لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی کمی کے مسئلہ کو آہستہ آہستہ کامیاب حکمت عملی اپنا کر حل کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز چیف سیکرٹری پنجاب اور وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے پنجاب میں بچت کا ایک نیا سرکاری مراسلہ جاری ہوا ہے کہ سرکاری دفاتر میں اے سی 11 بجے سٹارٹ کئے جائیں۔ اس حکمنامے پر عملدرآمد صرف وزیراعلیٰ ہاﺅس اور سیکرٹریٹ میں تو مانیٹر کیا جا سکتا ہے لیکن سینکڑوں سرکاری دفاتر میں کسی ملازم کی جرات ہے کہ وہ اپنے باس کے خلاف مخبری کرے گا کہ باس نے 11 بجے سے پہلے اے سی آن کر لیا تھا۔ بجلی کی اس طریقے سے بچت ضرور ہو گی لیکن آٹے میں نمک کے برابر۔ ضرورت اس وقت کس بات کی ہے؟ بجلی کی قیمت میں اضافہ روکا جائے، اس کے لئے بے شک سبسڈی دی جائے یا بجلی کے بل میں سے ٹی وی لائسنس سمیت نیلم جہلم ہائیڈل پراجیکٹ وغیرہ کے ٹیکس نکالے جائیں۔ جس طرح ساری دنیا میں بجلی کے بل میں صرف صرف شدہ بجلی کا بل ہی شامل ہوتا ہے اسی طرح پاکستان کے بجلی کے بل کو بھی باقی ٹیکسوں سے پاک کرنے کی ضرورت ہے۔ چیف سیکرٹری پنجاب اور حکومتِ پنجاب نے واقعی اگر بجلی کی بچت کرنی ہے تو سب سے پہلے وہ الیکٹرسٹی آڈٹ سیل قائم کر کے ماہرین کی خدمات حاصل کریں اور آغاز سرکاری اداروں بشمول ہسپتالوں کے آڈٹ سے کریں کہ وہ بجلی جتنی خرچ کر رہے ہیں کیا ان کی مشینری کی کارکردگی ان کے مطابق ہے اور کیا واقعی وہ اتنی ٹھنڈک چھوڑ رہے ہیں جو اتنی قیمتی بجلی استعمال کرنے کے بعد انہیں چھوڑنی چاہئے۔ اگر اس کا آغاز میو ہسپتال اور خود پنجاب سیکرٹریٹ سے کیا جائے تو پنجاب حکومت حیران پریشان رہ جائے گی کہ جتنی بجلی استعمال کی جا رہی ہے اس میں سے 70 فیصد بجلی ضائع ہو جاتی ہے تو پھر ایسے ناقص کارکردگی والے اے سی پلانٹس اور مشینری کا کیا فائدہ۔ بجلی آڈٹ کی اہمیت پرائیویٹ سیکٹر میں بھی بہت زیادہ ہے۔ چند سال پہلے ایک پاکستانی جوان خرم نے جب بجلی آڈٹ کرنے والی کمپنی بنائی تو اس کے دوستوں کو شک تھا کہ جرمن ماہرین کی تنخواہ اسے اپنی جیب سے دینی پڑے گی لیکن جب دس کمپنیوں کو بجلی آڈٹ کے ذریعہ ماہانہ لاکھوں کا فائدہ ہوا تو یہ سلسلہ چل نکلا لیکن خرم کو خود جرمنی سے ایسی اچھی آفر آئی کہ وہ یہ کام بند کر کے چلا گیا۔ لیکن حکومت کے اندر تو خود ”انرکان“ کے نام سے انرجی بچانے کے لئے ایک ادارہ قائم ہے جو پہلے واپڈا سے منسلک تھا لیکن بعد میں اسے فٹ بال بنا کر ادارے کی افادیت صفر بنا دی گئی۔ حکومت ”انرکان“ کے ادارے کو اگر فعال بنا دے اور اسے صرف بجلی کی بچت کے لئے ایک چھوٹا سا پراجیکٹ دے تو صرف پنجاب میں سینکڑوں میگاواٹ بجلی کی بچت ہو سکتی ہے۔ گھروں میں استعمال ہونے والی بجلی کی استری اور کپڑے دھونے کی دیسی مشین ولایتی استری اور واشنگ مشین سے بہت زیادہ بجلی خرچ کرتی ہے۔ بے شمار انڈسٹریل ریسرچ کے ادارے پاکستان میں موجود ہیں لیکن حکومت کی طرف سے سائنسی اداروں کی مناسب حوصلہ افزائی نہ ہونے کی وجہ سے ان اداروں نے اس طرف توجہ نہ دی، ورنہ بجلی کی استری کی کم بجلی خرچ کرنے پلیٹ اور واشنگ مشین کا پرزہ بنانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اب وزیراعظم محمد نوازشریف نے اعلان کیا ہے کہ رمضان المبارک میں بجلی کی سپلائی کا سسٹم بہتر ہو جائے گا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ گردشی قرضوں کا بوجھ اتارا جا رہا ہے اور امید ہے کہ جس طرح وعدہ کیا گیا تھا کہ 60 دنوں میں اس لعنت سے نجات حاصل کر لی جائے گی۔ حکومت اس میں کامیاب ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اب چین کے دورے پر شریف برادران جانے والے ہیں۔جرمنی کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خوشگوار ہو رہے ہیں اگر فیڈریشن چیمبرز، ایسوسی ایشنز کے عہدیداروں سے کہا جائے کہ وہ اپنی اپنی انڈسٹری اور پیداواری یونٹ کا بجلی آڈٹ جرمن ماہرین سے کرائیں تو بہت زیادہ بجلی کی بچت ممکن ہے اور بجلی چوروں کی بھی حوصلہ شکنی ہو گی اگر بجلی چوری پکڑنے والوں کے لئے انعام کا اعلان کر دیا جائے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024