جموں کشمیر …ہندوستان سے الحاق کا ڈرامہ
ریاست جموں کشمیر کے راجہ ہری سنگھ نے15اگست تک ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا کوئی معاہدہ نہ کیا تھااس لیے ریاست قانونی طور پر 15اگست کے بعد آزاد ریاست تھی ۔راجہ نے دونوںممالک کو Stand Still Agreementکے لیے کہا ۔پاکستان نے یہ معاہد ہ کر لیا جبکہ ہندوستان نے نہ کیا۔ اس کا مقصد تھا کہ تجارت اور مواصلات وغیرہ کے جو معاہدے برطانوی حکومت کے ساتھ تھے وہ نئی مملکت کے ساتھ برقرار رہیں ۔الحاق کے بارے ہندوستان کے موقف کے مطابق راجہ نے 26اکتوبر کو الحاق کے معاہدہ کے فارم پر دستخط کر دیئے اور 26اکتوبر کو ہی ہندوستان کے گورنر جنرل مائونٹ بیٹن کو خط لکھا کہ اس کی ریاست کی حفاظت کے لیے فوج بھیجی جائے اوریہ کہ وہ شیخ عبداللہ کو ایمرجنسی حکومت کا سربراہ بنانے کے لیے تیار ہے ۔اس کے جواب میں 27اکتوبرکو مائونٹ بیٹن نے الحاق کی درخواست قبول کرنے کے فارم پر دستخط کر دیئے اور اسی تاریخ کو یعنی 27اکتوبر کو خط لکھا کہ الحاق کے لیے آپ کی درخواست عارضی طور پر قبول کی جارہی ہے الحاق کا حتمی فیصلہ ریاست میں امن و امان کی بحالی اور غیر ملکی افراد کے نکل جانے کے بعد ریاست کے عوام کی مرضی معلوم کرنے کے بعد کیا جائیگا۔27اکتوبر کو ہی ہندوستانی افواج کی پہلی کھیپ ہوائی جہازوںکے ذریعہ سرینگر کے ہوائی اڈے پر پہنچ گئی ۔ہندوستان کے موقف کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ہندوستان کی افواج 27تاریخ کو ہندوستان سے الحاق شدہ علاقے( یعنی ہندوستان) میں اتری تھیں نہ کہ آزاد جموں کشمیر ریاست میں ممتاز برطانوی مورخ ایلسٹائر لیمب نے اس زمانے کی محفوظ دستاویزات پر تحقیق کر کے لکھا ہے کہ مہاراجہ کے جموں جانے اور اس کے وزیر اعظم مہر چنہ مہاجن اور وی پی میمن کے دہلی اور کشمیر آنے جانے اور الحاق کی دستاویزات کے جو تاریخیں ملتی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ جو ہندوستان بتاتا ہے جعلی ہے بعد میں بنایا گیا ہے یاراجہ سے زبردستی لکھوایا گیا ہے لیمب نے یہاں تک لکھا ہے کہ ایسا کوئی معاہدہ راجہ نے دستخط بھی تھا کہ نہیں یہ بھی مشکوک ہے ۔کیونکہ کشمیر میں فوج بھیجتے وقت ہندوستان نے ایسا کوئی معاہد ہ پاکستان کو نہیں بھجوایا ۔نہ ہی ایسے کسی معاہدے کی کاپی ہندوستان کے اقوام متحدہ میں جانے والے مقدمہ کے کاغذات کے ساتھ منسلک ہے ۔1948میں ہندوستان کے ایک White Paperکے ذریعے اپنا مقدمہ تیا ر کیا تھا اس میں بھی راجہ کے دستخط کیا ہوا کوئی معاہد نہ تھا بلکہ غیر دستخط شدہ الحاق کا فارم موجود تھا۔ اب تک راجہ کا دستخط شدہ اصلی معاہدہ کہیں پیش نہیں کیا گیا۔1960کے بعد سے ایک انتہائی مشکوک دستاویز کو معاہد ہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔لیمب کا کہنا ہے کہ آخر وقت تک آزاد رہنا چاہتا تھا اور اس سے دستخط کروائے گئے ہیں تو زبردستی کروائے گے ہیں ۔اور یہ کہ ہندوستان کی فوج 27اکتوبر صبح 9بجے جب سرینگر کے ہوائی اڈے پر اتری ہے اس وقت بھی ہندوستان کے بتائے گئے واقعات اور اوقات کے مطابق الحاق پر دستخط نہ ہوئے تھے اور ہندوستان کی فوج ایک آزاد ریاست جموں کشمیر میں اتری تھی نہ کہ ایسی ریاست میں جو ہندوستان سے الحاق کر کے اس کا حصہ بن چکی ہو ۔لیمب کا یہ بھی کہنا ہے اگر یہ حقیقت پاکستان کو اس وقت معلوم ہوتی تو شاید وہ اقوام متحدہ میں مقدمہ اور طریقہ سے لڑتا اور دوسرے ممالک کا رویہ بھی ہندوستان کے ساتھ مختلف ہوتا۔
