اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں سابق وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن(ر) صفدر اعوان کومجرم قرار دیتے ہوئے تینوں کو دو شیڈول کے تحت بالترتیب دس سال، سات سال اور ایک سال سزا سنا دی ہے۔ نواز شریف پر 8 ملین پاونڈ جبکہ مریم نواز پر 2 ملین پاونڈ اسٹرلنگ جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔ مزید ایون فیلڈ پراپرٹیز کی قرقی کے احکامات بھی جاری کئے ہیں۔ جج محمد بشیر نے نواز شریف کو یہ سزائیں آمدن سے زائد اثاثے رکھنے اور عدالت سے غلط بیانی کرنے کے جرم میں سنائی ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ عدالت نے نواز شریف کو کرپشن کے تمام الزامات سے بری کر دیا ہے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق استغاثہ کرپشن کے الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ایون فیلڈ ریفرنس کیس کا فیصلہ جمعہ 6 جولائی صبح 11 بجے سنایا جانا تھا مگر ''نا معلوم'' وجوہات کی بناء پر یہ وقت بار بار تبدیل ہوتا گیا اور فیصلہ سہ پہر 4 بجے کے بعد سنایا گیا۔ عدالتی فیصلے کے بعد سے پاکستان میں ایک ہیجان بپا ہے۔ کوئی اسے انصاف کی جیت، کوئی عمران خان اور پی ٹی آئی کا کارنامہ، کوئی ختم نبوت کے قانون سے چھیڑ خانی کی سزاء تو کوئی جماعت اسلامی کی کامیابی قرار دے رہا ہے۔ جبکہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اسے نا انصافی اور انتقامی کاروائی بھی سمجھ رہی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مطابق یہ ''خلائی مخلوق'' کا کام ہے۔ پی ایم ایل (این) کے مطابق نواز شریف کی طرف سے خلائیء مخلوق کی سپریمیسی تسلیم نہ کرنے کی پاداش میں یہ سزائیں دی گئی ہیں۔ نواز شریف عہد کے خاتمے کی نویدیں سنائی جا رہی ہیں۔ تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ نواز شریف فیملی اب پاکستان واپس نہیں آئے گی۔ اور نواز مخالف قوتیں اب باآسانی ملک پر اپنی گرفت مظبوط کر لیں گی۔نواز شریف کی سزا پر عمران خان بغلیں بجا رہے ہیں ۔ ملائشیاء میں بھی سابق وزیر اعظم نجیب تن رزاق پرکرپشن کے الزامات تھے۔ جس کا مقابلہ مہاتیر محمد نے اپنے بیانئے سے کیا۔ عوام کی طاقت سے اقتدار حاصل کیا۔ پھر نجیب پر مقدمات بنائے۔ عمران خان اگر واقعی ایک مقبول راہنما ہیں تو انہیں بھی خود پر بھروسہ کرکے عوام اور ووٹ کی طاقت سے ہی نواز شریف کوباہر کرنا چاہئیے تھا۔ ایسے غیر جمہوری راستے سیاسی پارٹیاں تب اختیار کرتی ہیں جب انہیں یقین ہو کہ عوام ان کے ساتھ نہیں۔ ویسے بھی دشمن کے مرنے پر خوشیاں منانے والا سمجھدار انسان نہیں ہوسکتا۔دوسری طرف نواز شریف نے لندن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران عدالتی فیصلے کو یکسر مسترد کر تے ہوئے پاکستان آنے کا اعلان کر دیا ہے۔ نواز شریف کے مطابق ان کو یہ سزا اس لئے دی گئی ہے کہ انہوں نے ستر سال سے پاکستان کے ''اصل حکمرانوں'' کی حکمرانی کو چیلنج کیا ہے۔ ہاوس ان آرڈر رکھنے کی ان کی اس جسارت نے تمام خفیہ طاقتوں کو آگ بگولا کر دیا ہے۔اور یہ طاقتیں ان کو سبق سکھانے کے در پے ہیں۔ پریس کانفرنس کے دوران نواز شریف کی باڈی لینگوئنج اور لب و لہجے سے ان کا عزم جھلک رہا تھا۔ وہ خوف زدہ محسوس نہیں ہوئے۔ نواز شریف جانتے ہیں کہ واپس نہ آنے کے صورت میں پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت مسلم لیگ نواز کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔اس لئے نواز شریف کے پاس وطن واپسی کے سوا کوئی آپشن ہے ہی نہیں۔سو وہ بہر صورت واپس آئیں گے۔ نواز مخالف طاقتیں اپنے تئیں انہیں ختم کر بیٹھی ہیں۔ لیکن نواز شریف کے واپسی کے اعلان اور ہر طرح کے حالات کا سامنے کرنے کے ان کے عزم نے واضح کر دیا ہے کہ نواز شریف کی سیاست ابھی ختم نہیں ہوئی۔جنگ ابھی جاری ہے۔اب یہ جنگ دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ یہ دوسرا مرحلہ دونوں فریقوں کے لئے پہلے مرحلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ کٹھن ثابت ہو گا۔ یہ جنگ کون جیتے گا۔ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا لیکن ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ نواز شریف کو ''آئوٹ'' سمجھنے والوں کی خوش فہمی جلد دور ہوجائے گی۔ووٹ کی طاقت کے علاوہ کسی اور ذریعے سے نواز شریف کو ختم کیاہی نہیں جاسکتا۔اگر ایسا ممکن ہوتا تو ۱۹۹۹ ء میں نواز حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد انہیں زیادہ خوفناک سزائیں سنائی گئی تھیں۔ وہ سزائیں اور جلاوطنی بھی انہیں مگر ختم نہ کر پائیں۔ ان طریقوں سے انہیں اس بار بھی ختم نہ کیا جا سکے گا۔ نواز شریف زندہ رہیں گے اور وہ پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ واپس آئیں گے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024