مفکر اسلام علامہ اقبال نے فرمایا ہے’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘اور فکر اقبال کے آمین حافظ سعید نے وجود زن سے انتخابی میدان میں رنگ پیدا کردیا ہے۔ کیا تعجب نہ ہونا چاہئے اور وہ جماعتیں جو لبرل اور سیکولر ہونے کی دعویدار ہیں۔ پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور دائیں بازو کے رحجانات کی شہرت رکھنے والی(ن) لیگ بھی خواتین کو وہ مرتبہ و مقام نہ دے سکیں جو ان کی سیکولر اور لبرل سوچ کے ترکش سے نکلنے والے تنقید کے تیروں کا نشانہ بننے والی ملی مسلم لیگ نے فراخدلی سے دیا ہے یہ واحد جماعت ہے جس نے سب سے زیادہ خواتین امیدواروں کو مخصوص نشستوں سے نہیں بلکہ براہ راست انتخابی اکھاڑے میں اتارا ہے جو باپ دادا سے قابض روایتی امیدواروں کو چیلنج کریں گی الیکشن سمیت کسی بھی مقابلے میں ہار جیت کوئی اہمیت نہیں رکھتی اصل چیز کسی عمل کے فوری اور دور رس نتائج ہیں اس کا فوری نتیجہ تو میرے نزدیک یہ ہے کہ مذہبی پس منظر رکھنے والی جماعت کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کی عملاً نفی ہو گئی ہے۔ دوسرے خواتین کو زیادہ اہمیت و عزت دینے والی جماعت کی شہرت ملک بھر میں خواتین کی بھرپور توجہ حاصل کر سکے گی۔ لبرل اور سیکولر عناصر کی جانب سے ملی مسلم لیگ کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ کہ ’’اس کے وابستگان خواتین کے حوالے سے بہت سخت گیر سوچ رکھتے ہیں اور انہیں گھروں کی چار دیواری میں محدود زندگی کی جکڑ بندیوں میں ہی رکھنا چاہتے ہیں اور معاشرہ میں کوئی خاتون اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر کچھ کرنا چاہئے تو ان لوگوں کے ذریعہ اس سے تعاون کا سوچا بھی نہیں جا سکتا بلکہ ان سے اس کی راہ میں رکاوٹوں کی ہی توقع رکھی جا سکتی ہے‘‘۔
بات یہ ہے کہ معاشرہ کو خواتین کی صلاحیتوں سے فیض یاب کرنے کے عمل اور تجارتی مقاصد کیلئے اشتہار بنا دینے یا معاشرہ میں بے راہ روی کے شعلے بھڑکا کرخرمن اخلاقیات کو بھسم کر ڈالنے میں بہت فرق ہے۔ دین اسلام نے عورت کو بے جا پابندیوں میں نہیںجکڑا ہے صرف اتنی قدغن لگائی ہے۔ وہ اپنے کسی عمل سے گناہ صغیرہ، کبیرہ کی مرتکب نہ ہو نہ اس کی وجہ سے کوئی دوسرا گناہوں میں ملوث ہو یہ ایک باعزت وباوقار دائرہ عمل ہے اس میں رہ کر عورت اپنی ہر نوع کی اہلیت و صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ کر سکتی ہے۔ یہ خوش آئند ہے ملی مسلم لیگ نے خواتین کے نسوانی وقار کو سر بلند رکھتے ہوئے انہیں میدان انتخابات میں اتارا ہے، جن کی مجموعی تعداد تیرہ ہے جو ملی مسلم لیگ کی حمایت یافتہ اللہ اکبر تحریک کے ٹکٹ پر مقابلہ کریں گی ان میں سے دس جنرل الیکشن میں براہ راست جبکہ تین مخصوص نشستوں پر امیدوار ہیں۔ انہیں امیدوار بنائے جانے کا قابل غور پہلو یہ ہے کہ ان میں ایک بھی کسی اعلیٰ عہدیدار کی رشتہ دار نہیں ہے جو سیکولر، لبرل اور روائتی سیاست سے بالکل ہٹ کر ہے ان خواتین کو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سیاسی تجربہ رکھنے کی بنیاد پر امیدوار بنایا گیا ہے جبکہ روایتی سیاسی جماعتوں نے چند ایک کے سوا بااثر افراد کی خوشنودی کو ملحوظ رکھا ہے یہی وجہ ہے اور سابقہ اسمبلیاں گواہ ہیں یہ خواتین ایوان میں ’’چپ کا روزہ‘‘ رکھ کر آتی ہیں، اس کے مقابلے میں ملی مسلم لیگ کی تمام امیدوار تعلیم یافتہ اور عملی سیاست کا تجربہ رکھتی ہیں۔
