عمران کی دوبار بلدیاتی الیکشن کی پیشکش کے بعد سہ جماعتی اتحاد کی حکومت مخالف تحریک بلاجواز ہے---- اپوزیشن جمہوریت کو چلنے دے، معاملات مذاکرات سے طے کئے جائیں
پشاور میں اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل سہ فریقی اتحاد نے خیبر پی کے حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا۔ میاں افتخار کہتے ہیں کہ حکومت گرانے کیلئے احتجاجی تحریک چلائیں گے۔ پشاور میں جمعیت علمائے اسلام، پیپلز پارٹی اور اے این پی پر مشتمل سہ فریقی اتحاد کا اجلاس میاں افتخار کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس کے بعد پیپلر پارٹی اور جے یو آئی کے رہنمائوں کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے میاں افتخار کا کہنا تھا کہ خیبر پی کے حکومت فوری طور پر مستعفی ہوجائے اور نگران سیٹ اَپ تشکیل دیکر نئے انتخابات کرائے جائیں۔ اگر حکومت مستعفی نہیں ہوئی تو صوبے بھر میں 10 جون سے احتجاجی تحریک شروع کر یں گے۔ 10 جون کو جلسے اور شٹرڈائون ہڑتال کی صورت میں شروع ہونیوالا احتجاج کے پی کے حکومت کے مستعفی ہونے تک جاری رہیگا۔انہوں نے صوبائی حکومت سے انتخابات کے دوران ہنگاموں میں جاں بحق ہونیوالے افراد کو معاوضہ دینے کا بھی مطالبہ کیا۔ انکا کہنا تھا کہ عمران حان نے نوازشریف سے کہا تھا کہ دھاندلی ہوئی آپ مستعفی ہوں حالانکہ وہ انتخابات نگراں حکومت میں ہوئے تھے۔ جو مطالبہ عمران خان نوازشریف کیلئے کررہے تھے، ہم وہی مطالبہ آج پی ٹی آئی کی حکومت کیلئے کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک بار پھر سیاسی جماعتوں سے کہاکہ وہ لکھ کردیں دوبارہ انتخابات کیلئے تیارہیں، تاہم چیلنج کرتا ہوں کہ یہ لوگ ایسا نہیں کریں گے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت سے استعفیٰ مانگنے کا ابھی کوئی مرحلہ نہیں آیا تاہم اس سے استعفیٰ مانگنا کسی کا انتقامی جذبہ ضرور ہوسکتا ہے۔
عمران خان نے 2013ء کے انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے 4 حلقے کھولنے کا تھا۔ یہ حلقے کھلوانے کا عمران خان کے نزدیک مقصد دھاندلی ثابت کرنا تھا۔ حکومتی اکابرین اور سیاسی ایلیٹ نے عمران خان کے مطالبے پر انہیںالیکشن کمشن سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔ قانون کے تحت انتخابی دھاندلی کا معاملہ جوڈیشل کمشن میں جانا چاہیے جو 4 ماہ میں فیصلہ کرنے کا پابند ہے عمران خان نے جو حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا تھا ان کی شکایت ٹربیونلز میں بھی کی گئی تھی آج انتخابات کو دو سال ہوئے اور اس دوران صرف ایک حلقے کا فیصلہ ہوا اور تین کا معاملہ ابھی تک لٹکا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں ایسا بھی ہوتا رہا ہے کہ شکایت کنندہ کے حق میں فیصلہ اگلے الیکشن کے بعد آیا۔ عمران خان کے بقول انہوں نے 4 حلقے کھلوانے کے لئے ہر متعلقہ فورم سے رجوع کیا مگر جواب نہ پا کر اگلے لائحہ عمل کا اعلان کر دیا جس میں جوڈیشل کمیشن کا قیام شامل تھا۔ جوڈیشل کمشن کے قیام کے مطالبے پر سیاسی اکابرین نے اسے آئین اور قانون کے خلاف قرار دیا کیونکہ انتخابی دھاندلی یا بے ضابطگی کے حوالے سے ٹربیونل ہی واحد اور صحیح فورم ہے۔ تحریک انصاف نے جوڈیشل کمیشن کے ذریعے 2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لئے وزیر اعظم نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسلام آباد پر چڑھائی کا اعلان کر دیا۔ اب تحریک انصاف پورے ملک کے حلقے کھولنے کا مطالبہ کر رہی تھی اور اس موقع پر عوامی تحریک ’’جمعہ جنج نال‘‘ شامل ہو گئی۔ ان دو پارٹیوں نے اسلام آباد میں کئی ماہ جو تماشا لگایا وہ پوری دنیا نے دیکھا۔ طاہر القادری تو شو درمیان میں چھوڑ کر کینیڈا تشریف لے گئے۔ جبکہ عمران خان ڈٹے رہے۔ تحریک انصاف کے دھرنے سے عام آدمی کی تو بری حالت جو ہوئی سو ہوئی پارلیمنٹ کے راستے بند اور عدلیہ کو بھی انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار نے اقتصادی سروے اور بجٹ کے دوران معاشی اہداف حاصل نہ ہونے کی ایک وجہ دھرنوں کو بھی قرار دیا ہے۔
