اقتدار بہت بے رحم چیز ہے اور اقتدار کی ہوس اس سے بھی تباہ کن ہے، ہمیشہ اقتدار میں رہنے کی خواہش بھی انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ ایوانِ اقتدار میں رہتے ہوئے اوپر تک جانے کے لیے انسان کس حد تک گر سکتا ہے اس کا اندازہ ان دنوں پنجاب میں ہونے والی گندی سیاست کو دیکھ کر باآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ ویسے اس طرح کی گندی سیاست اور سازشوں سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے لیکن آج تک ہم نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ اقتدار کے ایوان ہر دور میں سازشوں کے گڑھ بنے رہے ہیں۔ ان دنوں بھی بنے ہوئے ہیں۔ سیاست دان سازشوں میں مصروف ہیں اور عوام کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ انہی سازشوں میں ایک سیاہ اضافہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف ہونے والی کردار کشی کی مہم کا ہے۔ اس سازش کے محرکات کو جانچنے کی ضرورت ہے۔ کن افراد نے اس میں منفی کردار ادا کیا ہے اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت وزیر اعلیٰ پنجاب پر جال پھینکا گیا ہے۔
اس واقعے کے چند پہلو نہایت اہم ہیں، یہ معمول کی مشق ہے، اہم حکومتی شخصیات کے انٹرویوز طے ہوتے ہیں، ملتوی ہوتے ہیں اور بعض اوقات منسوخ بھی ہوتے ہیں، کیا یہ اتنا اہم ہے کہ ایک انٹرویو کے ملتوی ہونے یا وقت تبدیل ہونے کو اتنا بڑا مسئلہ بنا دیا جائے، کیا یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی اہم حکومتی شخصیت کو اچانک انٹرویو ملتوی کرنا پڑا ہو، جس کا انٹرویو کیا جا رہا ہو وہ کوئی تنخواہ دار ملازم تو نہیں کہ ہر حال میں پابند نہیں کہ تمام کام چھوڑ کر ہر حال میں اس وقت کے لیے زندگی کی تمام مصروفیات کو ترک کر کے انٹرویو کے لیے بیٹھ جائے۔
سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ کیا وزیر اعلیٰ اس سارے عمل سے واقف بھی تھے یا نہیں یا پھر ان کے ماتحت کام کرنے والوں نے ان کے ساتھ کھیل کھیلا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وزیر اعلیٰ کا دفتر استعمال ہوا ہے۔ وزیر اعلیٰ کا نام استعمال ہوا ہے جس انداز میں چیزوں کو پیش کیا گیا ہے اور جس انداز میں پیغامات کا تبادلہ ہوا ہے اور وہ پیغامات اور سوالنامہ عوام کے سامنے رکھا گیا ہے اس کارروائی نے سارا عمل مشکوک بنا دیا ہے۔
وزیراعلیٰ پہلے انٹرویو کی فرمائش کرتے ہیں، پھر موضوعات کا تقاضا کرتے ہیں، پھر سوالات کا تقاضا کرتے ہیں پھر سوالات کی ترتیب کی فرمائش کرتے ہیں اور پھر عین انٹرویو کے وقت غائب ہو جاتے ہیں۔ اس سارے عمل میں اتنا ابہام ہے کہ ذہن پر تھوڑا سا زور دیا جائے کچھ باخبر لوگوں سے بات کرنے کا موقع ملے تو کھیل سمجھنے میں آسانی رہتی ہے۔ فرمائش کرنے والے کو وقت ملے تو بھلا وہ عین وقت پر غائب کیوں ہو گا، جب وہ خود انٹرویو دینا چاہ رہا ہے تو موضوعات کی تیاری تو اس نے کر رکھی ہو گی اور جب موضوعات کی تیاری کر رکھی ہے تو پھر سوالات کی ترتیب معنی نہیں رکھتی۔ یہ اس سازش کا وہ حصہ ہے جو ابھی تک بیان نہیں کیا گیا۔ اگر کوئی خود پروگرام میں آنا چاہتا ہے تو وہ پہلے سے ہی تیار ہوتا ہے اسے سوالات اور موضوعات کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ مان لیں کہ اگر کوئی سوالات کا تقاضا کر بھی دے تو پھر اسے کسی بھی سوال کا جواب نہ دینے کا حق بھی ہوتا ہے، مزید یہ کہ پہلے سے تیار سوالات اور اس کی ترتیب کتنے لوگوں کو حاصل ہے۔ اگر یہاں امتیازی سلوک اختیار کیا گیا ہے تو پھر یہ مساوات کی نفی ہے اور میڈیا تو مساوات کا سب سے بڑا علمبردار ہے اور یہی اینکر صاحب ہر وقت دوہرے معیار کے دلائل دیتے ہیں۔ یہ تو ایک پاکستان کے فلسفے کی نفی ہے۔ یعنی دو پاکستان ہیں کمزور کا پاکستان اور ہے طاقتور کا پاکستان اور ہے۔ یہ ذہن میں رکھیں جو خود انٹرویو کے لیے جانا چاہتا ہو تو وہ دیگر مصروفیات ترک کر دیتا ہے۔
