ہی کا میابی سے ہمکنار ہو چکا تھا لہذا وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے فوری طور پر اس منصوبہ کی منظوری دے دی قبل ازیں وزیر اعلیٰ پنجاب مری روڈ پر’ ’ایلیویٹڈ ایکسپریس وے‘‘ کے منصوبہ کی بنیاد رکھ چکے تھے لیکن یہ منصوبہ بوجوہ ابتداء میں ہی ڈراپ کر دیا گیا سیکیورٹی پرابلمز منصوبہ کی راہ میں حائل ہو گئے جس طرح لاہور میں میٹروبس پراجیکٹ کی مخالفت کی گئی اور اس کا مذاق اڑایا گیا اسی طرح راولپنڈی اسلام آباد میں اس منصوبہ کی نہ صرف مخالفت کی گئی بلکہ اس پر کام کو رکوانے کے لئے بزعم خویش’’فرزند راولپنڈی‘‘ اور کراچی سے درآمد کردہ لیڈر اسد عمر نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا لیکن سپریم کورٹ نے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبہ کو رکوانے کی تمام کوششوں کو مسترد کر دیا پاکستان میٹرو بس پراجیکٹ این اے 48،49 اور 54،55اور 56کو کور کرتا ہے عام انتخابات میں این اے 48، 55اور 56کے عوام نے تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ دیا لیکن وزیر اعلیٰ نے اپنا فیصلہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے غریب عوام کے حق میں دیا اور انہیں 44.84ارب روپے کا’’ تحفہ‘‘ دے کر ان کے دل جیت لئے شیخ رشید احمد میٹرو بس پراجیکٹ سے اس حد تک خوفزدہ دکھائی دیتے تھے کہ وہ میٹرو بس کے لئے کھودے گئے گڑھوں کو ’’قبروں ‘‘سے تعبیر کرتے تھے اور دعویٰ کرتے تھکتے نہیں تھے کہ ان ’’قبروں ‘‘ میں مسلم لیگ کی سیاست دفن ہو جائے گی ڈی چوک میں دھرنے کی وجہ سے کام ٹھپ ہو کر رہ گیا تھا غیر یقینی صورت حال نے اس تاثر کو بھی تقویت دی اگر پراجیکٹ کا کام ادھورا رہ جاتا تو یقیناً مسلم لیگ(ن) کی سیاست تباہ و برباد ہو جاتی لیکن ’’مرد پنجاب‘‘ میاں شہباز شریف نے دھرنے دینے والوں کا چیلنج قبول کیا عام حالات میں ایک سال میں گھر
نہیں بنتا لیکن انہوں نے 13ماہ کی ریکارڈ مدت میں تمام تر رکاوٹوں کے با وجود اس منصوبہ کو مکمل کر دکھایا جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے وزیر اعلیٰ پنجاب روزانہ کی بنیاد پر پراجیکٹ پر کام کی رفتا ر سے آگاہ رہتے تھے وہاں انہوں نے مختلف جگہوں پر کیمرے لگا کر مانیٹرنگ کا انتظام کر رکھا تھا انہوں نے بارہا خود پراجیکٹ کا معائنہ کیا میاں شہباز شریف’’ شاباش‘‘ کے مستحق ہیں وہ پراجیکٹ کی تیز رفتاری سے تکمیل کے لئے ہر اتوار کی صبح راولپنڈی پہنچ جاتے ان کے ان ہی دوروں کی وجہ سے دن رات کام کر کے پراجیکٹ مکمل ہو گیا پچھلے دنوں