چینی صدر کا دورہ دھرنوں کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا چینی صدر شیڈول کے مطابق پاکستان آتے تو اقتصادی راہداری اور انرجی کے منصوبوں میں اب تک کسی حد تک پیش رفت ہو چکی ہوتی۔ عمران کے دھرنوں اور حکومت کی ہٹ دھرمی نے قوم کے 4 قیمتی ماہ ضائع کر دیئے جس کے بدترین اثرات معیشت پر پڑے۔ عمران خان نے وزیر اعظم کے استعفے کے مطالبے میں نرمی پیدا کر کے آخر میںمحض جوڈیشل کمشن کے قیام کے مطالبے پر ہی اکتفا کر لیا تھا مگر یہ مطالبہ بھی تسلیم نہ ہوا۔ اس دوران 16 دسمبر 2014ء کو پشاور میں ملٹری سکول پر بدترین اور اندوہناک دہشتگردی ہوئی جس پر تحریک انصاف نے دھرنا خود ہی ختم کر دیا اس کا حکومت نے بھی مثبت جواب دیا اور جوڈیشل کمشن کے قیام کے لئے آرڈی نینس جاری کر کے تحریک انصاف کی ڈیمانڈ پوری کر دی۔ جوڈیشل کمشن کے قیام کے حوالے سے دونوں پارٹیوں نے معاملات ٹیبل پر طے کئے۔ اگر یہ کام پہلے روز کر لیا جاتا تو قوم اور ہر ادارہ آزمائش سے محفوظ رہتا۔
خیبر پختون خواہ میں تین جماعتی اتحاد کی احتجاجی مظاہروں اور شٹر ڈائون ہڑتال کی کال بھی تحریک انصاف کے دھرنوں سے ملتی جلتی ہے، اس تحریک کی سرخیل عوامی نیشنل پارٹی ہے جس کی 2013ء کے عام انتخابات کے مقابلے میں اپنی کارکردگی کہیں بہتر رہی۔ جے یو آئی 2013ء کی طرح بلدیاتی الیکشن میں بھی دوسرے نمبر پر رہی، پیپلز پارٹی خیبر پی کے میں بدستور گردش ایام کا شکار نظر آئی۔ مظاہروں کا اعلان کرنیوالی پارٹیوں میں سے کسی نے اپنی پوزیشن بہتر بنائی اور کسی نے برقرار رکھی۔ جماعت اسلامی کو البتہ خسارہ ضرور ہوا۔ وہ حکومت میں شامل دھاندلی کے الزامات کا پہلا تیر جماعت اسلامی کی طرف سے پھینکا گیا اس کے بعد چل سو چل اور تحریک انصاف سے ادھار کھائے بیٹھی مخالف پارٹیوں نے لشکر کشی کا اعلان کر دیا۔
تحریک انصاف کے دھرنوں کی سوائے جماعت اسلامی کے کسی پارٹی نے حمایت نہیں کی تھی۔ جماعت اسلامی محض زبانی حمایت تک محدود رہی دھرنوں میں شامل نہیں ہوئی تھی۔ تمام پارٹیوں نے متحد ہو کر تحریک انصاف کے جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کے مبینہ ایجنڈے کو ناکام بنایا۔ میاں افتخار کہتے ہیں کہ جو عمران خان نواز شریف کے لئے کہہ رہے تھے وہ وہی مطالبہ آج تحریک انصاف سے کر رہے ہیں۔
انہیں یاد ہونا چاہیے کہ عمران خان کے اس مطالبے کی سیاسی جماعتوں بشمول اے این پی، جے یو آئی اور پی پی پی نے مخالفت اور شدید مذمت کی تھی۔ سہ جماعتی اتحاد ہو سکتا ہے کہ صوبائی دارالحکومت میں کاروباری سرگرمیاں مفلوج کرنے میں کامیاب ہو جائے اس کا فائدہ کس کو پہنچے گا؟ عمران خان نے بھی وفاقی دارالحکومت کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ بڑے شہروں میں بڑے بڑے جلسے بھی کئے۔ کیا وہ اپنے مطالبات بزور بازو منوانے میں کامیاب ہوئے؟ معاملات بالآخر مذاکرات کی میز پر طے ہوئے۔ عمران خان شروع سے دوبارہ انتخابات کرانے کا مطالبہ کر رہے تھے جس پر کوئی سیاسی پارٹی تیار نہیں تھی۔ اس کے برعکس عمران خان نے دوبارہ بلدیاتی الیکشن کرانے کی پیشکش کی ہے۔ الیکشن کمشن بھی شکایات کا جائزہ لینے کے لئے موجود ہے۔ ایک طرف سہ جماعتی اتحاد صوبائی حکومت سے مستعفی ہونے پر زور دے رہا ہے، دوسری طرف اسی حکومت سے ہنگاموں میں ہلاک اور زخمی ہونیوالوں افراد کو معاضہ دینے کا مطالبہ بھی کر رہا ہے۔ کہا گیا ہے کہ حکومت کے مستعفی ہونے تک تحریک جاری رہے گی۔ اس تحریک کی کامیابی کا شاید انہیں خود بھی یقین نہیں ایسا ہوتا تو یہ پارٹیاں اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہو جاتیں۔ بہر حال انہیں اس حد تک جانے کا مشورہ نہیں دیا جا سکتا۔ دانش مندی اسی میں ہے کہ صوبے میں جمہوریت کو چلنے دیا جائے۔ دوسری صورت میں جمہوریت کو اجتماعی طور پر شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ صوبائی حکومت بھی دھاندلی کے الزامات کو تسلیم کرتی ہے۔ الیکشن کمشن صوبائی حکومت کے ماتحت نہیں وہ آزاد اور خود محتار ہے۔ شکایات کا یقیناً ازالہ کرے گا۔ جہاں ضمنی ہونگے وہاں امیدوار، فوج، رینجرز یا ایف سی کی زیر نگرانی الیکشن کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کی طرف سے دوبارہ بلدیاتی الیکشن کا آپشن بھی موجود ہے۔ سہ جماعتی اتحاد یہ آپشن بھی استعمال کر سکتا ہے۔ اتحاد یکطرفہ کشیدگی سے گریز کرے جو معاملات مذاکرات اور بات چیت سے حل ہو سکتے ہیں ان کے لئے مظاہرے اور شٹر ڈائون کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