جی 20 سربراہ کانفرنس سے قبل مودی نے جاپان اور ٹرمپ سے ملاقات کے موقع پر کہا کہ مستقبل قریب میں جاپان ،امریکہ اور بھارت کے مابین باہمی تعاون نئی بلندیوں کو چھونے والا ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ مودی اپنی ’’جملے بازیوں‘‘ اور نئی اصطلاحات وضع کرنے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ اپنی اس مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے انھوں نے ’’ JAI ‘‘ ( جاپان، امریکہ اور انڈیا) کی نئی اصطلاح متعارف کرائی۔ علاوہ ازیں انھوں نے جاپان میں مقیم بھارتیوں کے اجتماع میں ’’بھارت ماتا کی جے‘‘ کے فلک شگاف نعرے لگوائے۔
دوسری جانب انھوں نے لوک سبھا میں کہا کہ ’’ بھارتی مسلمان اگر گٹر میں پڑے رہنا چاہتے ہیں تو انھیں وہیں پڑے رہنے دو‘‘۔ یاد رہے کہ مودی کے بقول بھارت کے سابق وزیراعظم نرسمہا رائو نے کانگرس کے ایک دوسرے وزیر، عارف محمد خان سے بات چیت کے دوران کہا تھا کہ بھارتی مسلمان ہمارے لئے محض ایک ووٹ بینک ہیں، ہم نے ان کی فلاح و بہبود کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا، ہمارا کاروبار سیاست کا ہے۔ ہم کوئی فلاحی تنظیم نہیں، انہیں گٹر میں پڑا رہنے دو‘‘۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بے جا نہ ہو گا ممتا بینر جی سمیت کئی اعتدال پسند بھارتیوں نے کہا ہے کہ اگر بی جے پی نے اپنی پالیسیاں تبدیل نہ کی تو بات ’’ پچھمی (مغربی) بنگلہ دیش‘‘ کے قیام کی جانب جا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ المیہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سانحے پر سرسری سی بھی نظر ڈالیں تو ہر کس و ناکس پر بخوبی عیاں ہو جاتا ہے کہ آغاز میں چھوٹی چھوٹی تلخیاں بڑے سانحات کا راستہ ہموار کرتی ہیں گویا ؎
چھوٹی چھوٹی رنجشیں اک حادثہ سا بن گئیں
چھوٹ چھوٹی رنجشوں سے دوستی جاتی رہی
آسام اور مغربی بنگال میں تو جو کچھ بھارتی مسلمانوں کیساتھ ہو رہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ایسے میں یہ بات اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کر جاتی ہے کیونکہ مغربی بنگال میں مسلمان کل آبادی کا تقریباً 28 فیصد ہیں جبکہ آسام میں 35 فیصد سے زیادہ آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو اقلیت کی بجائے دوسری بڑی اکثریت ہی کہا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اور تلنگانہ سے ممبر لوک سبھا ’’اسد الدین اویسی‘‘ نے بھی کہا کہ ’’مودی کو شاہ بانو کا کیس تو یاد ہے مگر جھارکھنڈ میں جنونی ہندئوں کے ہاتھوں اس ہفتے جان کی بازی ہارنے والے تبریز انصاری انھیں کیوں یاد نہیں اورپہلو خان اور دادری کا محمد اخلاق کیوں یاد نہیں۔ وزیراعظم مودی بھی نرسمہا رائو کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ اگر انھیں مسلمانوں کے گٹر میں پڑنے کی اتنی فکر ہے تو بھارتی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کو ریزرویشن کیوں نہیں دی جاتی، بی جے پی کے ٹکٹ پر ایک بھی مسلمان بھارتی لوک سبھا کا ممبر نہیں ہے۔ یہ صورتحال آخر کب تک چلے گی‘‘۔ دوسری جانب دہلی کے حکمران گروہ نے یہ منفی طرز عمل ہر سمت میں روا رکھا ہوا ہے۔ یاد رہے کہ موجودہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے باقاعدہ طور پر بی جے پی شمولیت اختیار کی اور انھیں محض 24 گھنٹوں کے اندر گجرات سے راجیہ سبھا کا ممبر نامزد کر دیا گیا۔ چونکہ گجرات میں BJP کی پوزیشن بہت مضبوط ہے لہذا جے شنکر کی کامیابی کو بھی یقینی سمجھا جا رہا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ موصوف بھارت کو ایٹمی طاقت بنانے کے سب سے بڑے داعی اور دفاعی تجزیہ کار ’’سی سبرامنیم‘‘ کے بیٹے ہیں۔ سی سبرامنیم کو کارگل تحقیقاتی کمیٹی کا چیئرمین بھی مقرر کیا گیا تھا۔
یہاں اس امر کا تذکرہ بھی بے جا نہ ہو گا کہ چاہ بہار کے ضمن میں بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ سی پیک اور بلوچستان میں شر پسندی کے فروغ میں بھارت کا جو مکروہ کردار ہے‘ وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ امریکہ اور ایران کی حالیہ کشیدگی کی وجہ سے بھارتی حلقوں میں گہری تشویش کی لہر پائی جاتی ہے۔ یہ کشیدگی بہت سے حوالوں سے بھارتی حکمرانوں کو اس صورتحال کے خاتمے کیلئے مختلف نوع کے دائو پیچ لڑانے پر مجبور کر رہی ہے ۔ بھارت کو لگ رہا ہے کہ ایسی صورتحال میں امریکہ اور ایران کا رومانس زیادہ دیر نہیں چلے گا اور اسے کسی ایک پلڑے میں اپنا وزن ڈالنا ہو گا۔ ماضی میں تو وہ بڑی مہارت سے امریکہ اور ایران دونوں سے خصوصی تعلقات رکھنے میں کامیاب ہوتا آیا ہے مگر اب جبکہ امریکہ، ایران اور سعودی عرب سمیت دیگر ممالک سے بھارتی تعلقات نچلی ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں، اس صورتحال میں دہلی کو امریکہ اور ایران کیساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھنے میں کافی دقت پیش آ رہی ہے۔ ایک طرف امریکہ جیسی دنیا کی سپر پاور ہے تو دوسری جانب ایران میں چاہ بہار جیسا بڑا منصوبہ۔ ایک روز قبل امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے دہلی کے دورے کے دوران ایران پر لگائی امریکی پابندیوں کی تناظر میں بھار ت کے دہرے معیاروں پر تنقید کی۔ امریکہ نے بھارت سے کہا کہ اسے واضح کرنا ہو گا کہ وہ کہاں کھڑا ہے۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے سنجیدہ حلقوں نے کہا ہے کہ اسے بھارتی حکمرانوں کی سفارتی کامیابی ہی قرار دیا جانا چاہیے کہ بیتے 72 سال میں ایک جانب وہ روس کے ساتھ تعلقات کو بہترین رکھنے میں کامیاب رہے، یہاں تک کہ ابھی اس نے روس کے ساتھ جدید ہتھیار وں اور ریڈار کی خریداری کے متعدد معاہدے کئے ہیں، روس کے ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار بھارت ہے تو دوسری طرف بھارت اسرائیل کیساتھ بھی دفاعی سمجھوتوں میں بندھا ہوا ہے۔ ہندوستان امریکہ کیساتھ بھی ہتھیار سازی اور اقتصادی تعاون روز بروز بڑھانے میں کامیاب ہے۔ مگر اب شاید بھارتی حکمران ان دوہرے معیاروںپر نظر ثانی کی حقیقی ضرورت محسوس کریں۔ اگر ایسا ہوا تو عالمی امن کیلئے شاید یہ ایک تعمیری بات ہو۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024