غذائی قلت کے حوالے سے وزیراعظم کا خوش آئند قدم
ملک میں غذائی قلت کا مسئلہ ایک حساس نوعیت کا معاملہ ہے۔ سالانہ کی بنیاد پر غذائی قلت کے شکار خواتین اور بچے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں اور اس حوالے سے اگر سروے کیاجائے تو و طن عزیز کے غریب علاقے اس حوالے سے سرفہرست ہوں گے۔تاہم بدقسمتی سے ماضی میں اس حوالے سے کوئی غذائی قلت کے معاملے پر کسی خاص سطح پر سروے نہیں کیاگیا جوکہ حقیقی صورت حال کو سامنے لاسکے۔ بعض کم نجی ادارے اس حوالے سے ملک میں کام کرتے ہیں مگر گزشتہ چند عرصے کے دوران نجی ادارے بھی اس جانب توجہ نہیں دے رہے،اس لئے حقیقی اعداد وشمار سامنے نہیں آپارہے ۔ بہرحال اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے اب جواقدام اٹھانے کافیصلہ کیا ہے یہ انتہائی خوش آئندہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے ایک تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کا سب سے بڑا چیلنج فوڈ سیکیورٹی ہے۔ ملک میں 40 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ہم نے اپنی قوم کو آنے والے مسائل سے بچانا ہے تو یہ اہم ہے۔ پاکستان کے 40 فیصد بچے غذا کی کمی کی وجہ سے معمول کے مطابق نشو ونما نہیں پاتے۔ ہم پہلی مرتبہ پروگرام لے کر آرہے ہیں جو ان مسائل سے متعلق ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہاکہ ہم جب آئے تو پتہ چلا کہ بچوں کو دودھ بھی خالص نہیں مل رہا اور اس میں مختلف اشیا ملائی جارہی ہیں اور جب خالص کرنے کی کوشش کی گئی تو دودھ کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ اگر ہم اسی طرح چلتے رہے تو فوڈ سیکیورٹی اتنا بڑا مسئلہ بن جائے گا کہ ہمارے لیے قومی سلامتی کا مسئلہ بن جائے گا، قوم کے 15 یا 20 فیصد لوگ بھوکے رہ گئے تو وہی ہمیں پیچھے لے جانے کے لیے کافی ہوں گے۔ ہم آج سے فیصلہ کر رہے ہیں کہ آگے ہمیں فوڈ سیکیورٹی کا مسئلہ نہ ہو بلکہ ہم غذائی اجناس برآمد کریں گے۔ ہمیںاللہ نے بے شمار مواقع دئیے ہیں اور ہم کچھ بھی اگا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ نہ صرف کسان کی مدد کرنی ہے بلکہ تحقیق کرکے بتانا ہے کہ کس علاقے میں کیا اگا سکتے ہیں؟ سی پیک میں زراعت کوشامل کیا ہے اور چین کی ٹیکنیک کو لے کر آئیں گے۔ چین نے غربت کو ختم کیا تو سب سے زیادہ زور چھوٹے کسانوں پر دیا تھا اور دیہات میں غربت ختم کی۔ بالکل اسی طرح ہم بھی چھوٹے کسان کی مدد کریں گے کیونکہ ان کے پاس وسائل نہیں ہیں۔ کسانوں کو قرضے دینے کا پروگرام شروع کیاہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں کسان کارڈ کا پروگرام زبردست منصوبہ ہے، جس کے تحت کسانوں کو براہ راست قرضے ملیں گے۔ چولستان اور بلوچستان اور سابق فاٹا کے ضم اضلاع میں زمین خالی پڑی ہے۔ ہمارا کام ہے کہ ساری دنیا سے کسانوں کے لیے جدید مشینری اور تیکنیک لے آئیں اور انہیں بتائیں۔ جس طرح سے غذائی قلت کے مسئلے کو بنیادی سطح سے اٹھاکر اسے حل کرنے کیلئے پالیسی بنانے کی بات کی ہے‘ اس سے ایک امید کی کرن پیدا ہوجائے گی کہ ملک بھر سے غذائی قلت کے باعث ہونے والی اموات پر قابو پایاجاسکے گا مگر اس حوالے سے موثر مانیٹرنگ کا نظام بھی ہونا چاہیے تاکہ جو اہداف حاصل کرنے کیلئے جن کو ذمہ داری سونپی جائے وہ باقاعدہ طور پر وزیراعظم کو اس حوالے سے بریفنگ دیں۔ خاص کر غریب علاقوں کو اس اہم مسئلے پر نظرانداز نہیں کرنا چاہئے کیونکہ عرصہ دراز سے یہی مطالبہ کیاجارہا ہے کہ غذائی قلت کے خاتمے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ خواتین اور بچوں کی اموات پر قابو پایاجاسکے اور بچوں کی نشوونما بہتر انداز میں ہوسکے۔
دوسری جا نب اگر دیکھا جائے توموجودہ بجٹ کے مطابق اب ملکی معیشت بہتر ی کی سمت گامزن ہے اور غریب عوام کو مشکلات سے نکالنے کیلئے بہت سے پروگرام ترتیب دیئے گئے ہیں جن کی ماضی میںکوئی مثال نہیں ملتی۔ موجودہ بجٹ مکمل طور پر غریبوںکے لیے ہے جبکہ بجٹ ترمیم پر چند ایک کے علاوہ کسی نے تقریر نہیں کی۔ دیکھا جائے تو ماضی کی نسبت تاریخ میں پہلی مرتبہ غریب کے لیے روڈ میپ دیا گیا ہے۔ لوگوں کو گھر ملیں گے، صحت کارڈ ملیں گے کیونکہ موجودہ بجٹ مکمل طور پر غریب کے لیے ہے۔فنانس بل میں کچھ ترامیم کی گئی ہیں۔ حزب اختلاف نے ترامیم پر کم بات کی تقاریر کی گئیں لیکن بقول وزیر خزانہ ہم نے جو اعداد و شماردیئے ہیں ان پر عمل کر کے دکھا دیں گے۔ مہنگائی صرف سات فیصد ہے اور کھانے پینے کی اشیائ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ زراعت پر خرچ نہیں کریں گے تو کھانے پینے کی اشیائ درآمد کرنا پڑیں گی۔ ہم زراعت پر 150 ارب روپے لگا رہے ہیں اور کہا یہ جا رہا ہے کہ کچھ نہیں کیا۔یہ امر حقیقی ہے کہ زراعت کی ترقی ملک میں خوشحالی کی نوید ہے ‘ ہماراملک زیادہ زرعی اراضیات پرمشتمل ہے۔ہمارے ہاں زراعت کے حوالے سے وافر مقدار میں گندم اور چاول ہوتا ہے۔باقی فروٹ کا بھی کوئی مول نہیں کہ ہمارے سیب ،آم ودیگرپھل برآمد کئے جاتے ہیں ۔ جب برآمد کا سلسلہ بڑھے گا تو معاشی صورتحال بہتر ہوگی۔ اس حوالے سے ہر ملک کی اپنی جغرافیائی اور ترقی کی پوزیشن ہوتی ہے۔ تاہم ہمارے ملک میں زرعی پیداوارمیں اضافہ اور اس کے لئے حکومتی اقدامات آئندہ چند سالوں میں نچلی تک خوشحالی آئے گی۔ پہلے پہل20 ارب ڈالر کا بجٹ خسارہ چھوڑا گیا جس کی وجہ سے موجودہ حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔یہ اعلان حکومت کی جانب سے کیا گیا ہے کہ قصداً ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کو کسی صورت نہیں چھوڑا جائے گا، انہیں گرفتار کیا جائے گا۔ یہ امر قابل تعریف ہے کہ کھاد پر ٹیکس کم کیا گیا ہے ،جس سے زرعی پیداوار میں اضافہ دیکھنے کو ملے گا اور زمیندار کو کھاد جب کم قیمت میں ملے گی تو وہ آبادی میں اضافہ کے لئے اس کا استعمال زیادہ کرے گا۔