اس کے بعد اس نجی ٹی وی چینل کے اینکر کا جذباتی رویہ بھی سوالیہ نشان ہے۔ کیا یہ ان کے کیرئیر میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اچانک مصروفیت کی وجہ سے انٹرویو ملتوی کرنا پڑا ہے۔ یقیناً ایسا نہیں ہے کیونکہ حکومت میں ہوتے ہوئے اکثر اوقات ہنگامی حالت میں معمول کی مصروفیات ترک کرنا پڑتی ہیں۔ کیا انہوں نے ہر مرتبہ ایسا ہی ردعمل دیا تھا اگر نہیں تو اس مرتبہ کیوں، کیا انٹرویو نہ دینا ہی سب سے بڑا جرم ہے کہ اس کی بنیاد پر وزیر اعلیٰ کے انتخاب پر ہی سوال اٹھا دیا جائے۔ یعنی اگر وہ انٹرویو کے لیے دستیاب ہوتے تو وہ اچھا انتخاب تھے اگر وہ دستیاب نہیں ہیں تو وہ ناکام ہیں۔ ہاں وزیر اعلیٰ کی کارکردگی پر ضرور بات کریں وہ کیا کر رہے ہیں، وہ کیا کر سکتے تھے اور انہیں کیا کرنا چاہیے تھا وہ کیا نہیں کر سکے لیکن اس کے برعکس یہ تنازع کھڑا کیا گیا کہ وہ عین وقت پر دستیاب کیوں نہیں ہوئے۔ عین ممکن ہے کہ کوئی مجبوری بھی ہو سکتی ہے اور جب تک دوسرا فریق اس کا اظہار یا وضاحت نہ کر دے کیا اس وقت تک ایسی گفتگو کو عام کرنا چاہیے۔ یہ کسی بھی طریقے سے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ نہیں ہے۔ اس ردعمل سے تو واضح ہوا کہ اس معاملے میں کہیں ذاتی رنجش شامل ہے۔ یہ واضح طور پر ایک اہم ترین عہدے کی توہین کی گئی ہے اور اس عہدے پر موجود وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ کردار کشی کی اس منظم مہم کے لیے کون کون اس کھیل کا حصہ بنا ہے وہ تمام چہرے بینقاب ضرور ہوں گے۔
اس سازش کے لیے ٹائمنگ نہایت اہم ہے۔ پھر ٹی وی چینل کا انتخاب بھی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ مہم خالصتاً وزیر اعلیٰ کو ہدف بنا کر ڈیزائن کی گئی ہے۔ اس میں دو وزرائ اور سی ایم سیکرٹریٹ میں میڈیا سے متعلقہ افراد مکمل طور پر ذمہ دار ہیں۔ ایک وزیر جو کہ خود کو اطلاعات کا مالک سمجھتا ہے اور دوسرے کا اس نجی چینل سے قریبی تعلق ہے جہاں انٹرویو رکھا گیا تھا۔ اس کھیل میں ایک وزیر وہ بھی شامل ہے جاے وزیر اعلیٰ پنجاب نے یہ کہا تھا کہ اس کے محکمے کی کارکردگی ٹھیک نہیں اور کارکردگی کی بنیاد پر محکمہ تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یہ سارا کھیل اس گفتگو کے بعد ہی کھیلا گیا ہے۔جتنا ہم عثمان بزدار کو جانتے ہیں اس کے مطابق یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سارے عمل میں وزیر اعلیٰ کا کوئی قصور نہیں ہے۔ بلکہ وہ اس سارے عمل سے ہی لاعلم ہیں۔
شیخ رشید صاحب کرونا سے صحتیاب ہوئے ہیں اور انہوں نے ارشاد فرمایا ہے کہ انہیں بھی انجکشن این ڈی ایم اے کی مداخلت اور ذاتی کوششوں سے ملا ہے وہ یہ بھی فرما رہے تھے کہ جتنی وزارتیں انہوں نے چلائی ہیں پاکستان میں کسی وزیر نے نہیں چلائیں اور خیر سے آج ملک کا حال اسی وجہ سے یہ کیونکہ چودہ وزارتوں کا بیڑہ غرق تو شیخ صاحب خود کر گئے باقی کا حساب ہم بعد میں کریں گے لیکن ایک ذمہ دار وزیر کا میڈیا کے سامنے یہ کہنا کہ انہیں بھی انجکشن نہیں مل رہا تھا کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ بھی مائنس ون کے کھیل کا حصہ بن رہے ہیں وزیراعظم عمران خان کا اس حوالے ضرور دیکھنا چاہیے۔ شیخ رشید اس غلط فہمی میں بھی ہیں کہ کچھ اہم حلقوں سے ان کے بہت اچھے تعلقات ہیں اور ان کی یہ غلط فہمی بھی جلد دور ہو جائے گی۔
کمشنر لاہور کیلئے پانچ ناموں پر غور جاری ہے۔ ان پانچ افراد میں آصف بلال لودھی، کیپٹن(ر)محمدمحمود،عمران سکندر بلوچ، ذالفقار احمد گھمن اور ڈاکٹر احمد جاوید قاضی کا نام بھی زیر غور ہے عمران سکندر بلوچ سب سے مضبوط امیدوار ہیں یہ ہم بعد میں بتائیں گے کہ وہ مضبوط کیوں ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024