راجہ ہری سنگھ ریاست جموں کشمیر کو آزاد رکھنا چاہتا تھا اس کے ثبوت کے طور پر یہی بات کافی ہے کہ اس نے 15اگست کے بعدبھی 26اکتوبر تک الحاق کے معاہدہ پر دستخط نہ کئے تھے ۔17جولائی کو مائونٹ بیٹن راجہ سے ملاقات کے لیے سرینگر گیااور 5-6دن قیام کیا ۔جانے سے پہلے نہرو نے ایک بڑا تفصیلی خط مائونٹ بیٹن کو لکھا جس کا لب لباب یہ تھا کہ کشمیر کے عوام شیخ عبداللہ اور ا س کی نیشنل کانفرنس کے ساتھ ہیں اور ہندوستان سے الحاق کرنے سے ریاست کے عوام بھی مطمعن ہو ں گے اور راجہ بھی۔اور ایسا کرنے سے پاکستان کچھ بھی نہ کر سکے گا ۔سرینگر میں راجہ ہری سنگھ نے مائونٹ بیٹن سے ملاقات ضرور کی لیکن الحاق کے معاملے پر کوئی گفتگونہ کی اور مائونٹ بیٹن ا س کے وزیر اعظم کومشورہ دے کر واپس آگیا۔صاف ظاہر ہوا کہ راجہ الحاق نہ چاہتا تھا ۔نومبر 1946میں سرینگر میں برطانوی نمائندہ مسٹر ویب نے بھی یہ رپورٹ دی تھی کہ راجہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنا نہیں چاہتا بلکہ کشمیر کو آزاد ریاست بنانا چاہتا ہے اوراسکا کہنا ہے کہ آزاد رہ کر وہ کسی بھی پڑوسی ملک بشمول روس سے تعلقات رکھ سکتا ہے ۔یہ بات برطانوی حکومت کے لیے نہایت تشویش کا باعث تھی۔قائد اعظم تو1944کے اپنے دورہ کشمیر کے دوران اندازہ لگا چکے تھے کہ راجہ کسی طور پر بھی پاکستان کے ساتھ الحاق نہ کرے گا اس لیے انہوں نے ریاستوں کے آزاد رہنے کی حمایت کی تاکہ کشمیر کے راجہ کے لیے یہ راستہ کھلا رہے ۔قائد اعظم کو یقین تھا کہ چونکہ کشمیر کا ہندوستا ن کے ساتھ کوئی زمینی راستہ نہ بنے گا تو راجہ کو تجارت اور مواصلات وغیرہ کے لیے پاکستان سے ہی تعلقات رکھنے پڑے گے۔اس وقت کوئی بھی یہ نہ سوچ سکتا تھاکہ مسلم اکثریت کا گرداسپور کا علاقہ ہندوستان کو دے کر کشمیر کے لیے راستہ حاصل کر لیا جائے گا ۔
کانگرس اور مائونٹ بیٹن یہ جاننے کے باوجود کہ راجہ ہندوستان کے ساتھ الحاق نہیں چاہتا یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ ریاست جموں کشمیر کو ہر حال میں ہندوستان میں شامل کرنا ہے ۔اس فیصلہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے دو پلان بنائے گئے ۔اول یہ کہ ریاست میں ایسے حالات پیدا کر دیئے جائیں کہ راجہ کو ہندوستان کی حکومت سے مدد کی درخواست کرنا پڑے اور پھر الحاق کو شرط کے طور پر منوا لیا جائے ۔دوسرا یہ کہ اگر راجہ کسی طور پر الحاق پر راضی نہ ہو تو عسکری طور پر ریاست پر قبضہ کر کے شیخ عبداللہ کی حکومت بنائی جائے اور پھر ریفرنڈم کروا کہ ریاست کو ہندوستان کا حصہ بنا لیا جائے ۔نہرو کا خیال تھا کہ شیخ عبداللہ اور نیشنل کانفرنس بہت مقبول ہیں اور خاص طور پر ہندوستانی فوج اور شیخ عبداللہ کی ایڈمنسٹریش کے ریفرنڈم جتنا مشکل نہ ہو گا۔دونوں پلان پر بیک و قت عمل درآمد شروع کر دیا گیا سب سے پہلے کشمیر کی موجودگی میں ساتھ زمینی راستہ حاصل کرنے کے لیے گورداسپور ڈسٹرکٹ کی تین تحصیلیں ،گرداسپور ،بٹالہ اور پٹھان کوٹ کو ہندوستان کو دے دیا گیا اور صرف شکر گڑھ تحصیل پاکستان کو ملی حالانکہ پٹھان کوٹ کے علاوہ تما م تحصیلوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی ۔