میرے ایک دوست کوہاٹ گئے تو وہ تحریک انصاف کو ووٹ دینے والوں کی باتیں سن کر حیران و ششدر رہ گئے تحریک انصاف کے ’’ناراض ووٹروں‘‘ نے کہا کہ آپ کے پا س تو شہباز شریف ہیں کاش ! ہمیں بھی ایک شہباز شر یف مل جائے ہمارا مقدر ہی تبدیل ہو جائے گا دلچسپ امر یہ ہے کہ میٹرو بس پراجیکٹ کے حوالے سے پنجاب ہائوس میں منعقدہ پریس کانفرنس میں پوچھے گئے ایک کے سوال کے جواب میں وزیر اعلیٰ پنجاب اپنی خدمات ہر صوبہ کے عوام کو پیش کرنے کا عندیہ دے دیا انہوں نے میٹرو بس پراجیکٹ کی افتتاحی تقریب میں بھی وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کو میٹرو بس پراجیکٹ کی تکمیل میں تعاون کرنے کی پیشکش کر دی بلا مبالغہ میاں شہباز شریف ایک متحر ک منتظم ہیں وہ جو کام شروع کر دیں اسے پایہ ء تکمیل تک پہچا کر ہی دم لیتے ہیں 23کلومیٹر پر محیط راولپنڈی اسلام آباد پراجیکٹ میں 8.6کلومیٹرایلیویٹڈ ہے 10کلومیٹر معمول کی سڑک اور 4کلومیٹر زیر زمین ہے وفاقی حکومت نے حکومت پنجاب کو لاہور میٹرو پراجیکٹ مکمل کرنے کا تجربہ ہونے کی وجہ سے آئین کے آرٹیکل 146کے تحت اسلام آباد کا حصہ بھی تعمیر کرنے کا کام کرنے کا اختیار دے دیا لاہور میٹرو پراجیکٹ’’ سلور‘‘ ہے جب کہ راولپنڈی اسلام آباد(پاکستان) میٹرو پراجیکٹ ’’گولڈن‘‘ ہے اس لحاظ سے یہ شاہکارstate of the artکی حیثیت رکھتا ہے جب کہ پشاور موڑ پر 5بلین روپے کی لاگت سے پشاور موڑ پر تعمیر ہونے والا انٹر چینج بھی شاہکار ہے جو 14سڑکوں پر مشتمل ہے میٹرو بس کے تمام سٹیشنوں کی چھتیں ٹپک رہی ہیں بعض سٹیشنوں پر لگائے واٹر کولر ز کے کنکشن واسا کی ’’ڈرائی ‘‘لائن سے لگا دی گئی ہے مصنوعی طریقے سے واٹر کولرز کو پانی فراہم کیا جا رہاہے راولپنڈی میں’’ ایلیویٹڈٹریک ‘‘کے گرد لگائی حفاظتی دیوار بعض مقامات پر ٹیڑھی ہونے کے باعث جس میٹریل’ ’وم بورڈ‘‘ سے ان کی الائنمٹ کی گئی ہے وہ ایک بارش برداشت نہیں کر سکے گا اسی طرح مری روڈ کی راتوں رات جس طرح کارپیٹنگ کی گئی ہے اس کے نقائص دو چار روز میں ہی سامنے آنے لگے ہیںمختلف سٹیشنوں پر لگائی سیڑھیوں کے گرد لگائے گئے راڈز کے پورے نٹ بولڈ ہی نہیں لگائے گئے ہم یہ باتیں وزیر اعلیٰ ٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے نوٹس میں اس لئے لا نا چاہتے ہیں وہ کام کے معیار اور نفاست پر کمپرومائز نہیں کرتے وہ میٹرو بس کے لئے تیار کردہ ٹریک کی کارپنٹنگ ایک بار اکھڑوا چکے ہیں ٹھیکیدار وںسے دوبارہ کام کروا چکے ہیں میٹرو بس کی بروقت تعمیر کا ہر کوئی کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اس پراجیکٹ کے نقائص کی کسی کو تو ذمہ داری قبول کرنی چاہیے کمشنر راولپنڈی زاہد سعید پراجیکٹ ڈائریکٹر ہیں اور اب ان کو ملتان پراجیکٹ کا ڈائریکٹر بنایا جا رہا ہے اور نیسپاک کنسلٹنٹ ہے اگر عمدہ کام کیا تو ان کو کریڈٹ جاتا ہے بصورت دیگر وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس منصوبے میں نقائص کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے وزیر اعلیٰ پنجاب کی اس منصوبے کی