فرد واحد سے ایک ادارے کا سفر

Jan 08, 2025

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ


اپنے پچھلے دو کالموں میں جن دو اشخاص ڈاکٹر آصف جاہ اور ڈاکٹر ظہیر الحسن میر کی خدمات کا ذکر کیا یقین کیجیئے اسکے پیچھے اس خاکسار کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد کارفرما تھا کہ عوام الناس کو بتایا جائے کہ جس دور میں ہم خود اپنے کندھوں پہ اپنی مذہبی، معاشرتی اور اخلاقی روایات کی پامالی کا جنازہ اْٹھائے گلی گلی رسوا ہو رہے ہیں وہاں اب بھی ایک نہیں دو نہیں سینکڑوں چراغ اپنے اپنے حصے کی روشنی سے چراغاں کیئے اس گلستان کو آباد رکھے ہوئے ہیں۔ پچھلے کالم میں جہاں پر بات رکی وہیں سے سلسلہ آگے بڑھاتے ہیں۔ مرد مجاہد ڈاکٹر ظہیر میر جو مزار داتا گنج بخش سے ایک نئی رمق لیئے سفر پر نکلتا ہے اپنے ساتھی ڈاکٹر تہور کے سوال کے جواب میں کہتا ہے کہ آج کی بات کرو کل کی بات رب کریم پر چھوڑو، ہم آج بوٹا لگاتے ہیں باقی کا کام اس کائنات اس باغ کا مالک شہنشاہوں کا شہنشاہ رب کریم جانے یا اْسکا مقررکردہ مالی۔ 2012ء  میں فلاح کے اس سفر کا یوں آغاز ہوتا ہے کہ میئو ہسپتال کے آوٹ ڈور یونٹ کے کمرہ نمبر 3 میں علی ہجویری فری ڈرگ بینک کے نام پر مستحق افراد کو فری ادوایات کی فراہمی شروع ہوتی ہے۔ کہتے ہیں نیک کام پر انسان اکیلا بھی نکلے تو قافلہ خود بخود تشکیل پا جاتا ہے۔ یہی معاملہ اس مرد قلندر کے ساتھ بھی پیش آیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ڈاکٹر صاحب کے کئی مخیر دوست اس کارِ خیر میں انکے ہمسفر ہو لیئے۔ اب ڈاکٹر صاحب کیلئے یہ مسئلہ تھا کہ وہ اسی ہسپتال میں بطور ایڈیشنل میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سرکاری فرائض بھی انجام دے رہے تھے لہٰذا انھوں نے مناسب سمجھا کہ اس ادارہ علی ہجویری فری ڈرگ بینک کو قانونی شکل اور تحفظ دیا جائے لہٰذا انھوں نے علی ہجویری فری ڈرگ بینک کو محکمہ سوشل ویلفیئر کے ساتھ بطور فلاحی تنظیم رجسٹرڈ کروا دیا اور اسکے امور چلانے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دے دی اور ساتھ ہی اسکے اکاؤنٹس کی مکمل آڈٹ کی ذمداریاں ایک چارٹرڈ اکاؤنٹس فرم کے سپرد کی گئیں۔ اب جیسے جیسے علی ہجویری فری ڈرگ بینک کو مالی آسودگی حاصل ہونی شروع ہوئی تو ڈاکٹر صاحب کی نگرانی میں اس ڈرگ بینک نے یہ فیصلہ کیا کہ عام ادوایات کے ساتھ اب کینسر کے مریضوں کیلئے بھی سنیئر ڈاکٹرز کی ہدایات اور زیر نگرانی مہنگی ادویات فراہم کی جائیں اور اسطرح آج یہ عالم ہے کہ اس فری ڈرگ بینک سے صرف میو ہسپتال میں روزانہ سات سے آٹھ سو مریضوں کو فری ادوایات فراہم کی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر ظہیر میر کے اس قافلے کا اگلا پڑاؤ اس وقت دیکھنے کو ملتا ہے جب 2015ء میں علی ہجویری فری ڈرگ بینک لاہور جنرل ہسپتال میں میو ہسپتال کی طرح غریب اور مستحق مریضوں میں دوائیوں کی فراہمی شروع کرتا ہے اور پھر 2017ء میں گورنمنٹ میاں منشی ہسپتال میں 6 ڈائلسز مشینوں کے ساتھ ایک فری ڈائلسز یونٹ کا آغاز کرتا ہے۔ خدا کی قدرت دیکھیں آج اس یونٹ میں 19 مشینوں کے ساتھ تین شفٹوں میں گردے کے مریضوں کی صفائی کا کام ہوتا ہے۔
