جب مادر ملت کو چھ لاکھ غمزدہ ہجوم نے مزار قائد کے احاطہ میں سپرد خاک کیا

عیشہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com
خواتین چھتوں سے جنازے پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتی رہیں
 کے ایچ خورشید اور ایم اے ایچ اصفہانی نے لرزتے ہاتھوں، کپکپاتے ہونٹوں اور بھیگی ہوئی آنکھوں کے ساتھ مادر ملت کے جسد خاکی کو قبر میں اتارا
قائد اعظم کی وفات کے بعد قوم ان کی بہن فاطمہ جناح میںبانی پاکستان کی جھلک دیکھتی تھی۔البتہ کچھ نادیدہ قوتیں یہ نہیں چاہتی تھیں کہ قائد کی وفات کے بعد ان کی ادھوری جدوجہد کو فاطمہ جناح پورا کریں۔ قائد اعظم کا مقصد صرف پاکستان بنانا ہی نہیں تھا بلکہ پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ایک ایسی سمت ،ایسا سسٹم دینا تھا جس پر چل کر جمہوری وطن کامیابیوں سے ہمکنار ہو۔ فاطمہ جناح قائد اعظم کی نا صرف بہن تھیںبلکہ انھوں نے قائد کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو کر حصول پاکستان کی جنگ لڑی۔  اگریہ کہا جائے کہ قائد کی سب سے زیادہ نزدیک ان کی بہن تھیں جو قائد کے ذہن میں موجود خیالات تک سے واقف تھیں تو بے جا نہ ہوگا۔ لیکن افسوس کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی ہمارے دامن میں کچھ نا دیدہ قوتیں موجود رہیں جو قائد کے بعد فاطمہ جناح کو لیڈ کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ فاطمہ جناح قائداعظم کی وفات کے بعد 19 سال زندہ رہیں اور سیاست میں دبنگ انداز اپنایا یہاں تک کہ قائد کی بہن کو غداری تک کے الزام  کو سہنا پڑا۔حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ قائد اعظم کی وفات کے بعد اس وقت کی حکومت اور انتظامیہ کسی صورت بھی نہیں چاہتی تھی کہ فاطمہ جناح آزادی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرسکیں۔ اس کوشش میں وہ اس حد تک آگے بڑھ گئے تھے کہ ریڈیو پاکستان سے ان کی تقریر کے دوران کچھ مواقع پر نشریات روک دی گئیں۔ قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب شہاب نامہ کے صفحہ نمبر 432 مطبوعہ جنوری 1986 باب چہارم میں لکھتے ہیں کہ:قائد اعظم کی وفات کے بعد محترمہ مِس فاطمہ جناح اور حکومت کے درمیان سرد مہری کا غبار چھایا، اور قائد کی دو برسیاں آئیں اور گزر گئیں۔ دونوں بار مِس جناح نے برسی کے موقع پر قوم سے خطاب کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کی شرط یہ تھی کہ براڈ کاسٹ سے پہلے وہ اپنی تقریر کا متن کسی کو نہیں دکھائیں گی، جبکہ حکومت شرط ماننے پر آمادہ نہیں تھی۔ غالباً انہیں خوف تھا کہ نہ جانے مِس جناح اپنی تقریر میں حکومت پر کیا کچھ تنقید کر جائیں گی۔
