متحدہ ہندوستان میں صوبہ پنجاب کی اسمبلی میں جب پہلی مرتبہ جائیداد پر ٹیکس لگانے کی تجویز پیش ہوئی تو تمام ہندو ممبران اسمبلی چیخنے چلانے لگے۔ ان کی متفقہ رائے تھی کہ اس ٹیکس کے نفاذ سے صاحب جائیداد لوگوں کا بیڑہ غرق ہو جائے گا۔ اس واویلا اور شور شرابہ کے جواب میں پنجاب میں اس وقت کے وزیر مال سر چھوٹو رام بولے اور خوب بولے ”تمام صاحب جائیداد لوگ اپنی تمام جائیدادیں میرے نام لکھوا دیں تاکہ صرف میرا ہی بیڑہ غرق ہو“۔ لیکن اب پوری پنجاب اسمبلی میں سر چھوٹو رام کے کینڈے کا کوئی ایک بندہ بھی نہ تھا جو عامر سلطان چیمہ کو جواب دیتا۔ یہ سرگودھا سے سدا بہار ممبر اسمبلی چودھری انور چیمہ کے فرزند ہیں۔ یہ گجرات کے چوہدریوں کے داماد ہیں۔ یہ لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ گجرات میں چودھری کون ہے۔ اگرچہ اب ان پر پیغمبری وقت آن پڑا تھا۔ پھر ملک کے دیگر سیاسی حالات بھی کچھ یوں کہ کائرہ اور نذر محمد گوندل جیسے گرانڈیل سیاستدان اسمبلیوں کی عمارت سے باہر کھڑے دانت پیس رہے ہیں۔ گجرات کے یہ چودھری پھر بھی جیسے تیسے کر کے اسمبلیوں میں پہنچ ہی گئے ہیں۔ عامر سلطان چیمہ سرگودھا سے گجرات جھنڈے والی گاڑی میں بیٹھ کر دلہن بیاہنے آئے تھے۔ ان دنوں یہ صوبائی وزیر ہوتے تھے۔ اب یہ اسمبلی میں کھڑے ہو کر فرما رہے ہیں ”سو ایکڑ اراضی کا مالک انتہائی مظلوم اور مقروض ہوتا ہے۔ یہ ٹیکس دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اسے اور بہت سے مقامی ٹیکس ادا کرنے پڑتے ہیں۔ لہٰذا اسے زرعی ٹیکس ادا کرنے سے معذور ہی سمجھا جائے“۔ یہ کیا بات ہوئی کہ جب بھی اسمبلی میں زرعی ٹیکس کا معاملہ آتا ہے، تمام دیہاتی ممبران اس مسئلے پر ایک ہو جاتے ہیں اور شہری ممبران بس چپ سادھ لیتے ہیں، اب کیا یہ ضروری ہے کہ ہر حکومتی اقدام کی مخالفت ہی کی جائے۔ ہماری پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن نے پوش علاقوں میں پانچ مرلہ گھروں پر ٹیکس کے ساتھ زرعی ٹیکس کی بھی مخالفت کر دی۔ ایک سوال ہے کہ کیا تحریک انصاف زرعی ٹیکس کے خلاف ہے؟ ہم تو تحریک انصاف سے زرعی اصلاحات کی توقع رکھے بیٹھے ہیں۔ زرعی اصلاحات کے بغیر نیا پاکستان کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ اس ملک میں جب بھی زرعی اصلاحات اور زرعی ٹیکس کی بات چھڑتی ہے تو جاگیردار اور کاشتکار کو گڈ مڈ کر دیا جاتا ہے۔ زمین کی حد ملکیت مقرر کرنے کے خلاف جب پنجاب کے بڑے زمینداروں نے ایک تنظیم بنائی تو اس کا نام ’انجمن تحفظ حقوق کاشتکاراں تحت شریعت‘ تھا۔ یاد رہے نوابزادہ نصراللہ خاں اس کے صدر اور ایک بڑے زمیندار پیر نوبہار شاہ اس کے جنرل سیکرٹری تھے۔ اس طرح محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ کھاد اور زرعی دواﺅں کی مہنگائی اور کمیابی ان سو ایکڑ کے ”مظلوم اور مقروض“ مالکان کا مسئلہ نہیں ہوتا۔ شہروں میں بیٹھ کر انہیں صرف ٹھیکے سے غرض ہے جو کہ فی ایکڑ پچاس ہزار روپے تک پہنچ چکا ہے۔ پچھلے دنوں جناب معین باری صاحب کا کالم شائع ہوا۔ ”کسان اس ملک کا سب سے بڑا ٹیکس گذار ہے“۔ انہوں نے اپنے زرعی فارم پر ایک کیلیفورنیا سے زراعت میں ایم ایس سی ماہر زراعت سپروائزر ملازم رکھا ہوا ہے۔ معین باری نے بات ہی اپنے زرعی فارم کے چھوٹا ہونے سے شروع کی۔ وہ نجانے کتنے مربعوں تک کے فارم کو چھوٹا سمجھے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے 23 ٹیکس بیان کئے ہیں، جوکہ کسان کو دینے پڑتے ہیں۔ ٹیکسوں کی اس لمبی فہرست کو چھوڑیں، ان کا اصل مدعا یہی زرعی ٹیکس ہے کہ یہ نہیں لگنا چاہئے۔ لیکن اب معاملہ زرعی ٹیکس سے آگے زرعی اصلاحات کا ہے۔ مسلم لیگ آج تک اس سوال کا جواب نہیں دے سکی کہ جب ہندوستان نے 1951ءمیں زرعی اصلاحات کر لیں تو پھر یہ ادھر پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکیں۔ مشرقی پاکستان مسلم لیگ نے آزادی کے فوراً بعد جاگیرداری کے خلاف قرارداد منظور کر لی تھی۔ اہل دانش اسی قرارداد کو بنگلہ دیش کی خشت اول قرار دیتے ہیں۔ پچھلے دنوں ممتاز صحافی حسین نقی نے اپنے انٹرویو میں کہا ’شیخ مجیب الرحمان کو اقتدار نہ دینے کی وجوہ میں سب سے اہم وجہ اس کا زرعی اصلاحات کرنے کا پختہ عزم تھا‘۔ زرعی زمین کی ملکیت اور مزارعت کے بارے میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ زمین کی تقسیم انتہائی غیر مساویانہ اور غیر منصفانہ ہے۔ آدھی سے زیادہ قابل کاشت زمین تھوڑے سے لوگوں کے پاس ہے۔ 2000ءکی زراعت شماری کے مطابق قابل کاشت رقبے کا نصف سے زائد دس فیصد سے بھی کم زمینداروں کے قبضہ میں ہے۔ جو صورتحال 1960ءمیں تھی، اس میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آ سکی۔ 1960ءمیں نصف سے زائد قابل کاشت رقبہ سات فیصد زمینداروں کی ملکیت تھی۔ پھر زرعی ریسرچ سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں چھوٹے اور درمیانہ درجے کے فارموں کی کارکردگی بڑے فارموں سے زیادہ ہے۔ اگر سرمایہ، ٹیکنالوجی اور دیگر مراحل ایک جیسے ہوں تو چھوٹے فارموں کی فی ایکڑ پیداوار بڑے فارموں سے دوگنی ہو سکتی ہے۔ زرعی ادارہ شماریات کے مطابق ہر سال چالیس فیصد قابل کاشت رقبہ پر کاشت نہیں ہوتی۔ ایسی زمین کی دوتہائی ملکیت بڑے زمینداروں کی ہے۔ زرعی اصلاحات کے بغیر سیاسی اور سماجی استحکام ممکن ہی نہیں۔ ایک بات یہ بھی تو ہے کہ زرعی اصلاحات کے بعد کوئی غریبوں اور بے زمین کسانوں کے ووٹ لیکر اسمبلی پہنچنے والا امیر زادہ اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر بے مالک کسانوں سے یہ بھونڈا مذاق نہیں کر سکے گا کہ ”سو ایکڑ کا مالک مقروض اور مظلوم ہوتا ہے“۔پس تحریر: پارٹی کے نظریاتی کارکن صدر پنجاب تحریک انصاف اعجاز چودھری پر انتخابی ٹکٹوں کی فروخت کا ڈنکے کی چوٹ پر الزام لگاتے ہیں۔ پچھلے دنوں اعجاز چودھری نے اسلام آباد میں تحریک انصاف ورکرز کنونشن میں اپنی تقریر میں فارسی کے شاعر عرفی کا یہ مشہور زمانہ شعر سنایا، جس کا مفہوم یوں ہے کہ ’اے عرفی رقیبوں کے شور سے گھبرانا نہیں، کتوں کے بھونکنے سے کسی گدا کا رزق کم نہیں ہو جایا کرتا‘۔ عرفی کا کہا سچ ہے اور بے شک آسمان والے کے پاس اپنے بندوں تک رزق پہنچانے کے سو رنگ اور ڈھنگ ہیں۔ شنید ہے، اعجاز چودھری نے اپنے تمام بینک قرضے بے باک کر دئیے ہیں۔ ہم اس تبدیلی پر انہیں تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ایک سوال میرے دل و دماغ میں کلبلا رہا ہے۔ کیا عرفی کا شعر سنانے والے اعجاز چودھری اس سوال کا جواب دینا پسند فرمائیں گے کہ طلب دنیا گدا میں زیادہ ہوتی ہے یا کتے میں؟
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38