یہ کام ریڈ کلف ایوارڈ کے ذریعے کیا گیا پنجاب کی تقسیم کے لیے برطانوی ماہر قانون سرریڈ کلف 8جولائی کو ہندوستان پہنچے ،وائس رائے ہائوس میںٹھہرے اور17اگست کو واپس چلے گئے ۔انہیں کہا گیا کہ پنجاب کے جو مسلم اکثریت کے علاقے ہیں اور پاکستان کے ساتھ لگتے ہیں پاکستان کو دے دیئے جائیں اور غیر مسلم علاقے ہندوستان کو دے دیئے جائیں ۔یہ کرتے وقت دوسرے عوامل کو بھی مدنظر رکھا جائے ۔دیگر عوامل میں کیا شامل ہے کوئی تفصیل نہ تھی ۔اس وقت کی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مائونٹ بیٹن غیر سرکاری طور پر ریڈ کلف پر اثرانداز ہوتے رہے ۔یہ بھی عین ممکن ہے کہ ریڈ کلف کو بتایا گیا ہو کہ ریاست جموں کشمیر ہندوستان سے الحاق کررہی ہے اور اس نے ہندوستان کو زمینی راستہ دینے کے لیے گرداسپور ہندوستان کو دینے کا فیصلہ ـ"دیگر عوامل"کے طور پر کیا ہو ۔راجہ کو الحاق پر مجبور کرنے کے لیے ریاست میں امن وامان کی صورتحال کو خراب کیا گیا ۔جموں میں جہاں مسلمان اقلیت میں تھے اتنے بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے کہ کہا جاتا ہے 5لاکھ مسلمانوں کو نقل مکانی کرنی پڑی اور دو لاکھ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔پنجاب کی سرحد سے ملحق پونچھ جاگیر بھی1935-36کے بعد ریاست جموں کشمیر کے ماتحت آچکی تھی یہاں مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت تھی۔یہاں کے مسلمان مردوں کی بہت بڑی تعداد د دسری جنگ عظیم کے دوران فوج میں خدمات انجام دے چکی تھی ۔14اگست جو کہ 1931سے کشمیر ڈے کے طور پر بھی منایا جا تا تھا مسلمانوں نے پاکستانی پرچم لہرا دیئے تو راجہ کی ڈوگرہ فوج نے عوام پر دھاوا بول دیا ۔مسلمان مسلح نوجوانوں نے بھی ہتھیار اٹھا لیے ۔جموں اور پونچھ میں ڈوگرہ فوج کے ظلم و بربریت کی خبریںپاکستان کے قبائلی علاقوں میں پہنچیں تو مسلح قبائلی جتھے مسلمانوں کی مدد کیلئے پہنچنے لگے ۔ان حالات میں جب مسلح مسلمان سرینگر کے قریب پہنچ گئے تو راجہ سے دستخط کروالیے گئے یادستخط کرنے کا ڈھونگ رچا کر 27اکتوبر کو ہندوستان کی فوجیں سرینگر میں اتر گئیں ۔فوجوں نے مسلمانوں کی پیش قدمی کو روک لیا اور تقریباََ دو تہائی ریاست پر قابض ہوگئیں اور وہاں ہندوستان نے شیخ عبداللہ کی حکومت قائم کر دی ۔اسکے بعد ہندوستان اقوام متحدہ پہنچ گیا ان کا خیال تھا کہ ہندوستان کی فوج کی موجودگی اور شیخ عبداللہ کے حکومت کے تحت ریفرنڈم کروا کے ریاست کو کشمیر میں شامل کر لیں گے۔ان حالات میں ریفرنڈم آزادانہ نہ ہو سکتا تھا ۔اس لیے پاکستان اس پر راضی نہ ہوا اور ریفرنڈم سے پہلے ہندوستان کی فوجوں کے انخلا اور غیر جانبدار حکومت کے قیام کا مطالبہ کر دیا ۔یہ مطالبہ ہندوستان نے تسلیم نہ کیا اور مسئلہ کشمیر اب تک لٹکتا چلا آرہاہے۔اقوام متحد ہ میں جب ریفرنڈم تک پہنچی تو راجہ نے ایک بار پھر ریاست کوآزاد رکھنے کی کوشش کی۔ہندوستان کی حکومت کو خط لکھا کہ ہو سکتا ہے کہ ہم ریفرنڈم ہار جائیں اور ہم کو پاکستان میں شامل ہونا پڑ جائے اس لیے کیوں نہ میں الحاق کا فیصلہ واپس لے لوں اسطرح اقوام متحدہ میں مقدمہ ختم ہو جائیگا ۔راجہ کے اس بیان سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ راجہ ہندوستان سے الحاق نہ چاہتا تھا اور وہ یہ بھی جانتا تھاکہ عوام کی اکثریت بھی ہندوستان سے الحاق نہ چاہتی ہے ۔