تاریخی شہر احمد پورلمہ ترقی یا فتہ دور میں بنیادی سہولیات سے محروم
یقینا شہر ، قصبات، تحصیل ، اضلا ع ، گائوں ، دیہات ، چکوک اور قوموں کی ترقی کا دارومدار انکی منتخب جمہوری حکومتوں او ر منتخب عوامی نمائندوں کی بلاتفریق او بے لوث کا ر کر دگی پر منحصر ہوتا ہے اندازے کے مطابق اگر دیکھا جائے تو وسطی پنجاب اور جنوبی پنجاب کے تمام چھوٹے چھوٹے قصبات ، اضلا ع اور انکی تحصیلیں آج بھی ان تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں جسے عوام کی اشد ضرورت ہے مثال کے طور پر پینے کا صاف پانی، بجلی ، سوئی گیس ، رابطہ سڑکیں ، سکول و کالجز ، یونیورسٹیز ، پلے گرائونڈ ، سپورٹس کمپلیس ، پختہ کھالہ جات سمیت دیگر سہولیات کا نام و نشان تک موجود نہیں ہے اگر ہے بھی تو عوام کے منتخب نمائندوں کی عدم دلچسپی کے باعث تعمیراتی اور ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہیں یہ بات درست ہے کہ ایماندار قیادت اگر نیک نیتی سے اپنے اختیارات کا صیح معنوں میں استعمال کرے تو عوام کو گمبھیر مسائل سے نجات مل سکتی ہے قیام پاکستان سے قبل کا شہر احمد پورلمہ جوکہ موجودہ جدید ترین ترقی کے دور میں بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہے جن میں بچیوں کے لئے ڈگری کالج کا قیام ، بے روز گارپڑھے لکھے نوجوانوں کو روز گار کی فراہمی ، سپورٹس کمپلیس کا قیام ، دیہی علاقوں میں جانے والی سڑکوں کی بحالی ، سکولوں اور ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن اور غریب نادار مستحق افراد کے بہترین علا ج ومعالجے اورایمرجنسی کی صورت میں فری ایمبولینس جیسے مسائل احمد پورلمہ کی عوام کیلئے مشکلات کا سبب بنے ہوئے ہیں سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے کسان اور کا شتکا ر طبقہ بھی مالی ، معاشی بحران کا شکا ر ہے منتخب جمہوری حکومتوں کے قیام کے ساتھ ساتھ منتخب عوامی نمائندوں کیلئے یہ بات ان کیلئے لمحہ فکریہ ہے اگر حکومتیں اور منتخب نمائندے اپنے اپنے حلقوں سے کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد اپنے اپنے شہر وں میں تعمیراتی اور ترقیاتی کاموںکو عوام کی دہلیز پر پہنچا نا شروع کردیں تویہ انکی عوام سے محبتوںکا منہ بولتا ثبوت ثابت ہوگا مگر افسوس کی بات ہے کہ بلند و بانگ دعوے کرکے عوام کو ہر 5سال بعد بیوقوف بنایا جاتا ہے اور عوام نمائندوں کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر انہیں 5سال کیلئے پھر آزماتے ہیں مگر اس کے نتائج کچھ اور ہی ہوتے ہیں کامیاب ہونیوالے نمائندے ترقیاتی کا موں کے جال بچھانے کی باتیں کرکے عوام سے ووٹ تو لے جاتے ہیں مگر اسمبلیوں میں پہنچ کر یہ صرف اور صرف اپنے ذاتی مفادات ومقاصد کی جنگ لڑتے ہیں اور عوام 5سال تک انکا منہ تکتے رہ جاتے ہیں آج کے جدید ترین اور ترقی یافتہ دور میں ایسا ہی ایک قدیمی شہر تحصیل صادق آباد سے 5کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جسے پاکستان کا قدیمی شہر احمد پورلمہ کہتے ہیں جی ہاں یہ وہی احمد پورلمہ ہے جو صادق آباد کا سنگ بنیاد رکھے جانے سے پہلے صادق آباد تحصیل ہی تصور کیا جاتا تھا جو آج بھی زمینی سطح کے لحاظ سے اوپر ہے یہاں پر ماضی قریب دریا ہوا کرتا تھا ابھی قیام پاکستان کا عمل وجود میں نہیں آیا تھا تو بھارت کے مختلف شہروں پونا ، مدراس ، چندی گڑھ ، بمبی ، گجرات ، دہلی ، راجستان ،حیدر آباد سے ہزاروں لوگ ہجر ت کرکے پاکستان کے مختلف شہر وں میں قیام پزیر ہو گئے ان میں کچھ لوگ ہجر ت کرکے احمد پورلمہ کے اس تاریخی شہر میں آ بسے ، اس وقت جب مہاجر ین یہاں آباد ہوئے تو انکی تعداد ایک ہزار کے قریب بتائی گئی بھارت سے آنیوالے مہاجرین کے پاس کھانے ، پینے ، سونے ، تن ڈھاپنے ، اور رہنے کی جگہ تک نہ تھی پھر مخدوم الملک مخدوم سید غلا م میراں شاہ نے پارٹیشن کے بعد مہاجرین کو ناصرف انکے رہنے کیلئے اراضی فراہم کی گئیبلکہ انکے گھروں کی تعمیرات کیلئے فنڈز بھی مہیا کئے یہ علا قہ چونکہ دریائی علا قہ تھا اور لوگ خوف و ہراس کی وجہ سے اپنے گھروںسے باہر نکلنا گوارا نہیں کرتے تھے کہاجاتا ہے کہ بھارت سے ہجر ت کرنے والے مہاجرین کی انکی آہوں پکا ر او ر سسکیاں سننے والا کوئی نہیں تھا تو مخدوم سید حسن محمود مرحوم سابق وزیر اعلی ریاست بہاولپور نے انکے حقوق کا بھر پور تحفظ کرتے ہوئے انہیں وہ تمام بنیادی سہولیات فراہم کرنے کی ہر ممکن کو شش کی ایسی طرح احمد پورلمہ کے تین بھائیوں ، میاں محمد اسلم شیخ ،میاں محمد مسلم شیخ اور میاں انور شیخ نے کمال شفت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اپنی 6ایکٹر اراضی سکو ل کیلئے مختص کر دی جہاں آج ٹائون کمیٹی کی جگہ ہے وہاں ہسپتال ہوا کر تا تھا ایسی طرح سکول کی جگہ عدالتوںکا مکمل طور پر قیام عمل میں آچکا تھا جہاں پرباقاعدہ جج بھی اپنے فرائض منصبی ادا کرتا حالات واقعات نے ایسی کروٹ لی کہ جب صادق آباد کا قیام عمل میں آیا تو احمد پورلمہ اسی سے روز سے آج تک ناصرف کھنڈرات کا منظر پیش کررہا ہے بلکہ عوام بھی مسائل سے دوچار ہیں جنرل ضیاء الحق کے دور میں پہلے بلدیاتی انتخابات میں اس علا قہ کی سر کر دہ شخصیت میاں انور شیخ نے بلدیاتی الیکشن میں حصہ لیا اور بلا مقابلہ چیئرمین منتخب ہو کر علا قہ کی تعمیر و ترقی میں اپنا نمایاں کردا ر ادا کیا پھر میاں عمران اعظم شیخ مرحوم ، سید سجاد میاں نے اس پسماندہ علا قہ کی عوام کی فلا ح وبہود کیلئے اپنی جدوجہد جاری رکھی 2015ء کے بلدیاتی الیکشن میں میاں حسن انور شیخ نے بطور چیئرمین احمد پورلمہ کی حیثت شہر کی ترقی ، خوشحالی اور عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کیلئے اپنا ہر ممکن کردار ادا کیا اب انکی پوری ٹیم میاں عزیز اسلم شیخ سابق ایم پی اے ، میاں باسط انو رشیخ ، سمیت دیگر افراد پکا کے عوام کو زہر آلود پانی سے نجات دلانے کیلئے ہر ممکن کوششوں میں مصروف عمل ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کس بنیاد پر احمد پورلمہ کے عوام کے ساتھ ایسا ناروا سلوک کیوں کیا جارہا ہے کیا منتخب جمہوری حکومتیں جان بوجھ کر اپنے پاکستان کے تاریخی شہر وں کو نظر انداز کرتی آرہی ہیں۔