پیر ‘ 4؍ ذیقعد 1440ھ‘ 8؍جولائی 2019ء
ابھی نندن کا کپ ہی نہیں مگ 21 کا ملبہ بھی
ہمارے پاس ہے۔ میجر جنرل آصف غفور
سطحی ذہنیت والے لوگ جب بات کرتے ہیں تو خود بخود ان کی ذہنیت آشکار ہو جاتی ہے۔ بی جے پی کے اوپر سے لے کر نیچے تک اکثر رہنما اسی ذہنیت کے لوگ ہیں جنہیں دراز گوش کی طرح ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے کی عادت ہے۔ ورلڈ کپ کرکٹ میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو کارکردگی کے حوالے سے طنز کا نشانہ بنانا بے تکی بات ہے۔ پھر یہ کہنا کہ ابھی نندن کا کپ جو پاکستان میں ہے اسے اٹھا کر پاکستان جشن منائے۔ نہایت بھونڈی دلیل ہے۔ جواب میں ہمارے با غ و بہار شخصیت کے مالک میجر جنرل آصف غفور نے ترت سے جو پروقار جواب دیا اس پر بی جے پی کے رہنما اور سپیشل فورس کے افسر میجر سریندر پونیا کو مکمل تسلی ہو چکی ہو گی۔ بشرط کہ ان میں اس جواب کو سمجھنے کی صلاحیت ہو۔ ایک سبزی خور بھلا ایک گوشت خور کو للکار کا جواب کیا سکتا ہے۔ سوائے اس کے کہ منہ بند کر لے۔ آصف غفور نے خوبصورتی سے ابھی نندن کے کپ کے ساتھ مگ 21 کے ملبے کا بھی ذکر کیا جو ابھی تک پاکستان کے پاس ہے اور اس کے علاوہ کچھ اور چیزوں کا ذکر کر کے بھارتی حکومت اور فوج کو مرچوں کی دھونی بھی د ے دی ہے تاکہ بات کرنے سے قبل ان کے ہوش ٹھکانے آ سکیں۔ کھیل کے میدان کا جنگ کے میدان سے کیا جوڑ کھیل میں تو ہار جیت ٹیم کا مقدر بنتی ہے۔ جنگ میں قوت بازو پر فیصلہ ہوتا ہے۔ بھارتی کئی مرتبہ یہ بازو آزما چکے ہیں۔ ضدی پڑوسن کے لگتا ہے گھر والے بھی اس ہی کی نقالی کرنے لگے ہیں۔ مودی اور ان کی ساری کابینہ کے بعد اب بی جے پی کے بلونگڑوں کو بھی زبان لگ گئی ہے۔ امید ہے آصف غفور کے بیان کے بعد ان کی زبان تالو سے لگ گئی ہو گی…
٭٭٭٭٭
18 سال سے کم عمر لڑکیوں کی مرضی کے
بغیر شادی کا رواج ختم ہونا چاہئے۔ ملالہ
شادی کی عمر اور لڑکیوں کی مرضی کی حد تک تو بات تو درست ہے۔ اس پر لوگوں کا رحجان بھی مثبت ہے۔ خاص طور پر پڑھے لکھے لوگ اب آہستہ آہستہ ہی سہی اس طرف راغب ہو رہے ہیں۔ کم عمری کی شادی سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ وہ ان عورتوں کی تکلیف دہ گھریلو اور سماجی زندگی کو عذاب بنا دیتے ہیں۔ کمزوری ، بیماری اور کثرت اولاد کی وجہ سے کم عمری کی شادی والا معاشرہ ایک کرب سے گزرتا ہے۔ یوں گھریلو زندگی بیماری اور بے شمار بچوں کی ذمہ داریوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ غربت جہالت اور بیماریاں ایسے گھروں کو گھیرے لیتے ہیں۔ شادی پر لڑکی کی مرضی پوچھنا گرچہ ہمارے ہاں اب بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ مگر پھر بھی پڑھے لکھے گھرانوں میں یہ معاملہ بہتر ریکارڈ رکھتا ہے۔ اس لیے ملالہ کو پاکستان میں تعلیم کی شرح بہتر بنانے ، پسماندہ علاقوں میں تعلیم کی روشنی پھیلانے پر توجہ دینی چاہئے۔ یہی وقت کی ضرورت ہے۔ وہ خود بھی تعلیم کی اہمیت سے باخبر ہیں۔ دینی معاملات میں انہیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ مکمل سوجھ سوجھ نہ ہونے کی وجہ سے ان کی کوئی بھی بات بتنگڑ بن سکتی ہے۔ پاکستان میں غیر مسلم عورتوں سے جبری شادی یا ان کے مذہب کی جبری تبدیلی کے واقعات اتنے نہیں ہوتے جتنا پراپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں جبری مذہب کی تبدیلی پر سخت قوانین بھی ہیں اور ان پر عمل بھی ہو رہا ہے۔ انہیں اس بارے میں جتنی فکر ہے اتنی خود پاکستانیوں کو بھی ہے۔ تاہم اگر کوئی مرد یا عورت خود اپنی مرضی سے اسلام قبول کرتا ہے تو اس کو روکا تو نہیں جا سکتا…
