مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو اب بہرصورت میاں نوازشریف کے بیانیہ کےساتھ چلنا ہوگا
نوازشریف اور مریم نواز کا ملک واپسی کا اعلان اور نیب کی انہیں گرفتار کرنے کی تیاریاں
مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے اپنی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کے ہوش میں آتے ہی ملک واپس آنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ احتساب عدالت کے فیصلہ کے بعد انہیں جو آئینی اور قانونی حقوق حاصل ہیں‘ وہ سب کے سب استعمال کرینگے۔ گزشتہ روز احتساب عدالت کے فیصلہ کے بعد لندن میں اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ہمراہ ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میاں نوازشریف نے سوال اٹھایا کہ کون تھے وہ جنہوں نے ہمارے ارکان کی وفاداری تبدیل کرائی‘ انہیں پی ٹی آئی میں شامل کرایا‘ بلوچستان میں ہماری حکومت تبدیل کرائی اور وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے جیپ کے انتخابی نشان الاٹ کرائے اور جیپ کے نشان والے کون لوگ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں 1999ءمیں بھی 14 ماہ ایک قلعہ میں بند رکھا گیا تھا اور طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں انہیں 29 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ انہیں مسلم لیگ (ن) کی صدارت محروم کیا گیا۔ انکے بقول عوام سیاسی نظام میں مداخلت برداشت نہیں کرینگے۔ انہوں نے عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ مجھے اکیلا مت چھوڑو‘ میرا ساتھ دو‘ یہ ہوگا نیا پاکستان۔ انہوں نے کہا کہ قوم کو باہر نکل کر میرا ساتھ دینا چاہیے۔ میں ظلم کو مٹانے کیلئے ہر قربانی دینے کو تیار ہوں۔ میں اور میری بیٹی کھل کر بات کرتے ہیں اس لئے ہمیں سزا دی گئی۔
نوازشریف نے استفسار کیا کہ آیا انکی بیٹی کے پاس بھی کوئی سیاسی عہدہ تھا‘ ہمیں اس بات کی ہی سزا دی گئی ہے کہ جو ملک میں نہیں ہونا چاہیے‘ ہم اس کا اظہار کرتے ہیں‘ میں اور میری بیٹی ہاں میں ہاں نہیں ملاتے۔ میری بیٹی کو بھی سات سال قید کی سزا دے دی گئی۔ انکے بقول اس مکروہ کھیل کا حصہ بننے والوں کو پچھتانا پڑیگا۔ میں لندن میں کوئی سیاسی پناہ نہیں لے رہا‘ میں جیل میں بھی اسی جدوجہد پر قائم رہوں گا‘ جلد پاکستان واپس آرہا ہوں‘ عوام 25 جولائی کو ووٹ کی طاقت سے ان زنجیروں کو توڑ دیں۔ انہوں نے کہا کہ جبر کے باوجود مسلم لیگ (ن) تمام جماعتوں سے آگے ہے اور 2018ءکے انتخابات میں فتح حاصل کریگی‘ میں ووٹ چوری کرنے والوں کے ہاتھ روکنے کیلئے واپس آرہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ووٹ کو عزت اور عوام کو حق حکمرانی نہیں ملتا‘ انکی جدوجہد جاری رہے گی۔ اسی طرح مریم نواز نے بھی احتساب عدالت کے فیصلہ پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں 70سال سے سرگرم نادیدہ قوتوں کے سامنے ڈٹ جانے کی یہ سزا بہت چھوٹی ہے۔ انکے بقول فیصلہ تو 25 جولائی کو ہونا ہے اس لئے عوام ان سازشیوں اور مہروں کے چہرے اس دن یاد رکھیں‘ ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘ فتح آپکی منتظر ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ میاں نوازشریف گزشتہ دو دہائیوں میں جمہوریت مخالف غیرمرئی قوتوں سے ٹکرانے اور انہیں چیلنج کرنیوالے ایک مدبر قومی لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ بے شک انکی سیاست کا آغاز ایک جرنیلی آمر کی چھتری کے نیچے ہوا تھا تاہم انہوں نے بتدریج انٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کی جانب قدم بڑھائے اور اپنے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ کیا‘ یہ انکی انٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست ہی کی کامیابی تھی کہ ماضی میں ایک دوسرے کی حکومت کو گرانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کو تقویت فراہم کرنیوالی اور باہم متحارب سیاسی قوتیں ایک دوسرے کے ساتھ میثاق جمہوریت کرنے پر بخوشی آمادہ ہوئیں۔