سرب رینی کا مشرقی بوسنیا میں ایک قصبہ ہے، جہاں /11جولائی 1995ء کے ایک سیاہ بخت دن بوسینین سرب فورسز نے بوسنیا کے 7 ہزار سے زائد بے گناہ اور نہتے مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا۔ ان معصوموں کا اس کے سوا اور کوئی گناہ نہ تھا کہ وہ مسلمان تھے اور اپنے آبائی گھروں میں ہی رہنا چاہتے تھے۔ اس ہولناک قتل عام کی مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کے قتل عام سے بڑی مماثلت ہے جو اپنے مادر وطن میں اپنے گھروں میں عزت سے رہنا چاہتے ہیں۔ کشمیریوں کو بالکل ویسے ہی حالات درپیش ہیں، جیسے 1995ء میں بوسنیا کے مسلمانوں کو درپیش تھے۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے /2 فروری 1994ء میں بوسنیا کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیلئے بوسنیا کا ایک ایسی صورتحال میں دورہ کیا کہ سرب بوسنیا کے بے گناہ مسلمانوں پر چاروں طرف سے گولہ باری اور فائرنگ کر رہے تھے لیکن محترمہ شہید نے جان کی پروا نہ کی اور گولیوں کی بارش میں بوسنیا پہنچیں اور بوسنیا کے مسلمان خاندانوں سے ملاقات کی۔
بوسینین سرب فقط ایک سرحد چاہتے تھے جو سرب کے لوگوں کو بوسنیا کی دوسری نسلی برادریوں سے علیحدہ کر دے کیونکہ اُن کا قتل عام ہو رہا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ اُنہیں الگ کر دیا جائے جہاں وہ پُرامن طور پر اسلام کی تعلیمات کے مطابق زندگیاں بسر کر سکیں جبکہ دریائے درینا جو کہ سربیا اور بوسینین سربوں کو الگ کرتا تھا بطور سرحد بوسینین مسلمانوں کو قبول نہیں تھا۔ کیونکہ وادی میں اُن کی اکثریت تھی اور اکثریت کو یہ مطالبہ کرنے کاحق تھا۔ بوسینین مسلمانوں کے قتل عام کے علاوہ 20 ہزار مسلمانوں کو ’’نسلی صفائی‘‘ کے نام پر گھروں سے نکال باہر کیا گیا، جنہیں سرب رینی کا قصبے میں پناہ لینی پڑی جس سے اس کی آبادی بڑھ گئی۔ اسی طرح کی نسل کشی بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھی جاری ہے۔ کشمیریوں کو گھروں سے نکال کر اُن کی جگہ آر ایس ایس (راشٹریہ سیوک سنگھ) کے لوگوں کو بسایا جا رہا ہے۔
جس علاقہ میں بوسینین مسلمان رہ رہے تھے وہ چاروں طرف سے سرب فوجیوں کے نرغے میں تھا جنہوں نے بے چارے نہتے مسلمانوں کا جینا حرام کررکھا تھا۔ سربوں کے مظالم نے دُنیا بھر کے مسلمان جہادیوں کے دل بھینچ لئے اور وہ بوسنی مسلمانوں کی مدد کو سربیا پہنچنے لگے ۔ جنگ بوسنیا 1992ء کے دوران سرب رینی کا کے ارد گرد کے تمام دیہات سرب افواج کے مسلسل حملوں کا نشانہ تھے۔ حملوں میں بھاری اسلحہ استعمال کیا جا رہا تھا۔ سرب رینی کا کے قتل عام سے تین سال پہلے تک سربوں نے مسلمانوں کے 296 دیہات تباہ کر دئیے تھے۔ قتل عام سے تین ماہ پہلے سربوں نے ستر ہزار بوسنی مسلمانوں کو گھروں سے نکال کر قتل گاہ دھکیل دیا۔ یہ قتل عام دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ میں بدترین سفاکی تھا۔ جس نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
2001ء میں انٹرنیشنل کریمینل ٹریبیونل برائے سابق یوگوسلاویہ (ICTY) نے اس قتل عام کو نسل کشی قرار دے دیا۔ 2007ء عالمی عدالت انصاف نے بھی (ICTY) کی تحقیقات کی توثیق کر دی بعد میں اس کا جرم کا اعتراف کرتے ہوئے سرب جمہوریہ کی طرف سے معافی مانگی گئی۔
1995ء میں عہد نامہ ڈیٹن جس کے تحت جنگ بوسنیا ختم ہوئی سرب رینی کا (نئی مسلم جمہوریہ) بوسنیا ہرزی گووینا کا حصہ قرار پایا ، اگرچہ قتل عام سے بچ جانے والوں کی واپسی کی ضمانت دی گئی تھی مگر اس حوالے سے بار بار رکاوٹ ڈالی گئی۔ ڈیٹن معاہدہ پر عملدرآمد کیلئے امریکہ، برطانیہ ، فرانس، جرمنی، روس اور یورپی یونین کے خصوصی رابطہ کار نے دستخط کئے۔ ڈیٹن امن معاہدہ کی بنیادی دفعات میں بعض اس طرح ہیں۔
