وزرات داخلہ اور اس کے ماتحت وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے جس بہادری کے ساتھ ایگزیکٹ کمپنی کے خلاف چھاپا مار کارروائیاں کی وہ قابل تحسین ہے ۔ مگر اس جرات کی جھلک سابق فوجی حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں نظر نہیں آتی ۔ جعلی تعلیمی ڈگریوں کے الزام میں کمپنی کے دفاتر سر بمہر کئے گئے ، رکارڈ قبضے میں لیا گیا اور کمپنی کے اہلکاروں کو گرفتار کر کے ریمانڈ حاصل کیا گیا ۔ اس سے قانون کا بول تو بالا ہوا مگر دوسری طرف پرویز مشرف کے خلاف یہی وزارت داخلہ اور ایف آئی اے کے حکام پہلے تحقیقات اور پھر مقدمے کے دوران بھیگی بلی بلکہ نچوڑی ہوئی بلی بنے رہے ۔ ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم کو پرویز مشرف کے بطور آرمی چیف تین نومبر کے فرمان کے ریکارڈ کے حصول کے لیے جی ایچ کیو میں داخل ہونے کی اجازت ملی نہ ہی اس حوالے سے ان کے خطوط کا جواب دیا گیا ۔ بات تو تب تھی کہ یہی وزارت داخلہ اور ایف آئی اے پرویز مشرف کے خلاف تحقیقات میں بھی ایسے ہی اقدامات کرتے جیسے ایگزیکٹ کمپنی کے خلاف کیے گئے ۔ بدقسمتی سے گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران پرویز مشرف غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت اور پھر اس کو روکنے والی اسلام آباد ہائی کورٹ میں حکومت کی طرف سے جو مبہم موقف اپنایا گیا وہ کسی ڈرامے سے کم نہیں تھا ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت کو سابق وزیر اعظم شوکت عزیز ،سابق وزیر قانون شاہد حامد اور سابق چیف جسٹس(غیر آئینی) عبدالحمید ڈوگر کے خلاف تحقیقات کے لیے خصوصی عدالت کے حکم پر کارروائی سے روک دیا ۔حکومت نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف کئی ماہ تک بلکہ ابھی تک اپیل ہی نہ کی جس کے بعد خصوصی عدالت نے بھی پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی سماعت بار بار ملتوی کرنا مناسب سمجھا ۔ شریک ملزمان کے حق میںحکم امتناعی دینے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے غیر مستقل ایڈیشنل جج جسٹس اطہر من اللہ نے چھ ماہ گزرنے کے بعد فیصلہ دیا کہ یہ معاملہ ایک سے زائد ججوں کے بس کی بات ہے ۔اب ایک سے زائد ججوں پر مشتمل (یعنی دو جج)بنچ بن چکا ہے اور حکومت نے بھی شریک ملزمان کے خلاف تحقیقات کرنے کے لیے محض رضا مندی کا اظہار کیا ہے ۔ فرق صاف ظاہر ہے کہ حکومت کے لیے بظاہر جعلی ڈگریوں کے کاروبار کا جرم سنگین غداری کے جرم سے زیادہ سنگین ہے ۔ آج قانون کا بول بالا کرنے کے نام پر میڈیا کے بول کو نشانہ بنا کر کچھ شخصیات اور ادارے رقیب میڈیا کے سہارے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔اسی شعیب کا تعلق کسی اور ادارے سے ہوتا یا اسی شیخ کی شہریت کسی اور ملک سے ہوتی تو ہم دیکھتے کہ حکومتی شیر کس طرح اپنے پنجے گاڑھتے ایگزیکٹ کے خلاف کارروائیوں، پریس کانفرنسوں اور میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں سے لگتا ہے کہ ایگزیکٹ کمپنی نے جعل سازی نہیں بلکہ آئین سے سنگین غداری کر ڈالی ہے ۔ ہمارا قومی المیہ ہے کہ چور اچکے اور جعل ساز جن کا کوئی وارث نہیں ہوتا ان کو حوالات میں بند کر کے مقدمہ چلایا جاتا ہے ۔ جبکہ ملک اور آئین سے غداری کے ملزمان کے خلاف تحقیقات اور کارروائی سپریم کورٹ کے فیصلوں کے باوجود کاغذی تحقیقات ، سرکاری ملازموں کی شہادتوں اور تشریح طلب عدالتی فیصلوں کے گھن چکر میں گم جاتی ہے ۔ ایگزیکٹ کمپنی سے متعلق وزارت داخلہ اور ایف آئی اے کے اخباری بیانات اور پریس کانفرنسوں کی طرح قوم کو سابق فوجی حکمران کے خلاف آئین سے سنگین غداری کیس میں پیش رفت کے بارے میں بھی آگاہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ یہ بتایا جائے کہ قوم کے کروڑوں روپوں کے اخراجات کے باوجود خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے خلاف تسلیم شدہ غیر آئینی اقدامات پر ابھی تک عدالتی فیصلہ کیوں نہیں آیا ؟یہ بھی بتایا جائے کہ حکومت نے مشرف کے شریک ملزمان کے خلاف مقدمے کے آغاز میں ہی کارروائی نہ کر کے قوم کا وقت اور پیسہ کیوں ضائع کیا گیا ؟وزیر داخلہ اور ایف آئی اے کو شعیب شیخ کے ساتھ نمائشی باکسنگ میچ کھیل کر قانون کی بالا دستی ثابت کرنے کی بجائے اصل مکے باز کا مقابلہ کرنا ہو گا تاکہ ان کی صلاحیتوں کا اصل امتحان ہو سکے ۔وگرنہ اس نمائشی مقابلے کے بعد جو کامیابی کی سند وہ حاصل کرنا چاہ رہے ہیں وہ ایگزیکٹ کمپنی کی جاری کردہ اسناد سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہو گی ۔ ہماری وزارت داخلہ اور ایف آئی اے کا اصل امتحان بے دست و پا شعیب شیخ نہیں بلکہ سنگین بردار وہ فوجی آمر ہے جس نے آئین سے سنگین کی نوک پر سنگین غداری کی ۔کیا کہنا ہے ہمارے قانون اور اس کی من پسند تشریح کرنے والوں کا کہ جعلی ڈگری والے تو پابہ زنجیر و پابندسلاسل ہوں اور آئین کو پامال کرکے جعلی آئینی فرمانوں کے ذریعے حکومت کرنے والے آزاد ہوں ۔آئین سے سنگین غداری کرنے والے فارم ہائوس میں بیٹھے دوسروں کو پاکستان سے وفاداری اور غداری کے ’’اصلی‘‘ سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں ۔ہمارے آئین اور قانون میں( کچھ قانون دانوں کی رائے میں) اتنی سہولتیں ہیں کہ شاید جعلی ڈگری والوں کو بھی وہ سہولتیںمیسر نہیں ۔اب خود ہی بتائیں کیا شعیب شیخ آج کسی فارم ہائوس میں بیٹھ کر میڈیا کو انڑویو دے سکتا ہے ؟ ایسے میں اگر آئین سے سنگین غداری کے ملزم کو بولنے کی اجازت ہے تو پھر بول ٹی وی کے بولنے پر پابندی کیوں ؟ اس کے مالک کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں کیسی ؟آخر انصاف کی ریڑھی پر ترازو کے پلڑے برابر کیوں نہیں ؟ شاید امیر اور طاقتور لوگ ریڑھی سے خریداری کرتے ہی نہیں ۔ ان کے لیے تو بڑے بڑے ایئر کنڈیشنڈ شاپنگ مال اور گروسری سٹور بنائے گئے ہیں ۔عوام نے اس حکومت کی کارکردگی کی فلم دیکھنے کے لیے جو ٹکٹ خریدا ہے اس میں ایگزیکٹ کمپنی اسکینڈل کے ایک آئٹم سونگ (لچرموسیقی و ناچ)کے ذریعے ان کے پیسے پورے کرنے کی کوشش نہ کی جائے ۔ایگزیکٹ کمپنی اسکینڈل کے برعکس مشرف غداری کیس میں فیصلوں کا اختیار شاید وزارت داخلہ کے پاس نہیں ۔ یقینا ایسے فیصلے اس بیچارے سیکرٹری داخلہ نے نہیں کرنے جس نے خصوصی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر محض اتنا کہا تھا کہ جناب تین نومبر دو ہزار سات کو جنرل پرویز مشرف نے ایک فرمان جاری کیا ۔یقینا شعیب شیخ اور پرویز مشرف میں بہت فرق ہے ۔اگر شعیب شیخ آئین کی جعلی کاپیوں کی اشاعت اور جعلی آئینی فرمانوں کے اجراء کرنے کی پوزیشن میں ہوتا تو شایداتنی مشکل میں نہ ہوتا ۔مگر وہ ایسا کر نہیں سکتا تھا کیونکہ اس کے پاس سنگین تھی اور نہ ہی اس کی جعلی ڈگریوں پر اعلیٰ عدالتوں کی اصلی مہر تصدیق ۔ وہ ’’بیچارہ ‘‘ تو سنگین جعلسازی بھی نہ کر سکا ۔ لگتا ہے کہ حکومت سنگین غداری کے مقدمے کی آئینی سنگینی کو محسوس کرنے کی بجائے کسی سنگین کو محسوس کررہی ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024