٭٭٭٭٭
رانا ثناء اللہ نے پڑھنے کیلئے اسلامی اور
سیاسی کتابیں منگوا لیں
جب دنیا کے جھمیلوں سے کچھ لمحات فرصت کے میسر ہوں تو انسان کا کچھ لکھنے پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ اب رانا ثناء اللہ بھی کال چکر میں پھنس گئے ہیں۔ انہیں بھی کچھ تنہائی کے لمحات میسر آ ئے تو انہوں نے پہلی فرصت میں کچھ اسلامی اور سیاسی کتابیں طلب کر لی ہیں۔ اس طرح ان کا بہت سا وقت بے کار ضائع ہونے سے بچ جائے گا اور وہ ان کتابوں سے بہت کچھ سیکھ پائیں گے۔ ویسے بھی جیل میں جتنے بھی لیڈر گئے انہوں نے مطالعہ کی طاقت سے بہت فائدہ اٹھایا۔ کئی تو جیل میں صاحب کتاب بھی بن گئے۔ کئی نے سبق حاصل کر لیا۔ سو اب رانا جی بھی اگر چاہیں تو پہلی فرصت میں پاکستانی سیاست کے نشیب و فراز پر کوئی اچھی سی کتاب لکھ لیں۔ ورنہ ایسا موقع پتہ نہیں پھر ملے یا نہ ملے۔ جیل انتظامیہ نے ان کو گھر سے کھانا منگوانے کی اجازت نہیں دی ہے اس سے ان کا کھٹور پن ظاہر ہوتا ہے۔ ا گر قانونی اجازت میسر ہے تو رکاوٹ کا ہے کی۔ اب کہیں وہ کتابوں پر بھی کوئی اعتراض نہ لگا دیں کہ ان کتابوں سے بغاوت کی آگ بھڑک سکتی ہے۔ ایسی کوئی بات نہیں کیونکہ جیل میں قیدیوں کو تیل اور ماچس جیسا سامان کہاں دستیاب ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اکثر قیدی
میں آگ لگانے آیا ہوں
میں آگ لگا کر جائوں گا
کے ترانے پر مشعلیں لے کر جیلوں کو خاکستر کر چکے ہوتے۔
٭٭٭٭٭
جلد ہی غیر قانونی تارکین وطن ملک بدری
کیلئے تیار رہیں: صدر ٹرمپ
امریکی صدر ٹرمپ بھی کچھ وکھری ٹائپ کے بندے ہیں۔ انہیں ایک طرف سے ذرا سی بھی فراغت ملتی ہے تو وہ کسی دوسری طرف حملہ آور ہوتے ہیں۔ یوں ان کی ہر ایک سے مارا ماری چلتی رہتی ہے۔ کبھی روس اور چین کبھی میکسیکو اور شمالی کوریا کبھی ایران کہاں کہاں انہوں نے سینگ نہیں پھنسائے۔ نجانے کیوں صدر ٹرمپ کو ہر ایک کے ساتھ پنگا لینا اچھا لگتا ہے۔ سو وہ ایسے کاموں سے لطف اٹھاتے ہیں۔ اب ان معاملات سے ذرا فرصت ملی تو تارکین وطن پر حملہ آور ہو گئے۔ امریکہ میں موجود تارکین وطن پہلے ہی ان کے صدر بننے سے پریشان پھرتے نظر آتے تھے۔ اب ان کے اس نئے بیان سے ان کی نیندیں اُڑ گئی ہوں گی۔ اب انہوں نے دھمکی دی ہے کہ جلد ان کے خلاف کریک ڈائون کا آغاز ہو گا اور غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری ہو گی۔ اس کے لیے انہوں نے تارکین وطن کو تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں غیر قانونی تارکین وطن کس طرح کی تیاری کرتے ہیں۔ ان تارکین وطن سے زیادہ ان ممالک کو تیاری کرنا چاہئے جن میں ان تارکین کا سیلاب واپس آئے گا اور بے روزگاری کا سونامی بھی ساتھ لائے گا۔ لگتا ہے صدر ٹرمپ اب امریکہ کو غیر قانونی تارکین کی محفوظ جنت کی بجائے ان کے لیے امریکہ کو جہنم بنانے کی ٹھان بیٹھے ہیں۔
٭٭٭٭٭