پنجاب حکومت کی کارکردگی

Jan 08, 2025

سعد اختر



پنجاب پانچ دریائوں کی سرزمین ہے۔ اسکے 9ڈویژن اور 41اضلاع ہیں۔ آبادی ساڑھے بارہ کروڑ ہے۔ رقبے کے اعتبار سے اگرچہ بلوچستان، پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ تاہم آبادی کے لحاظ سے پنجاب کو باقی صوبوں پر فوقیت حاصل ہے۔ پنجاب ضلع رحیم یار خاں سے ضلع اٹک تک پھیلا ہوا ہے۔ رحیم یار خاں کی حدود سندھ جبکہ ضلع اٹک کی خیبر پختونخوا سے ملتی ہیں۔
پنجاب قدیم تاریخ کا حامل صوبہ ہے جس کی تاریخ کئی سو سال پرانی ہے۔ لفظ ’’پنجاب ‘‘ابن بطوطہ کی تحریروں میں بھی ملتا ہے جبکہ سولہویں صدی کے تناظر میں لکھی جانیوالی کتاب ’’شیر شاہ سوری‘‘ میں بھی پنجاب کا ذکر پایا جاتا ہے۔ پنجاب کا تذکرہ مہابھارت کے قصّے کہانیوں میں بھی موجود ہے۔ جو ’’پنجند‘‘ یعنی پانچ دریائوں کے حوالے سے ہے۔ برطانوی راج میں پنجاب ایک بڑا انتظامی علاقہ تھا۔ جس میں موجودہ ہندوستان کی کئی ریاستیں شامل تھیں۔
پنجاب کی اہمیت اور وجہ شہرت کئی حوالوں سے ہے۔ یہ صوبہ پاکستان کی سیاست کا بھی گڑھ ہے۔ یہی صوبہ پاکستان کی سیاست کا رخ بھی متعین کرتا ہے کہ کس جماعت نے اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونا ہے اور نظام حکومت چلانا ہے۔ پنجاب میں کئی زبانوں کے لوگ اقامت رکھتے ہیں۔ لیکن یہاں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان پنجابی ہے۔ تاہم باقی ملک کی طرح یہاں بھی اردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ صوبہ کی 80فیصد آبادی دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔ فیصل آباد، سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور گجرات اس کے بڑے صنعتی شہر ہیں۔ صوبہ میں اعلیٰ درجے کے تعلیمی انسٹی ٹیوشن ہیں۔ ہر طرف سرکاری و نجی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا جال بچھا ہوا ہے۔
ثقافتی اعتبار سے بھی پنجاب کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ کبھی صوبہ کا کیپیٹل لاہور فلمی دنیا کا گڑھ تھا۔ شاہنور، باری اور ایورنیو جیسے بڑے فلم سٹوڈیوز یہاں تھے۔ بند روڈ پر اے ایم جبکہ ملتان روڈ پر ثنائی اور شباب سٹوڈیوز بھی فلم میکنگ میں اپنا حصّہ ڈالتے تھے جہاں اردو اور پنجابی فلمیں کثرت سے بنائی جاتیں۔ علاقائی زبان کی پشتو اور سرائیکی فلمیں بھی یہاں بنتیں۔ لیکن پھر زمانے کی زبوں حالی نے فلموں کو اجاڑ دیا۔ سٹوڈیوز ویران ہو گئے اور فلمیں بننا بند ہو گئیں جس سے ایشیاء کی سب سے بڑی سینما مارکیٹ میکلوڈ روڈ بھی اجڑ گئی اور یہاں ویرانیوں نے ڈیرے ڈال لئے۔ اب فلم سٹوڈیوز زمانے کی بے اعتنائی کا شکار ہو کر پوری طرح بند ہو چکے ہیں۔ یہاں ویرانیوں کا راج ہے اور سٹوڈیو فلور کسی بھوت بنگلے کا منظر پیش کرتے ہیں۔
رہی سیاست کی بات، تو اْس کا منظر نامہ بھی کچھ اچھا نہیں۔ پی ٹی آئی کی سیاست نے جس طرح ملکی سیاست کا حلیہ بگاڑا ہے۔ ملکی سیاست کی تاریخ میں اس جیسی پہلے کہیں کوئی مثال نہیں ملتی۔ رولز کے مطابق ہر پانچ سال بعد ملک میں عام انتخابات ہونا لازم ہیں۔ گزشتہ برس فروری کے مہینے میں دستور کے مطابق عام انتخابات ہوئے جس میں مسلم لیگ (ن) کو انتخابی نتائج میں برتری حاصل رہی۔ تاہم وفاق میں یہ ’’برتری‘‘ اتنی نہیں تھی کہ وہ تنہا حکومت بنا سکتے۔ اس لیے مسلم لیگ (ن) کو وفاق میں حکومت قائم کرنے کیلئے دوسری جماعتوں کا سہارا لینا پڑا۔ ایم کیو ایم، ق لیگ اور استحکام پاکستان پارٹی تو حکومت کا حصّہ بن گئی۔ پیپلز پارٹی نے ووٹ اور سپورٹ تو کیا لیکن حکومت کا حصّہ نہیں بنی۔ تاہم پنجاب میں چونکہ ن لیگ کو واضح برتری حاصل تھی اس لیے صوبے کی حد تک ن لیگ نے تن تنہا اپنی حکومت قائم کی اور اقتدار کی منتقلی کے فارمولے کے تحت پنجاب اور خیبر پختونخوا میں گورنر شپ کیلئے پیپلز پارٹی کے نمائندگان کو چنا گیا۔ پنجاب میں سردار سلیم حیدر اور خیبرپختونخوا میں فیصل کریم کنڈی گورنر بنا دئیے گئے۔پنجاب میں اس وقت مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہے جس کی باگ ڈور مریم نواز کے سپرد ہے۔ جو سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کی صاحبزادی اور موجودہ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی بھتیجی ہیں۔ انہیں ایک بڑے صوبے کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ مریم نواز بہت پڑھی لکھی خاتون ہیں اور رموز سیاست اچھے طریقے سے جانتی ہیں۔ گھر میں سیاسی تربیت نے انہیں کندن بنا دیا ہے۔ صوبے کی بھلائی کیلئے جو بھی فیصلے کرتی ہیں ان فیصلوں میں میاں محمد نواز شریف کی مکمل رہنمائی اور مشاورت شامل ہوتی ہے۔
مریم نواز نے ایک سالہ دورِ اقتدار میں پنجاب کی حالت بدلنے کیلئے جو ترقیاتی منصوبے شروع کئے ہیں اْن میں بیشتر تکمیل کے مراحل طے کر چکے ہیں جبکہ باقی پر تیزی سے کام جاری ہے۔ مریم ثواز علی الصبح جب دفتر پہنچتی ہیں تو کوئی نہ کوئی میٹنگ پہلے سے ہی ان کی منتظر ہوتی ہے۔ جو انہوں نے ایک روز قبل ہی کال کی ہوتی ہے۔ اس میں صوبے کی بھلائی اور بہتری کیلئے بڑے فیصلے ہوتے ہیں جبکہ پہلے سے شروع منصوبوں کی تفصیلات اور منصوبوں کی تکمیل کے مراحل کی رپورٹ بھی اْنکے سامنے رکھی جاتی ہے جن پر وہ مزید احکامات دیتی ہیں اوراچھا کام کرنے والوں کو شاباش بھی ملتی ہے۔
زرعی ترقی کے لیے بھی مریم نواز نے بہت سے اقدامات اٹھائے ہیں۔ چھوٹے کسانوں کو بیج ، کھاد اور ٹریکٹر کی خریداری کیلئے آسان شرائط پر قرضے دئیے جا رہے ہیں جبکہ پنجاب بھر میں کسانوں کو بھاری بجلی کے بلوں سے نجات دلانے کیلئے پنجاب حکومت نے ہر ٹیوب ویل رکھنے والے کسان کو سولر سسٹم کی فراہمی بھی آسان شرائط پر یقینی بنائی ہے۔ جس سے کسانوں میں خوشی اور اطمینان پایا جاتا ہے۔ پنجاب حکومت نے غریب، مستحق اور بے گھر افراد کے لیے سستے گھروں کی تعمیر کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے۔ لاہور کے مضافات سمیت پنجاب کے دیگر اضلاع میں بھی سستے گھر بنائے گئے ہیں۔ جن کا قبضہ بھی مستحق افراد کو دے دیا گیا ہے۔ جو یہاں شفٹ ہو چکے ہیں جبکہ باقی ماندہ ہزاروں گھروں کی تعمیر تیزی سے جاری ہے۔علاوہ ازیں پنجاب کے مختلف اضلاع میں بڑھتے ہوئے جرائم پر مریم نواز اپنی تشویش کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔ اس ضمن میں اْن کا رابطہ مسلسل انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب سے رہتا ہے۔ اس موقع پر چند پولیس افسران کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا جن کے آفس کے دروازے ہر وقت سائلین کیلئے کھلے رہتے ہیں۔ یہ افسران پبلک مقاما ت پر کھلی کچہریوں کا انعقاد بھی کرتے ہیں تاکہ موقع پر ہی مسئلہ سن کر اْس کے تدارک کیلئے احکامات جاری کر سکیں۔
سی سی پی او گوجرانوالہ رانا ایاز، ڈی پی او احمد محی الدین، ڈی ایس پی عمران عباس چدھڑ اور ایس ایس پی انویسٹی گیشن لاہور حافظ نوید جیسے پولیس افسران پولیس کے محکمے کی شان ہیں۔ ان جیسے پولیس افسران کی بدولت ہی محکمہ پولیس کا نام سربلند ہے اور بجا طور پر پنجاب کے عوام کو ان دیانتدار اور عوام کی خدمت میں ہر وقت مصروف اپنے ان افسران پر فخر ہے۔ ان جیسے افسران ہر ڈویژن اور ضلع میں تعینات ہو جائیں تو میرا یقین ہے کہ پولیس کے حوالے سے جتنی بھی شکایات ہیں اْنکا ازالہ ہونے لگے گا۔لوگوں کو دادرسی کیلئے دربدر نہیں ہونا پڑیگا۔ مریم نواز کو چاہیے وہ اس جانب بھی توجہ دیں۔ انٹرویو کے بعد اچھے پولیس افسران کی تعیناتی کو پنجاب کے ہر ڈویژن اور ضلع میں یقینی بنائیں۔پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مریم نواز کی کارکردگی دیگر صوبوں کے برعکس پنجاب میں بہت اچھی اور بہتر ہے۔ ناقدین بھی اس کا اعتراف کرنے لگے ہیں جس کیلئے یقینی طور پر انہیں خراج تحسین ہی پیش کیا جا سکتا ہے۔

مزیدخبریں