اے آرڈی کے پلیٹ فارم پر میاں نوازشریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے مابین طے پانے والا یہ میثاق جمہوریت درحقیقت جمہوریت کیخلاف محلاتی سازشوں کیخلاف جمہوری قوتوں کے متحد و یکسو ہونے کا اعلان تھا جو ان سازشوں سے باربار ڈسے ہوئے قومی سیاسی قائدین کی جانب سے کیا گیا۔ اگر محترمہ بے نظیر بھٹو زندہ رہتیں تو قومی سیاسی فضا میں اس میثاق جمہوریت کی عملداری مستحکم ہوجاتی تاہم آصف علی زرداری کی قیادت میں پیپلزپارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد اسکی سیاسی اور حکومتی ترجیحات تبدیل ہوگئیں جس سے میثاق جمہوریت کے مقاصد بھی فوت ہوئے اور محلاتی سازشوں کے بھی دوبارہ راستے ہموار ہونے لگے جس سے یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آگئی کہ سیاست میں کوئی چیز بھی حرف آخر نہیں۔ چنانچہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے پھر ایک دوسرے کی مخالفت کی ٹھان لی۔ سیاسی تناﺅ کی اس فضا میں ہی عمران کی سیاست کا راستہ ہموار ہوا اور محلاتی سازشوں کا دوبارہ عمل دخل شروع ہوگیا۔ چنانچہ میاں نوازشریف کو اپنے پورے دورحکومت میں ان سازشوں کا سامنا رہا جبکہ انکی حلیف اور مخالف جمہوری قوتیں اپنے اپنے مفادات کے تحت کبھی انکے ساتھ اور کبھی انکی مخالفت پر کمربستہ نظر آتی رہیں۔ اسی فضا میں پانامہ لیکس کا معاملہ سامنے آگیا جس پر عمران خان کے علاوہ پیپلزپارٹی کو بھی اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کا موقع ملا اور بالخصوص پیپلزپارٹی کی جانب سے یہ معاملہ پارلیمنٹ کے اندر طے کرنے کے میاں نوازشریف کو مشورے دیئے گئے تاہم میاں نوازشریف نے عدلیہ پر اعتماد کا اظہار کیا اور پانامہ سیکنڈل کے نتارے کیلئے بال اسکی کورٹ میں پھینک دی۔ اسکے بعد جوڈیشل ایکٹوازم کے زور پر میاں نوازشریف اور انکی پارٹی کی سیاست کی جو درگت بنی اسکے پیش نظر پانامہ لیکس کا معاملہ پارلیمنٹ کے ذریعے طے کرانے کا پیپلزپارٹی کا تقاضا درست نظر آنے لگا۔
آج میاں نوازشریف پانامہ لیکس سے نکلنے والے اقامہ کیس اور نیب کے ریفرنسوں میں وزارت عظمیٰ اور پارٹی صدارت سے محرومی اور پھر تاحیات نااہلیت کی سزا کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ بامشقت قید‘ بھاری جرمانے اور لندن اپارٹمنٹس کی بحق سرکار ضبطی کی سزا تک آپہنچے ہیں جبکہ 25 جولائی کے عام انتخابات سے پہلے انہیں اور انکی پارٹی کو دیوار سے لگانے اور انتخابی میدان سے آﺅٹ کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا چکا ہے۔ انکے پاس احتساب عدالت کے فیصلہ کو ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا موقع موجود ہے جسے استعمال کرنے کا میاں نوازشریف بھرپور عندیہ بھی دے چکے ہیں جبکہ انکے وکیل خواجہ حارث نے انکے علاوہ مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزاﺅں کیخلاف بھی اپیلیں تیار کرلی ہیں جو بہرصورت میاں نوازشریف اور مریم نواز کی ملک واپسی پر ہی دائر ہونی ہیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ میاں نوازشریف اور مریم نواز کو ملک واپسی پر ایئرپورٹ سے ہی گرفتار کرلیا جائیگا جس کیلئے نیب نے پہلے ہی تمام انتظامات کرلئے ہیں اور انکے نام ای سی ایل میں شامل کرنے کیلئے وزارت داخلہ سے دوبارہ رجوع کرلیا گیا ہے جبکہ کیپٹن صفدر کا نام بلیک لسٹ میں شامل بھی کرلیا گیا ہے۔