لودھراں سے عفت طاہرہ سومرو ایڈووکیٹ تحریک انصاف کے سابق جنرل سیکرٹری جہانگیر ترین کی قومی اسمبلی کیلئے کورنگ کنڈیڈیٹ رہ چکی ہیں یہ جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف کے بانیوں میں شامل ہیں۔ تحریک انصاف لودھراں کی صدر بھی رہی ہیں۔ پنجاب کمیشن برائے خواتین کی انچارج کے فرائض بھی انجام دیئے۔ بہاولپور یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ این اے 161 لودھراں سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ این اے 181مظفر گڑھ سے بینظیر فاطمہ قریشی امیدوار ہیں۔ پیپلزپارٹی میں سرگرم رہیں۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی کوارڈنیٹر رہیں، سماجی کاموں کی شہرت رکھتی ہیں۔ قریشی اور دیگر برادریوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان کا کہنا ہے فلاح انسانیت فائونڈیشن کے سماجی کاموں نے انہیں متاثر کیا ہے۔ این اے 257کراچی سے اقراء مزمل ، این اے 107فیصل آباد سے رابعہ مختار امیدوار ہیں۔ سندھ اسمبلی کے صوبائی حلقہ گولارچی پی ایس 74بدین سے ڈاکٹر صنم لغاری امیدوار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ 2003ء سے حافظ سعید کی سربراہی میں سماجی کاموں کا جائزہ لے رہی ہیں میں نے دیکھا ہے سندھ میں جب بھی کوئی آفت آئی حافظ سعید کے کارکنوں نے مدد کی سیلاب ہو یا تھر میں خشک سالی سے پیدا شدہ مسائل یہ ہی سرگرم نظر آئے۔ ان کے پوسٹروں پر حافظ سعید کی تصویر کی قوم پرستوں نے مخالفت کی اور ڈاکٹر صنم لغاری کو دھمکیاں دی گئیں مگر وہ ان دھمکیوں کو خاطر میں نہیں لائیں ان کا کہنا ہے میں نظریہ ٔ پاکستان کی بنیاد پر سیاست میں حصہ لینے والوں کے ساتھ ہوں مجھے کسی کی مخالفت اور پاکستان مخالف لوگوں کے پروپیگنڈہ کی پرواہ نہیں ہے۔ پی پی 14راولپنڈی سے شازیہ سعید، پی پی 229 وہاڑی سے بیگم عابدہ نذیر ، پی پی 83خوشاب سے شازیہ کوثر اور پی پی 149 لاہور سے جھارا پہلوان کی اہلیہ بیگم سائرہ بانو امیدوار ہیں جو بیگم کلثوم نواز کی پھوپھی زاد بھی ہیں۔ سائرہ بانو نے 2013ء کے الیکشن میں این اے120سے جنرل مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ کے ٹکٹ پر میاں نوازشریف کے مقابلے میں کاغذات نامزدگی داخل کرائے تھے مگر مشرف کی پارٹی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کردیا تھا۔ سائرہ بانو رستم پاکستان جھارا پہلوان کی اہلیہ، گوگا پہلوان کی بیٹی اور رستم زمان گاماں پہلوان کی پوتی ہیں جبکہ بیگم کلثوم نواز رستم زمان گاماں پہلوان کی نواسی ہیں۔ سائرہ بانو کے دیور اور جھارا کے بھائی عابد اسلم تحریک انصاف کے ٹکٹ پر این اے 125سے الیکشن لڑنے کے خواہش مند تھے لیکن یہ جان کر کہ یہاں سے مریم نواز الیکشن لڑ رہی ہیں، الیکشن لڑنے کا ارادہ ملتوی کر دیا ان کا کہنا ہے کہ انہیں بھانجی سے مقابلہ اچھا نہیں لگتا۔ پنجاب سے مخصوص نشستوں پر حسب ذیل امیدوار ہیں حمیرا نوشین، فرحت نعیم اور حمیرا خالد ان کا انتخابی نشان کرسی ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38