اک زخم جو رستا ہے میرے سینے میں
میں سوچوں کے صحرا میں محو سفر تھا کہ اچانک خیال آیا کہ ہمایوں ظفر بھائی سے بات کروں میں فوراً موبائل اٹھایا اورہیلو کہا ہمایوں ظفر بھائی سے ہماری بات چیت ہوئی علیک سلیک کے بعد ہمایوں ظفر بھائی نے کہا کہ میں کل ترکی جارہا ہوں۔ میں نے ماشا ء اللہ کہا اوردعا کی کہ خیرخیرت سے ترکی جائیں اورخیر خیریت سے واپس آئیں تب اورمختلف امورپر گفتگو ہوگی۔ بات چیت ختم ہونے کے بعد ایک مزید خیال آیا کہ کیوں نہ ان سے یہ کہتا کہ میزبان رسول ﷺ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے روضے اقدس پر اللہ تعالیٰ سے گر کر یہ اشکوں بھرا پیغام پہنچا دیں کہ اے میزبان رسول ﷺ بنی اسرائیل کی سزا تو 40سال میں ختم ہوگئی جو 40سال تک صحرا سینا میں زندہ درگور رہی اوربہاری پاکستانیوں نے کلمہ کی بنیاد پر پاکستان بنایا اوربیش بہا قربانیاں دیں وطن چھوڑا اپنے آبائو اجداد کی قبریں چھوڑیں۔ مشرقی پاکستان کو اپنا مسکن بنایا ‘کیا پتہ تھا کہ ہم پاکستان کے قیام اورتحفظ پاکستان 1971ء میں دوبارہ برباد ہوجائیں گے اور46سال سے مشرقی پاکستان کے 66کیمپوں میں سخت کسمپرسی کی زندگی بسر کررہے ہیں انہوں نے جی جان سے پاکستان کا ساتھ دیا ۔ لیکن ان محصورین بنگلہ دیش کو نہ پاکستان واپس لینے کیلئے تیار ہے اور نہ ہی بنگلہ دیش ان کو قبول کرنے کو تیار ہے۔ بنی اسرائیل کی سزا 40سال میں ختم ہوگئی لیکن بہاری پاکستانیوں کی 46سال کے بعد بھی ختم نہیں ہوئی اے اللہ بنی اسرائیل کو تو تو نے من وسلویٰ کھلایا لیکن بنی اسرائیل تیری نہیں ہوئی اور تجھ سے فرمائش پرفرمائش کرتی رہی‘ مگر معاقیطن مشرقی پاکستان کس جرم کی پاداش میں سزا بھگت رہے ہیں آخر یہ کب تک یہ سزا بھگتیں گے۔ ایک خاتون جو کیمپ میں پیدا ہوئی اوروہیں جوان ہوئی اور اس کا شوہر بھی کیمپ میں پیدا ہوا جب کوئی پاکستانی ان کے کیمپ کا دورہ کرتا ہے تو وہ خاتون حسرت لئے اپنے چولھے پر روٹی کو چھوڑ کرآتی ہے اورکہتی ہے اور پاکستانیوں سے پوچھتی ہے کہ آخرہم کب تک اس کیمپ میں رہیں گے؟وہ کہتی ہے جو بھی پاکستانی ہم سے مل کرجاتا ہے دوبارہ واپس نہیں آتا ہے اورہم سب پاکستان کو خیالوں میں دیکھتے ہیں کہ جس پاکستان کیلئے ہمارے ماں باپ آبائو اجداد نے قربانیاں دیں تھیں وہ کیسا پاکستان ہوگا؟ جو سب ہی وہاں جانے کی حسرت لئے اس جہان فانی سے کوچ کرجاتا ہے وہ جنت نظیر سر زمین ہوگی تب تو ہر پاکستانی بہاری پاکستان جانے کو تیار ہے لیکن پاکستان سے کوئی خوشخبری نہ آنے پر مرجھا کر اپنی جھونپڑی میں واپس چلی جاتی ہے اس کا شوہر بھی اس کیمپ میں پیدا ہوا اوروہ بھی پاکستان جانے کی حسرت لئے زندہ ہے اس کرہ ارض پر کم وبیش 58 مسلم ممالک ہیں۔ تمام مسلم ممالک چند کو چھوڑ کرہر شعبہ زندگی میں خود کفیل ہیں لیکن ان میں اتحاد نہیں ‘تقریباً سبھی یہود ونصاریٰ کے آلہ کار ہیں ان حکمرانوں کو اپنے عوام ومسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں۔