یہ صورتحال مسلم لیگ (ن) اور اسکی قیادت کیلئے بلاشبہ سخت آزمائش والی ہے کیونکہ میاں نوازشریف اور انکی صاحبزادی مریم نواز نے ملک واپسی پر مزاحمت کی جس سیاست کا عندیہ دیا ہے‘ ملک میں موجود مسلم لیگ (ن) کی قیادت اس سیاست کیلئے سردست آمادہ نظر نہیں آرہی۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے میاں نوازشریف‘ انکی صاحبزادی اور داماد کیخلاف نیب عدالت کے فیصلہ کو اگرچہ سخت لہجے میں مسترد کیا ہے اور اس فیصلے کیخلاف عوام کی عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے تاہم مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں ابھی تک مزاحمت کی سیاست کی جانب جانے کا جذبہ نظر نہیں آرہا۔ اور اسکے برعکس مسلم لیگ (ن) کے ارکان اور امیدواران انتہائی محتاط روی سے کام لیتے نظر آرہے ہیں چنانچہ میاں نوازشریف اور مریم نواز کی ملک واپسی پر انہیں گرفتار کرکے جیل بھجوا دیا جاتا ہے اور ان کیخلاف اس اقدام کی مزاحمت کیلئے مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں کوئی جوش و جذبہ نظر نہیں آتا تو اس سے پولنگ والے دن میاں نوازشریف کے بیانیئے کا ٹمپو بھی برقرار نہیں رہ پائے گا جس کے باعث مسلم لیگ (ن) کے دوبارہ وکٹری سٹینڈ پر آنے کے امکانات معدوم ہوسکتے ہیں۔
اسکے برعکس میاں نوازشریف اور انکی فیملی کی سخت سزاﺅں اور ملک واپسی پر انکی گرفتاری کیخلاف مسلم لیگ (ن) کے قائدین اور کارکن سڑکوں پر آتے ہیں اور عوامی احتجاج شدت اختیار کرتا ہے تو اس سے میاں نوازشریف کے بیانیئے کو مزید تقویت حاصل ہوگی جس کے زور پر 25 جولائی کا پولنگ والا دن مسلم لیگ (ن) کی دوبارہ کامیابی کی نوید بن سکتا ہے۔ یقیناً اسی تناظر میں پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے سربراہ آصف علی زرداری اس امر کا اظہار کر رہے ہیں کہ احتساب عدالت کے فیصلے سے مسلم لیگ (ن) کو سیاسی فائدہ ہوگا اور سابق اپوزیشن لیڈر سیدخورشید شاہ کا کہنا ہے کہ احتساب عدالت کے فیصلہ کیلئے غلط وقت چنا گیا ہے۔ دوسری جانب اس فیصلے کی بنیاد پر ہی بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے انتخابات کے انعقاد کے معاملہ میں بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے اور متحدہ مجلس عمل کے امیر مولانا فضل الرحمان نے اسی تناظر میں کہا ہے کہ ایسے فیصلے انتخابات کو مشکوک بنا سکتے ہیں۔
یہ یقیناً قومی سیاست کیلئے ٹرننگ پوائنٹ ہے جس میں بڑی آزمائش کا مسلم لیگ (ن) اور اسکی قیادت کو سامنا ہے۔ ایسی ہی صورتحال کا سامنا مسلم لیگ (ن) اور اسکی قیادت کو جنرل مشرف کے 12 اکتوبر 1999ءوالے ماورائے آئین اقدام کے بعد جرنیلی آمریت کی مزاحمت کے حوالے سے کرنا پڑا تھا۔ اگر تو مسلم لیگ (ن) میاں نوازشریف کے سیاسی بیانیہ کو ساتھ لے کر چلتی ہے اور انکی سزا کے باعث مسلم لیگ (ن) کے عہدیداران اور ارکان 1999ءکی طرح تتربتر نہیں ہوتے تو 25 جولائی کا دن اس جماعت کے دوبارہ وکٹری سٹینڈ پر آنے کی ضمانت بن کر ابھرے گا جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کو جمہوری اقدار کی مضبوطی ‘ جمہوریت مخالف عناصر کی ہر محلاتی سازش ناکام بنانے اور ریاستی ادروں کو اپنی حدود و قیود میں رہنے کا پابند بنانے کیلئے مثبت اور توانا کردار ادا کرنے کا بہترین موقع حاصل ہوجائیگا۔ بصورت دیگر ووٹ کو عزت دو کا خواب کبھی شرمندہ¿ تعبیر ہوگا نہ آئین و قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی عملداری کا کوئی تصور مستحکم ہو پائے گا۔