 بات صرف یہاں تک نہیں رْکتی، بھلا یہ کیسے ہو سکتا تھا جس در سے اس سفر کا آغاز ہوا ہو وہاں پر اس خیر کا رزق تقسیم نہ ہوتا۔ ایسے تو نہیں کہتے گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نور خدا، ناقصاں راہ پیر کامل کاملاں راہ رہنما۔ ڈاکٹر ظہیر میر کیونکہ یہاں کا ایک ادنی خادم ہے لہٰذا انھوں نے ایک تو گورنمنٹ داتا دربار ہسپتال کے آوٹ ڈور میں مستحقین کیلئے فری ادوایات کی فراہمی یقینی بنائی اور دوسرا ہر بدھ وار وہ خود اپنی نگرانی میں یہاں کلینک کرتے ہیں اور عرس کے دنوں میں بھی وہ اپنی حاضری کو یقینی بنائے رکھتے ہیں۔ اسکے ساتھ علی ہجویری فری ڈرگ بینک کے زیر اہتمام میو ہسپتال میں ایک فری واٹر فلٹریشن پلانٹ بھی لگا ہوا ہے اور فری ایمبولینس سروس اپنی خدمات کے ساتھ مستحقین کیلیئے ہر وقت حاضر رہتی ہے۔
علی ہجویری فری ڈرگ بینک تنظیم کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ یہاں ایک ایک پائی اور ایک ایک مریض کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ ابتک کا ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ 2012ء سے لیکر دسمبر 2024ء تک اس ادارے نے 25 لاکھ سے زائد مریضوں کو ادوایات فراہم کی ہیں جبکہ ڈائلسز کے 7879 مریضوں کے 361752 ڈائلسز کرائے گئے اور کینسر کے 28353 مریضوں کی کیمو تھراپی میں معاونت کی گئی۔کہتے ہیں فلاحی کام ایک ایسا پودا ہے جسکی جڑیں خود بخود پھیلتی ہیں اور جگہ جگہ تناور درختوں کے روپ میں اپنے سائے سے غریبوں کے سر ڈھانپتا رہتا ہے۔ علی ہجویری فری ڈرگ بینک کا اگلا درخت جو جڑ پکڑ رہا ہے اسکا ظہور لاہور شہر کے ایک مضافاتی علاقے جیابگا (رائیونڈ) میں ہو چکا ہے جس میں 50 ڈائلسز مشینوں کے ذریعے نہ صرف ڈائلسز کی سہولت میسر کی جائیگی بلکہ وہاں زچہ بچہ کا ایک یونٹ، آنکھوں کے مریضوں کے علاج کی سہولت، ایم آر آئی یونٹ اور ایمرجنسی کی سہولت بھی فراہم کی جائے گی۔
قارئین آپکے سامنے جو تفصیلات رکھی ہیں اسکا مقصد کسی کی بڑائی پیش کرنا نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ دیکھیں جب اللہ چاہتا ہے تو وہ کس طرح آپکی سوچوں کو بدل دیتا ہے اور فرد واحد سے شروع ہونے والا سفر ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اسی لاہور شہر میں آپکو اس جیسے لاتعداد فلاحی ادارے اپنی خوشبو بکھیرتے ملیں گے جس میں ڈاکٹر آصف جاہ کا کسٹم ویلفیئر کلینک، ثناء اللہ کاکٹر کا دارالاحسان آئی ہسپتال، راولپنڈی میں زمرد خان کا سویٹ ہوم اور اسلام آباد میں صفیہ دلپذیر کی دلپذیر فاونڈیشن اس کارِ خیر کی روشن مثالیں ہیں۔ حدیث شریف ہے امر بالمعروف و نہی عن المنکر، نیک کام کی تلقین کرو اور بْرے کام سے روکو۔ نیک کام کی تلقین کا ایک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ ایسے لوگوں کی تعریف اور تشہیر کرو تاکہ دوسرے لوگ بھی انکے کاموں سے متاثر ہو کر اس طرف راغب ہوں۔ انشاء اللہ اس طرح کے کار خیر کے ذکر کا سلسلہ اگلے کالموں میں بھی جاری رہے گا۔
٭…٭…٭

مزیدخبریں