کامیابی کیلئے دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ وہ منصوبے کے افتتاح کے باوجود ہر ہفتے راولپنڈی کا دورہ کر رہے ہیں اتوار کی صبح بھی انہوں نے میٹرو بس پراجیکٹ کا اچانک دورہ کیا ہے وزیر اعلیٰ پنجاب کے نوٹس میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ لاہور کے صحافیوں نے میٹرو بس پراجیکٹ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی لیکن راولپنڈی اور اسلام آباد کے کسی صحافی کو اس اہم تقریب میں مدعو نہیں کیا گیا جب اس سلسے میں وزر اعظم کی میڈیا ٹیم سے استفسار کیا گیا تو اس نے یہ کہہ کر اپنی جان چھڑا لی کہ محکمہ اطلاعات پنجاب نے دعوت نامے جاری کئے ہیں جب کہ محکمہ اطلاعات پنجا ب کی بے بسی دیدنی تھی اس کے افسران کا کہنا تھا کہ ’’ہم خود تقریب میں شرکت کے لئے پاس بنوانے کی جدوجہد کر رہے ہیں وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس بد انتظامی کا بھی نوٹس لینا چاہیے ہم نے تو ٹیلی ویژن کی براہ راست کوریج سے ہی استفادہ کیا تقریب میں میٹرو بس پراجیکٹ کے ان10 مزدور شہداء کو فرا موش کر دیا گیا جن کا خون اس پراجیکٹ میں شامل ہے 5کروڑ روپے کے انعام میں سے ان کے ورثاء کا بھی حق ہے میٹرو بس پرا جیکٹ کی افتتاحی تقریب میں وزیر اعظم محمد نواز شریف انتہائی خوش گوار موڈ میں تھے انہوں نے اپنے پہلو میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی نشست لگوا کر سیاسی حلقوں کو واضح پیغام دیا کہ ان کے اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان ’’فاصلے ‘‘ ختم ہو گئے ہیں وزیر اعظم نے راولپنڈی کے عوام سے ملک شکیل اعوان اور محمد حنیف عباسی کو ووٹ نہ دینے کا گلہ بھی کیا اور کہا کہ اگر آپ ووٹ دیتے تو وہ ہیلی کاپٹر سروس شروع کرادیتے وزیر اعظم محمد نوا زشریف خوشگوار موڈ میں تھے لہذا انہوں نے کہا ہے کہ’’ شہباز شریف پنجاب تو بدل رہے ہیں شعر بھی بدل لیں ‘ پرانے شعر سن سن کر مجھے بھی یاد ہو گئے ہیں میاں شہباز شریف نے درج ذیل شعر سنائے؎
شب گزر جائے تو ظلمت کی شکایت بے سود
درد تھم جائے تو ا ظہاراذیت کیسا
وزیراعلیٰ نے اپنی تقاریر میں نے درج ذیل اشعار پڑھے
جو اکثر جلسوں میں پڑھتے ہیں :
خوشبوئوں کا اک نگر آباد ہونا چاہیے
اس نظام زر کو اب برباد ہونا چاہیے
ان اندھیروں میں بھی منزل تک پہنچ سکتے ہم
جگنوئوں کو راستہ تو یاد ہونا چاہئے
محمدشہبازشریف نے مولانا فضل الرحمن اور پرویز خٹک کو مخاطب کرتے ہوئے یہ اشعار پڑھے:-
جب اپنا قافلہ عزم و یقین سے نکلے گا
جہاں سے چاہیں گے رستہ وہیں سے نکلے گا
وطن کی مٹی مجھے ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقین ہے چشمہ یہیں سے نکلے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان تمام باتوں کے باوجود شاباش شہباز شریف شاباش