پاکستان دو حصوں میں بٹ گیا‘ہم یہ تقسیم آج تک نہیں بھولے۔ مجھے یاد ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے چند ماہ بعد علامہ اقبال کا یوم ولادت تھا۔ اسی سلسلہ میں پنجاب یونیورسٹی ہال میں تقریب تھی۔ مجلس اقبال کے جنرل سیکرٹری آغا شورش کاشمیری نے مشیر کاظمی کو نظم پڑھنے کی دعوت دی۔ وہ مائیک پر آتے ہی کہنے لگے ’’آج صبح حضرت اقبال کے مزار پر پھول چڑھانے گیا تھا‘ وہیں سے آرہا ہوں۔‘‘ انہوں نے نظم سنانی شروع کی؎
پھول لیکر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ وطن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
پوری نظم‘ نہ شاعر سنا سکا نہ ہی حاضرین سن سکے۔ شاعر کی آواز حاضرین کی سسکیوں اور آہوں میں دب گئی۔ فیض احمد فیض اور ناصر کاظمی اس تقسیم کو کہاں بھلا سکے۔ انہیں بنگالی یاد آتے رہے۔ وہ ساحلوں میں گانے والے کیا ہوئے۔ وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے۔ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا۔ زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے۔ جب ڈھاکہ میں فیض پوچھ رہے تھے کہ خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد تو دھرتی پر بکھرے ان خون کے دھبوں میں صرف بنگالیوں کا خون نہیں تھا‘ بہاریوں کا خون بھی تھا‘ پنجابیوں کا بھی اور پاک فوج کا بھی۔ پاک فوج میں سبھی شہروں اور دیہاتوںسے لوگ شامل تھے۔ بنگال کی سرزمین پر خون کے دھبے دھلے یا نہیں‘ ہمارے ذہنوں سے پاکستان کی تقسیم کے یہ دھبے نہیں دھل سکے۔ یہ وطن مجھ کو آدھا گوارا نہیں‘ لیکن اک تقسیم اور بھی ہے۔ اس طرف ابھی ہمارا دھیان نہیں۔ برسوں پہلے ملتان میں ’’نوائے وقت‘‘ کی افتتاحی تقریب تھی۔ اس تقریب میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے سابق صدر پاکستان محمد رفیق تارڑ نے اپنے صدارتی خطبے میں ارشاد فرمایا ’’جس طرح زمین پاکستان کے مڈل کلاس طبقے کے پائوں کے نیچے سے سرکائی جا رہی ہے‘ اس کے ہولناک نتائج برآمد ہونگے۔ پاکستان میں آئندہ جنگ صوبوں اور وفاق کے درمیان نہیں ہوگی۔ یہ جنگ طبقاتی جنگ ہوگی۔ جو امیر اور غریب کے درمیان ہوگی۔ اس میں ایک طرف زمین کی غیر محدود ملکیت رکھنے والے مالکان ہونگے اور دوسری طرف بے مالک لوگ ان کے پاس نہ ہی زندگی بسر کرنے کیلئے کوئی زمین کا قلعہ موجود ہے اور نہ ہی مرنے کے بعد دفن ہونے کیلئے۔ انہوں نے نہایت تکلیف دہ لہجے میں قوم کو خبردار کیا تھا کہ کوئی وردی والا اور کوئی وردی کے بغیر حاکم قوم کو اس طبقاتی جنگ سے نہیں بچا سکے گا۔ کہیں نہ کہیں سے کبھی نہ کبھی کوئی ایسی آواز بلند ہوتی رہتی ہے لیکن ہماری قوم کا اس تقسیم کی طرف دھیان ہی نہیں۔ کیا کربلا ہے کہ ہماری دونوں اہم سیاسی جماعتوں میں مزدوروں اور کسانوں کی کوئی آواز نہیں۔ ملک میں کوئی مزدور لیڈر نہیں‘ کوئی کسان لیڈر نہیں۔ شیخ رشید بابائے سوشلزم اور مزدور لیڈر مرزا ابراہیم یاد آرہے ہیں۔ بھٹو کی پھانسی‘ جاگیرداری ٹھاہ کے نعرے کی بھی پھانسی ثابت ہوئی۔ سپریم کورٹ نے ایک چھوٹے سے زمیندار کے مالکانہ حقوق برقرار رکھتے ہوئے ایک ڈسٹرکٹ کلکٹر کو اتنا ڈانٹا اور پوچھا کہ ’’جب زمین کو الاٹ نہیں کیا جا سکتا تھا تو پھر یہ زمین ایک بڑے افسر کو کیسے مل گئی؟