آخر خدا خدا کر کے قائد اعظم کی تیسری برسی پر یہ طے پایا کہ محترمہ فاطمہ جناح اپنی تقریر پہلے سے سنسر کروائے بغیر ریڈیو سے براہ راست نشر کرسکتی ہیں۔ تقریر نشر ہورہی تھی کہ ایک مقام پر پہنچ کر اچانک ٹرانسمیشن بند ہوگئی۔ کچھ لمحے ٹرانسمیشن بند رہی، اس کے بعد خود بہ خود جاری ہوگئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ مِس جناح کی تقریر میں کچھ فقرے ایسے تھے جن میں حکومت پر کچھ تنقید تھی۔ وہ تو بدستور ان فقروں کو مائیک پر پڑھتی گئیں، لیکن ٹرانسمیشن بند ہوجانے کی وجہ سے وہ فقرے براڈ کاسٹ نہ ہوسکے۔ اس بات پر بڑا شور شرابا ہوا۔ اخباروں میں بہت سے احتجاجی بیانات بھی آئے۔ اگرچہ ریڈیو پاکستان کا مؤقف یہی تھا کہ ٹرانسمیشن میں رکاوٹ کی وجہ اچانک بجلی فیل ہونا تھی، لیکن کوئی اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہ تھا۔ سب کا یہی خیال تھا کہ مس جناح کی تقریر میں ضرور کوئی ایسی بات تھی جسے حذف کرنے کے لیے یہ سارا ڈھونگ رچایا گیا ہے۔ اس ایک واقعے نے حکومت پر اعتماد کو جتنی ٹھیس پہنچائی اتنا نقصان مس فاطمہ جناح کے چند تنقیدی جملوں نے نہیں پہنچایا تھا۔ اس بات سے ہی حالات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پھر جب فاطمہ جناح کی پر اسرار موت واقع ہوئی تب انھیں سپرد خاک کرنے پر ایک طرح کا ایشو بن گیا۔اس حوالے سے آغا اشرف اپنی کتاب ’’مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح‘‘ مطبوعہ بار اوّل 2000 کے صفحہ نمبر 184 پر لکھتے ہیں: 'محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی زندگی میں یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ مرنے کے بعد انہیں قائد اعظم کے پاس دفن کیا جائے۔ اب محترمہ فاطمہ جناح کی وفات کے بعد یہ مسئلہ پیش آیا کہ انہیں کس جگہ دفن کیا جائے۔ بقول مرزا ابو الحسن اصفہانی صاحب اس وقت کی حکومت محترمہ کو میوہ شاہ قبرستان میں دفنانا چاہتی تھی جس کی مخالفت کی گئی اور کمشنر کراچی کو متنبہ کیا گیا کہ اگر محترمہ فاطمہ جناح کو قائد اعظم کے مزار کے قریب دفن نہ کیا گیا تو بلوہ ہو جائے گایہ فیصلہ تو ہو گیا کہ محترمہ فاطمہ جناح کو بلوے کے خدشے کے پیشِ نظر مزار قائد کے احاطے میں دفن کیا جائے، لیکن اس کے باوجود ان کی تدفین کے موقع پر بلوہ ہوا۔ آغا اشرف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ:لوگوں نے جب مادر ملت کو ستارہ ہلال کے سبز پرچم میں لپٹے ہوئے دیکھا تو پاکستان زندہ باد، مادر ملت زندہ باد کے نعروں سے خراج عقیدت پیش کیا۔راستے میں چھتوں سے عورتیں مادر ملت کے جنازے پر پھول کی پتیاں نچھاور کر رہی تھیں۔ جلوس دس بجے پولو گراؤنڈ پہنچ گیا جہاں میونسپل کارپوریشن نے نماز جنازہ کا انتظام کیا تھا۔ وہاں جنازہ پہنچنے سے پہلے ہزاروں لوگ جمع ہو گئے تھے۔ دوسری نماز جنازہ مفتی محمد شفیع نے پڑھائی۔ نماز جنازہ کے بعد میت کو دوبارہ گاڑی میں رکھ دیا گیا۔ اب ہجوم لاکھوں تک پہنچ چکا تھا۔ جلوس جوں جوں آگے بڑھتا رہا، لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیااس وقت دوپہر کے بارہ بجے تھے اور لوگوں کی تعداد چھ لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی کیونکہ مادر ملت کی موت پر تمام دکانیں، تعلیمی ادارے، سرکاری دفاتر، سنیما گھر وغیرہ بند تھے اور حکومت کی طرف سے عام تعطیل ہونے کے باعث اہل کراچی نے بانی پاکستان کی ہمشیرہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کے لیے ان کے جنازے کے جلوس میں شرکت کی تھی۔ اس بے پناہ ہجوم کے باعث گڑبڑ یقینی تھی۔اچانک کچھ لوگوں نے جنازے کے قریب آنے کی کوشش کی۔ پولیس نے پر امن طریقے سے انہیں پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی تو ایک ہنگامہ برپا ہوگیا اور پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ آنسو گیس کا استعمال کیا۔ جوابی کارروائی میں پولیس پر پتھراؤ ہوا۔ پولیس کے کئی سپاہی زخمی ہوئے۔ ایک پیٹرول پمپ اور ڈبل ڈیکر کو آگ لگا دی گئی۔ ایک شخص اس حادثے کا شکار ہوا اور کئی بچے عورتیں اور مرد زخمی ہوئے۔  یہ سب کچھ عین اس وقت پر ہوا جب محترمہ سے ابدی جدائی کے غم میں ہر شخص سوگوار تھا۔ محترمہ فاطمہ جناح کی نماز جنازہ میں پانچ لاکھ افراد کا اجتماع زبردست خراج تحسین ہے۔ بارہ بج کر پینتس منٹ پر کے ایچ خورشید اور ایم اے ایچ اصفہانی نے لرزتے ہاتھوں، کپکپاتے ہونٹوں اور بھیگی ہوئی آنکھوں کے ساتھ خاتونِ پاکستان کے جسد خاکی کو قبر میں اتارا۔ جونہی میت کو لحد میں اتارا گیا، ہجوم دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔
قوم کے لیے بھائی کے ساتھ کھڑی رہنے والی صنف آہن بھائی سے جدائی کے بعد بھی ڈٹی رہیں۔ ایوب خان سے مقابلہ کیا اور انتخابات کی پھرپور مہم چلائی۔ اس وقت عام رائے یہی پائی جا رہی تھی کہ فاطمہ جناح ہی انتخابات جیت پائیں گی لیکن نتائج اس کے بر عکس نکلے۔ انتخابی مہم کے دوران  مخالفین کی جانب سے یہ تک بھلا دیا گیا کہ جو غیر پارلیمانی الفاظ وہ ایک خاتون کے لیے ادا کر رہے ہیں وہ کوئی اور نہیں بلکہ بانی پاکستان کی ہمشیرہ ہیں۔ 
اقتدار کے نشے نے عزت و احترام تک کی لکیر مٹا دی۔یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کو وجود میں آئے چند ہی سال بیتے تھے۔ یہ ملک اس طرح تھا جیسے کوئی ننھا بچہ ہو اور ننھے بچے کو پھلنے پھولنے کے لیے ماں کی گود کے علاوہ اور کیا چاہیے ہوتا ہے؟ہم نے فاطمہ جناح کو مادر ملت کا لقب دے دیا جیسا کہ دستور چلا آرہا ہے کہ جانے والے کو اس کے جانے کے بعد عزت و تکریم سے نوازا جاتا ہے۔ لیکن مادر ملت کی جب قوم کو ضرورت تھی تو  مادر ملت کی گود سے ملک کو محروم رکھا گیا۔ آج دم  گھٹتی جمہوریت اور ہر دم اس پر لٹکتی آمریت کی تلوار کی ابتداء کا سرا شاید اسی وقت سے ملتا ہے جب  فاطمہ جناح کو ایوان اقتدار سے دور رکھنے کے لیے غدار کہا گیا تھا۔ غداری کے اس لیبل کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔ ملک بنانے والے اگر غدار ٹھہرے تو وللہ عالم ہماری حب الوطنی کا پیمانہ کیا ہے؟

ای پیپر دی نیشن

مولانا قاضی شمس الدین

ڈاکٹر ضیاء الحق قمرآپ 1916ء مطابق 1334ھ کو کوٹ نجیب اللہ، ہری پور ہزارہ میں مولانا فیروز الدین کے ہاں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق ایک ...