جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی’’ پٹاری ‘‘
بنیادی طور پر تو یہ خوشی کی بات ہے کہ جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ کا آغاز ہو چکا ہے دو بڑے افسران کی تقرری کر دی گئی ہے اور انہیں یہ ٹاسک سونپا گیا ہے کہ وہ آگے اپنے ڈپارٹمنٹس کو عملی شکل دیں تاہم اس فیصلے میں کچھ ایسی خرابیاں رکھ دی گئی ہیں کہ جن کی وجہ سے ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے اور یہ کہا جانے لگا ہے کہ جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ درحقیقت جنوبی پنجاب صوبے کے مطالبے کو سبو تاژکرنے کی ایک سازش ہے کیونکہ جنوبی پنجاب صوبے پر یہاں کی تمام سیاسی سماجی اور قوم پرست جماعتوں کا اتفاق ہے مگر اس فیصلے کے بعد جس طرح سے سیکریٹریٹ کو ملتان اور بہاولپور میں تقسیم کیا گیا ہے اس کی وجہ سے یہ مطالبہ بھی تقسیم ہوگیا ہے ملک کے سینئر ترین سیاسی رہنما مخدوم جاوید ہاشمی نے اس حوالے سے بڑی مدلل گفتگو کی ہے ان کا یہ کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے جنوبی پنجاب صوبے کے مطالبے کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے اگر اس نے اپنا یہ وعدہ پورا نہیں کرنا تھا تو نہ کرتی مگر یہ سیکریٹریٹ کا ڈرامہ رچا کر جنوبی پنجاب کے عوام کا وہ خواب منتشر کر دیا ہے جو وہ عرصہ دراز سے علیحدہ صوبے کے لیے دیکھتے آئے ہیں جنوبی پنجاب کے دانشور اور سیاسی مبصرین اس تجربے کو ناکام ہوتا دیکھ رہے ہیں جس عمارت کی پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھی جائے وہ کیسے تعمیر ہوسکتی ہے حکومت میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ . . .سیکریٹریٹ کے صدر مقام کا تعین نہیں کر سکے ملتان میں اس .سیکریٹریٹ کے خلاف مزاحمت شروع ہوچکی ہے کیونکہ ملتان ایک قدیمی تاریخی ثقافتی اور آبادی کے لحاظ سے ایک منفرد اور بڑا شہر ہے صدیوں پہلے بھی ملتان پورے پنجاب کا صدر مقام تھا تاریخی کتابوں میں درج ہے لاہور ملتان کا مضافاتی شہر کہلاتا تھا آج تحریک انصاف کی وجہ سے یہ نو بت آچکی ہے کہ اسے جنوبی پنجاب کا بھی صدر مقام تسلیم نہیں کیا جا رہا اور بہاولپور جس سے نسبتاً چھوٹے اور مرکزی شہر سے ہٹ کر اپنی حیثیت رکھنے والے شہر کو جنوبی پنجاب کا . سیکریٹریٹ دے کر گویا اہل ملتان کا حق بھی سلب نہیں کیا بلکہ ان کی ایک طرح سے توہین ہی کی گئی ۔
اب جہاں تک یہ سوال ہے کہ یہ . سیکریٹریٹ . کام کیسے کرے گا تو اس بارے میں کیا ابہام موجود ہیں مثلا سب سے بڑا ابہام یہ ہے کہ اس سیکریٹریٹ . کوجب مختلف کیمپ آفس بناکر چلانے کی کوشش کی جائے گی تو یہ اپنی افادیت کیسے ثابت کرے گا کہنے کو تعینات ہونے والے ایڈیشنل چیف سیکرٹری زاہد اختر زمان نے یہ دعوی کیا ہے کہ وہ ہر علاقے پر توجہ دیں گے دو دن بہاولپور دو دن ملتان اور ایک دن ڈیرہ غازیخان بیٹھیں گے مگر اس طریقہ کار سے یکسوئی کیسے پیدا ہو سکے گی پھر اس ضمن میں عوام کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ان کی تلافی کیسے ہوگی اگر یہ موبائل سیکریٹریٹ کا نظام اتنا ہی مفید اور کارگر ہوتا تو اس کی دنیا میں کہیں نظیر بھی ملتی خود پاکستان میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں چھ لاکھ آبادی پر مشتمل علاقے کو اس انداز سے چلایا جائے کہ اس کا سب سے بڑا افسر مختلف دنوں میں مختلف علاقوں میں جا کر اپنے فرائض ادا کرتا ہو صاف نظر آ رہا ہے کہ یہ فیصلہ صرف سیاسی مقاصد کے تحت کیا گیا اور اس کا عوام کے مسائل و مصائب سے کوئی تعلق نہیں بلاول بھٹو زرداری نے بالکل صحیح کہا ہے کہ تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب کے عوام کے ساتھ ایک بہت بڑا فراڈ کیا ہے اور ایک ایسے فیصلے کے ذریعے جس کا جس کا مقصد صرف عوام کے بنیادی حقوق کو نشانہ بنانا ہے وہ چال چلی ہے جس سے عوام خوب سمجھتے ہیں اس لئے پیپلزپارٹی اس فیصلے کو پوری طرح مسترد کرتی ہے اب سوال یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے عوام اس فیصلے پر خوشی منائیں یا اس کے خلاف احتجاج کریں انہوں نے تو ابھی تک یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ کیا علیحدہ صوبے کا متبادل علیحدہ .سیکریٹریٹ ہو سکتا ہے کیا بغیر قواعد و اختیارات کا تعین کیے کیا کوئی علیحدہ .سیکریٹریٹ چل سکتا ہے کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ابھی تک ایک علیحدہ . سیکریٹریٹ . کا نوٹیفیکیشن تک جاری نہیں کیا ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل آئی جی کے تقرر نامو ں میں بھی علیحدہ سیکرٹریٹ کا ذکر نہیں جب اس حوالے سے نوٹیفکیشن ہی نہیں کیا گیا تو حدود و اختیارات کا تعین کیسے ہوگا بہرحال جنوبی پنجاب کے عوام اس ساری صورتحال کو بغور دیکھ رہے ہیں اس پٹاری سے آخر نکلتا کیا ہے اس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہوگا۔