"بْووے آئی جنج۔ تے وِنؤ کْڑی دے کن" یہ پنجابی کی ایک ایسی کہاوت ہے جو ہم میں سے اکثر نے اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں ضرور سْنی ہو گی اور اسکے عملی تجربے یا مشاہدے سے مستفیذ بھی ضرور ہوئے ہونگے۔ حقیقت نظری سے دیکھا جائے تو جس قوم کے کلچر میں یہ مزاج کا ایک حصہ بن جائے کہ جہاں کہیں اور جب کبھی بھی کسی اہم بات کی پلاننگ کی ضرورت ہو تو وہاں جب اکثریت سے یہ کہنے اور سْننے کو ملے کہ "وقت اَن دیو فیر ویخ لواں گے" وہاں یہ "بْووے آئی جنج والی" بات نہ تو کوئی نئی لگتی ہے اور نہ ہی اس پر حیرانگی ہوتی ہے البتہ فکری سوچ اور نظر رکھنے والوں کے نزدیک یہ طرز عمل کسی طور ایک ایسے المیے سے کم نہیں جو قوموں کی رسوائی اور تباہی میں پیش پیش ہوتا ہے جبکہ اسکے برعکس یہ جاننے کی کوشش کریں کہ وہ کونسی خوبی ہے جسکی وجہ سے کچھ مخصوص قومیں آجکل دنیا پر راج کر رہی ہیں تو ان قوموں کے مزاج اور عادات پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس سباق اپنے مستقبل کی پلاننگ ایک سو سال قبل کر لیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس خوبصورتی کے ساتھ پوری دنیا کے استحصال میں لگے ہوئے ہیں کہ وہ مار بھی رہے ہیں اور مار کھانے والوں کو آواز نکالنے بھی نہیں دے رہے۔ یقین نہ آئے تو چند روز پہلے ایک عالمی سْپر طاقت کی طرف سے ایک ہمسایہ اسلامی ملک کے ایک کمانڈر کو جسطرح نشانہ بنایا گیا ہے اس بیانیے کی تشریح کیلئے وہی ایک مثال کافی ہے۔ استادوں اور نقادوں کے نزدیک دلیل اور ٹھوس شواہد کے بغیر کوئی بھی بات نہ تو وزن رکھتی ہے اور نہ ہی معتبر گردانی جاتی ہے تو چلیں قارئین آج ایک بار پھر ماضی قریب کے بند کواڑ کھولتے ہیں کہ یہ بڑی طاقتیں کس ہوشیاری، چالاکی اور منصوبہ بندی سے ہم جیسے چھوٹے ملکوں کے گرد جال بجھاتی ہیں اور پھر کس طرح اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرتی ہیں۔ پچھلے پچاس سال کی تاریخ اْٹھا کر دیکھ لیں دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک کی کوشش رہی ہے کہ جنگ عظیم دوئم سے پہلے جسطرح یورپی ممالک صدیوں ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار رہے ہیں وہ تاریخ وہاں دوبارہ نہ دہرائی جائے بلکہ اْنھوں نے کمال ہوشیاری اور چالاکی سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وہ ڈرٹی گیم پچھلے ستر سالوں سے اب مشرق وسطی اور ایشیا میں منتقل کر دی ہے۔ تاریخ کا پہلا صفحہ کھولیں 1948ء کشمیر پر پاکستان ہندوستان کا پہلا ٹاکرا، اسکے بعد اسرائیل کا قیام اور فلسطین میں خانہ جنگی، 1962ء ہندوستان اور چین کی سرحدی جنگ، 1965ء پاکستان اور ہندوستان کی جنگ، 1967ء عرب اسرائیل جنگ، 1970-71 اردن اور فلسطین کی لڑائی، 1971ء پاکستان ہندوستان کی جنگ، 1973 افغانستان میں شورش کا آغاز، 1979ء روس کی افغانستان پر چڑھائی، اسی سال ایران میں انقلاب، 1980ء افغانستان میں اسلامی جہاد کے نام پر نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز، 1981ء ایران عراق کے درمیان آٹھ سال لڑی جانے والی جنگ کا آغاز، 1990ء عراق کی کی امریکہ شہہ پر کویت پر چڑھائی اور پھر عراق کی تباہی کا عمل، اسی دوران ایران اور سعودیہ کے درمیان فرقہ پرستی کی پراکسی وار کا آغاز اور اسکی اب انتہا، نائن الیون کے بہانے افغانستان آمد اور پاکستان کو ایک ایسی اگ میں دھکیلنا جسکی چنگاریاں شائد ہی بْجھ سکیں، انڈونیشیا سے مشرقی تیمور کی علیحدگی، سوڈان کا دو حصوں میں بٹوارہ، پاکستان کے اندر دہشتگردی کی جنگ، عرب سپرنگ کے نام پر پورے عرب خطے کی تباہی، لیبیا، تیونس مصر کی تباہی، داعش اور اسلامی خلافت کی پرورش اور تباہ کاریاں، شام میں خانہ جنگی، روہنگیا مسلمانوں پر ظلم کی انتہا، سعودی قطر تنازعہ، یمن تنازعہ کے علاوہ نہ جانے اور کس کس کا ذکر رہ گیا ہے جس میں ان مغربی منصوبہ سازوں کی پلاننگ نظر نہ آئے۔ یہ جتنی تاریخ بیان کی گئی ہے اسکا باریک بینی سے جائزہ لیں تو اس میں دو چیزیں بڑی واضع دکھائی دیتی ہیں جن میں ایک اس خطے کے لوگوں کی احمقانہ حد تک شدت پسندی چاہے وہ مذہبی عقائد یا فرقوں سے لگاؤ ہو یا شخصیت پرستی کا عنصر اور دوئم بیشتر ممالک میں شخصی اقتدار یا اس سے ملتا جلتا طرز حکومت۔ یہی دو وجوہات ہیں جنکے بل بوتے پر یہ مغربی منصوبہ باز اپنے مطلوبہ اہداف کے حصول کیلیئے بڑی آسانی سے ہمارے عوام کی ذہن سازی کر لیتے ہیں اور ہمیں اس وقت پتہ چلتا ہے جب "جنج بْووے ان کھلوندی اے"۔ اس سباق میں اہل نظر پچھلے تین مہینوں سے پاکستان میں اقتدار کے ایوانوں کے اندر برپا تغیرات اور حالیہ ایران واقعہ پر جب ایک نظر ڈالتے ہیں تو انکے کلیجے دھل سے جاتے ہیں کہ ہم کہیں ایک دفعہ پھر دوسرے گھر کی آگ اپنے گھر نہ لے آئیں کیونکہ وہ اپنی قوم کا مزاج بھی جانتے ہیں اور فیصلہ سازوں کے غلط فیصلے بھی جو تاریخ کا ایک حصہ ہیں لیکن اپنے ذرائع سے حاصل کچھ شواہد کی روشنی میں راقم یہ بات بڑے وثوق سے کہنے جا رہا ہے کہ اس وقت جن ہاتھوں میں فیصلوں کا اختیار ہے وہ آج سے چھ ماہ پہلے اسطرح کی صورتحال میں ایک ایسا دلیرانہ موقف اپنا چکے ہیں جسکی بنا پر ٹرمپ کو آخری وقت اپنے کسی مخصوص قدم سے پیچھے ہٹنا پڑا تھا شائد اسی بنا پر میری قارئین سے یہی درخواست ہے کہ وہ مفروضوں پر کان دھرنے کی بجائے اصل مسئلے کی طرف توجہ دیں اور وہ ہے تفرقہ بازی سے اجتناب اور بے پر کی باتوں پر یقین۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024