حضوراکرمﷺ کا ارشاد ہے ہم مسلمان ایک جسد خاکی کی طرح ہیں جب آنکھ کو تکلیف ہوتی ہے تو تمام جسم اس تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے حضور اکرم ﷺ کا یہ قول ہے جس مسلمان کے دل میں تعصب ہوگا وہ ہم میں سے نہیں جس مسلمان میں اخلاق نہیں وہ ہم میں سے نہیں۔ جب تمام مسلم ممالک پر نظرڈالیں تو سبھی خود کفیل ہیں۔ لیکن ان کے عوام خوشحال نہیں‘حضور اکرم ﷺ کا یہ بھی قول ہے کہ جو یہود ونصاریٰ کا دوست ہے وہ بھی ہم میں سے نہیں۔ پھر کون ہے اپنا ؟ سندھ کی چند خواتین کی پکار پرحجاج بن یوسف نے راجہ داہر کا قلع قمع کرنے کیلئے تین دستے سندھ بھیجے آخری دستہ کا سپہ سالار محمد بن قاسم تھا جس نے راجہ داہر کا قلع قمع کرنے کے بعد سندھ میں اسلامی نظام قائم کیا اورسندھ کو باب السلام ہونے کا شرف حاصل ہوا شاید وہ اب مائیں نہیں جنکی اولادیں صلاح الدین ایوبی‘ محمد بن قاسم‘ ٹیپو سلطان ‘شہاب الدین غوری‘محمود غزنوی جیسے مسلم سالار بنیں ۔ لیکن یہ یہود ونصاریٰ کی سازش ہے کہ مسلمان ٹکریوں میں بٹ کر رہیں تب ہی ہماری کامیابی ہے۔ مسلمان حکمران لبرل ازم اورجمہوری نظام کو ترقی وخوشحالی کا ضامن سمجھتے ہیں تمام مسلمانوں کو اپنے ہی کئے کی سزا مل رہی ہے دنیا کے ہرخطے میں مسلمان افراتفری ظلم وبربریت کاشکار ہیں آج شام عراق یمن روہنگیا ودیگر مسلمان ملکوں کا کیا حال ہے جب عرب وعجم ویہود ونصاری کو دیکھتے ہیں تو سب کے سب یہود ونصاری کے آلہ کار ہیں۔لیبیا کو اس لئے تباہ وبرباد کیا کہ وہ ہرمعاملے میں یہودونصاریٰ کی دست وبرد سے آزاد تھا‘ نہ بجلی کی نہ گیس کی کمی تھی نہ دیگرمسائل تھے تمام چیزیں انہیں فری دی جاتی تھیں اورسالانہ منافع بھی عوام کو حاصل تھا۔ اس لئے کہ لیبیا کو i.m.p اور ورلڈ بنک کا مقروض بنوانا تھا لیبیا امریکہ کا کہنا نہیں مانا اوروہ برباد ہوا۔ کرہ ارض پر تمام مسلم ملکوں کو توجہ دیناچاہیے کہ آخر مسلمان کیوں پستی کاشکار ہیں؟ ان کے اسلاف کیا تھے اوریہ کیا ہیں؟ مگر یہ دوبارہ اللہ رب العزت کی رسی کو تھام لیں اورتوبہ کرکے پھر سے یکجا ہوجائیں اوروطن عزیز میں عدل وانصاف کا نظام دین اسلام نافذ کریں تو پھر دیکھئے اللہ تعالیٰ کیسے غیب سے مدد فرماتا ہے حیرت ہے اس بات کی کہ ہم 40لاکھ افغانیوں کی میزبانی کررہے ہیں اورجنہوں نے وطن عزیز پر قربان ہوگئے وہ 1/2دو لاکھ محب وطن پاکستانی بنگلہ دیش میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اورپاکستان آنے کے منتظر ہیں یہ عالم اسلام اورپاکستان کے حکمرانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہیں شیخ سعدی ؒ کا قول ہے اگرچڑیا اکٹھی ہوجائیں تو شیر کی کھال کھینچ سکتی ہیں ۔ کاش کہ ہم ایک ہوتے؟