٭بوسنیا ہرزی گووینا، کروشیا اور جمہوریہ یوگو سلاویہ اقرار کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی (علاقائی سالمیت اور خودمختاری) کا مکمل احترام اور اپنے تمام جھگڑے پر امن طور پر طے کریں گے۔
٭/5 اکتوبر 1995ء کو طے پانے والے معاہدے کے تحت ہونے والی جنگ بندی جاری رہے گی۔
٭جمہوریہ بوسنیا ہر زی گووینا اور اور وفاق اور بوسنیا سرب ری پبلک 7 دن کے اندر مذاکرات شروع کر دیں گے۔ تنظیم سلامتی و تعاون یورپ (OSCE) کے زیر اہتمام حل طلب تنازعات کے لیے 45 دن کے اندر اعتماد سازی کے اقدامات کریں گے مثلاً ان اقدامات میں شامل ہو گا ، فوجی نقل و حرکت اور ان کی شقوں پر پابندی ، فوجی سرگرمیوں کی پیشگی اطلاع دینا اور ڈیٹا کا تبادلہ وغیرہ
٭فیڈریشن اور بوسینین سرب ری پبلک کے درمیان حد بندی کیلئے ایک باہمی کمشن یا ادارے پر اتفاق
٭بوسنیا ہرزی گووینا کے صدر اور ایوان نمائندگان، فیڈریشن کے ایوان نمائندگان اور بوسینین سرب ری پبلک کے انتخابات کے لیے بین الاقوامی نگرانی میں صاف و شفاف الیکشن ہو گا۔ ان انتخابات میں لڑائی کے دوران بے گھر ہونے والوں اور پناہ گزینوں کو بھی ووٹ ڈالنے کاحق حاصل ہو گا۔
آج جو لوگ بوسنیا جائیں ، اُنہیں شاید ہرچیز معمول کے مطابق ہی نظر آئے لیکن اگر وہ گہرائی میں اُتر کر دیکھیں تو کہانی اُس سے کہیں گمبھیر نظر آئے گی۔ گولہ باری سے چھلنی رہائش گاہیں اور بلاکس آج بھی اُن خوفناک مناظر کی یاد دلا رہے ہیں۔ بہت سے بوسینین ابھی اُس المیے سے سنبھل نہیں پائے ، جس سے وہ گزرے ہیں جو ملک چھوڑ گئے وہ بھی نہیں پلٹے اور شاید کبھی نہ پلٹیں۔ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ یہ کیسے ہوا ، صدیوں سے ایک ساتھ رہنے والے ہمسائے اور دوست ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے۔ خطے میں نسلی کشیدگی ابھی باقی ہے بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ یوروپ میں سب سے زیادہ بے روزگاری بوسنیا میں پائی جاتی ہے۔ ہر نسلی گروپ کا اپنا لیڈر ہے یعنی بوسنیا کے تین صدر ہیں، ایک بوسنی، دوسرا سرب اور تیسرا کروٹ اور وہ کسی مسئلے پر شاید ہی متفق ہوئے ہوں۔ وہ کبھی بھی ایک صفحہ پر نظر نہیں آئے۔ اگرچہ بوسنیا سنبھل رہا ہے لیکن پوری طرح سنبھلنے میں کافی وقت لگے گا ۔ جنگ بوسنیا ختم اور معاہدہ ڈیٹن کرانے میں روس نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ مگر روس نے 2015ء میں سلامتی کونسل کی اس قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا، جس میں 1995ء کے سرب رینی کا کے قتل عام کو نسل کشی قرار دیتے ہوئے گیارہ جولائی کو اس المیے کی 20 ویں برسی منانے کی سفارش کی گئی تھی۔ روس کا مؤقف تھا کہ بوسنیا کے سربوں کے ہاتھوں 8 ہزار مسلمان مردوں اور بچوں کی ہلاکت کو دُنیا کے ہر ملک اور بین الاقوامی فورم نے قتل عام قرار دیا ہے لہٰذا اب مزید ڈپلومیٹک موومنٹ بے معنی ہو گی۔
میں جنگ بوسنیا کے دوران سرب رینی کا کے متارہ خاندانوں سے یک جہتی کا اظہار کرتا ہوں، بے گناہ کشمیری مسلمانوں کو بھی سلام، جو اپنے حق خود ارادیت کے حصول کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں، جس سے بھارت مسلسل انکاری ہے اور غاصب بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں آئے دن وحشیانہ قتل عام کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔
بوسنیا کے سفیر عزت مآب شکیب فاروق کی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہیں، جو ہر سال /11 جولائی کو سرب رینی کا کے قتل عام کی یاد میں تقریب کا انعقاد کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ شہدائے سرب رینی کا (اور بوسنیا) کو اعلیٰ علیین میں جگہ دے۔ آمین ثم آمین ۔ (ترجمہ: حفیظ الرحمن قریشی)
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024