احتساب کے عمل پر سوالیہ نشان نہ لگنے دیں
ایف آئی اے نے کراچی میں کارروائی کرتے ہوئے منی لانڈرنگ کیس کے مبینہ ملزم اور آصف علی زرداری کے دیرینہ ساتھی اور معروف بینکار حسین لوائی کو گرفتاری کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا، ان پر 35ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا الزام ہے۔ حسین لوائی آٹھ سال تک سمٹ بنک لمیٹیڈ کے صدر بھی رہ چکے ہیں ۔دوسری طرف اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے دوست زلفی بخاری پر سفری پابندیاں ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔
ان دومختلف واقعات میں ملوث شخصیات دو معروف سیاستدان ہیں جو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پیپلزپارٹی کے رہنما آصف علی زرداری کے قریبی دوست بلکہ دست و بازو ہیں۔ زلفی بخاری پر پچھلی حکومت نے سفری پابندیاں لگائی تھیں ، ظاہر ہے کہ بلا سبب ایسا نہیں کیا ہوگا۔ گزشتہ دنوں عمران خان زلفی بخاری کے ذاتی طیارے پر عمرہ کیلئے گئے تو انہیں ائیر پورٹ پر روک لیا گیا ، لیکن پھر چند ہی لمحوں بعد کسی غیر مرئی مداخلت کے باعث سفری پابندیاں اٹھالی گئیں ۔ اس واقعے سے یہ سوال بھی اٹھاکہ کیامختلف لوگوں کیلئے مختلف قانون ہیں ؟ اگر ایسا ہے تو کیوں ہے؟ بعض لوگوں کےلئے بند دروازے خود کار نظام کی طرح اپنے آپ کھلتے چلے جاتے ہیں ، اور کچھ لوگ بستر مرگ پرایڑیاں رگڑتے جان دے دیتے ہیں اور انہیں علاج کیلئے باہر جانے کی اجازت نہیں ملتی۔ حسین لوائی کو منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے، بلاشبہ منی لانڈرنگ بہت بڑا قومی جرم اور کسی طور پر قابل عفو درگزر نہیں ۔ اس لحاظ سے ایف آئی اے کی مستعدی قابل تعریف ہے لیکن یہ تسلیم کرنا مشکل ہے کہ ایف آئی اے یا قانون کے نفاذ کے ذمہ دار اداروںکو منی لانڈرنگ میں ملوث دیگر کرداروں کا علم نہیں ۔ آخر وہ اب تک اور کیوں آزاد پھر رہے ہیں ۔ معاملات کے اس طرح چلنے سے احتساب کے عمل کے بلاامتیاز ہونے پر سوالیہ نشان لگ رہا ہے ۔ پی ٹی آئی کے لوگوں کو نیب اور عدالتوں سے ریلیف ملنا اور مسلم لیگ ن اور دوسری جماعتوں کے لوگوں کا نشانہ بننا بلا امتیاز احتساب کے دعوﺅں کی نفی کرتا ہے اس لئے قومی اداروں کی جانب سے کوشش یہی کی جانی چاہیے کہ انکی ساکھ اور غیر جانبداری پر حرف نہ آئے ۔