‘‘ عدالت نے اس موقع پر اس افسر کو بھی تنبیہ کی کہ وہ ایک غریب کسان کے حقوق غصب کرنے کی کوشش نہ کرے۔ یہ تاریخی فیصلہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ستمبر 2003ء کو سنایا۔ فاضل ججوں نے اپنے اس فیصلہ میں جان اسٹین بیک کے ناول "The Grapes of Wrath" سے یہ تحریر نقل کی۔ ’’مالدار افراد کو شورشوں میں اپنی املاک سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ مالدار لوگ تاریخ سے یہ حقیقت سمجھ سکتے ہیں کہ جب دولت بہت کم ہاتھوں میں جمع ہو جائے تو اسے چھین لیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب لوگوں کی اکثریت بھوکی ننگی ہو تو وہ بہ زور طاقت اپنی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔ ایک اور تاریخی حقیقت یہ ہے کہ جبر و استبداد سے مظلوم مستحکم ہوتے جاتے ہیں۔ مالدار لوگ انہی حقیقتوں کو جھٹلاتے رہتے ہیں۔ اراضی کم سے کم ہاتھوں میں جمع ہوتی رہی اور محرومین کی تعداد بڑھتی رہی مگر مالدار لوگ مزید ظلم و ستم کرتے رہے۔ رقم سے ہتھیار خریدے گئے، بارود خریدے گئے تاکہ بڑی املاک بچائی جا سکیں۔ انقلابیوں کی بْو سونگھنے کیلئے جاسوس کتے چھوڑے گئے تاکہ بے چینی کو کچلا جا سکے۔ بدلتی معیشت کو نظرانداز کیا گیا۔ تبدیلی کے منصوبوں کو نظرانداز کیا گیا اور صرف بغاوت کچلنے کے طریقوں پر غور کیا جاتا رہا۔ جبکہ بغاوت کی وجوہ اپنی جگہ موجود رہی‘‘۔ اب امیر غریب کے درمیان فرق اتنا زیادہ بڑھ گیا ہے کہ خلق خدا سے برداشت نہیں ہو رہا۔ ہمارے نوجوان وکیل، لیکچرار، سول جج، کچہریوں کے اہلکار، پرائیویٹ اداروںمیںپڑھے لکھے نوجوان ملازم، ان سب کیلئے چند مرلوں کا رہائشی پلاٹ خریدنا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ یہ استحصال کی بدترین شکل ہے۔ ایک سوال ہے، کیا ہم ان رہائشی پلاٹوں کیلئے زمین امریکہ سے بذریعہ ہوائی جہاز امپورٹ کرتے ہیں؟ اب بڑے بڑے محلات اور عظیم الشان فارم ہاؤس کون برداشت کریگا؟ پچھلے دنوں میاں نواز شریف نے کم آمدنی والے لوگوں کیلئے رہائشی پلاٹوں کا ذکر ضرور کیا ہے مگر صرف ذکر سے کیا ہوتا ہے۔ تحریک انصاف
ہماری نوجوان نسل میں تبدیلی کی خواہش کی شدت کا نام ہے۔ اب نوجوانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ جب وہ اپنی تحریک انصاف میں پاکستان پیپلز پارٹی اور ق لیگ سے آئے ہوئے Electable امیدواروں کا ہجوم دیکھتے ہیں اور انہیں اپنی نسبت عمران خان کے زیادہ قریب پاتے ہیں تو جھنجھلا اٹھتے ہیں۔ سنیئے! سابق سٹی صدر تحریک انصاف گوجرانوالہ عقیل ڈار کیا کہہ رہا ہے۔ ’’اگر عمران خان بھی غلطیاں اختیار کریں گے تو ہم ان کا ساتھ نہیں دینگے۔‘‘ ایک سوال ہے جو میرے ذہن میں اکثر کلبلاتا رہتا ہے کہ جو تبدیلی بذریعہ شاہ محمود قریشی آئیگی، وہ کتنی ہو گی اور کیسی ہو گی؟ میری ابھی تک سابق گورنر پنجاب چودھری سرور سے ملاقات نہیں ہو سکی۔ ملاقات پر ضرور پوچھوں گا، اے گورنر ہاؤس سے ’سٹیٹس کو‘ کی گھٹن سے گھبرا کر ادھر بھاگ آنے والے، کیا یہاں تحریک انصاف میں گھٹن کچھ کم ہے، جو ادھر آ نکلے ہو؟ ان سے یہ بھی ضرور پوچھوں گا کہ تحریک انصاف میں غریب، امیر کی تقسیم میں آپ خود کو کہاں کھڑا پاتے ہیں؟
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024