مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ جنوری میں کئی روز سے آسمان پر بادل کیوں چھائے ہوئے ہیں۔ اب یہ جو امریکی وزیر دفاع کی ٹیلی فون کال کے معانی پر غور کیا تو پتہ چلا کہ بادل گرجیں گے۔ بجلیاں چمکیں گی اور ڈالر برسیں گے۔ امریکی وزیر دفاع نے پاکستان کو غیر جانبدار رہنے کے عوض خطیر امداد کی پیش کش کی ہے۔ اس امداد کی کوئی تفصیل توسامنے نہیں آئی مگر پتہ چلا ہے کہ بلا مانگے سعودی عرب نے ڈیڑھ ملین ڈالر کی امداد ارسال کر بھی دی ہے جو بظاہر پاکستان کے یخ بستہ علاقوں میں گرم ملبوسات کی شکل میں ہے۔خادم حرمین شریفین شاہ سلمان نے ایک ریلیف پروجیکٹ پاکستان میں لانچ کیا ہے ۔ اس پروجیکٹ میں 30,000 ونٹر بیگ جن کا وزن 180 ٹن ہے ، پاکستان کے صوبوں میں تقسیم کیے جائیں گے۔ خیبر پختونخواہ کے چھ اضلاع میں 8000 بیگ تقسیم کیے جائیں گے۔آزاد جموںوکشمیر کے بھی چھ اضلاع میں 7500 بیگ تقسیم کیے جائیں گے۔گلگت بلتستان کے پانچ اضلاع میں بھی 7500بیگ تقسیم کیے جائیں گے اور بلوچستان کے چار اضلاع میں 7000بیگ تقسیم کیے جائیں گے۔ہر پیکیج میں دو کمبل اور مردوعورت کے لیے شالز، پانچ جرابوں کے جوڑے، دستانے اور گرم ٹوپیاں موجود ہوں گی جن کی مکمل مالیت 1.5ملین ڈالر ہے اور اس سے ڈیڑھ لاکھ افرادکو فائدہ پہنچے گا۔
پاکستان کے لئے غیر ملکی امداد کا سیلاب دو بارا ٓیا، ایک افغان جہاد کے وقت اور دوسرا دہشت گردی کی جنگ کے نام پر۔ اب جس امداد کے دروازے کھلے ہیں، اس کے عوض پاکستان کو کہاں استعمال کیا جائے گا۔ بظاہر تو یہی نظر آتا ہے کہ امریکہ کسی طرح ایران کے کس بل نکالنا چاہتا ہے اورا سکے لئے اسے پاکستان کی سخت ضرورت ہے۔۔ پاکستان یہ ضرورت غیر جانبدار رہ کر بھی پوری کر سکتا ہے اور ایک سرگرم حلیف کے طور پر بھی۔ اس کے لئے ہمارے وزیر خارجہ نے پہلا اشارہ یہ دے دیا ہے کہ پاکستان چاہتا ہے کہ ایران کوئی جوابی کاروائی نہ کرے بلکہ تحمل سے کام لے۔ امریکی وزیر دفاع نے بھی اسی بات پر اصرار کیا تھا۔پاکستان اس تنازعے کا حصہ نہیں بنے گا اور غیر جانبدار رہے گا۔ یہی ا علان پاکستان نے یمن کے تنازعہ کے دروان کیا تھا جب کئی عرب ملکوں نے ہم سے فوجی مدد مانگی تھی، بحرین کے بادشاہ تو کئی عشروں کے بعد پاکستان آئے تھے اور ہم نے کہاکہ پنشنرز کو بھرتی کر کے گزارہ چلائو ۔ ہم نے اس وقت بھی غیر جانبدار رہنے کا اعلان کیا تھا مگر ہم اپنے اعلان پر قائم نہ رہ سکے اور ہم نے سعودی متحدہ لشکر کی کمان کے لئے اپنے ریٹائرڈ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو قواعد میں نرمی کرتے ہوئے سعودی عرب بھجوا دیا تھا۔یہ کوئی غیر جانبداری تو نہ ہوئی ۔ ویسے بھی غیر جانبدار وہی رہ سکتا ہے جس کے گھر دانے ہوں اور جس نے ادھار مانگ کر روٹی نہ کھانی ہو ۔ بے چارہ محتاج کیا غیر جانبداری دکھاسکے گا۔ ہم سینہ چوڑا کرتے ہیںکہ ہم واحد اسلامی ایٹمی پاور ہیں مگر ہماری ایٹمی پاور کسی مسلمان ملک کے کام کی نہیں ، ہمارے پڑوس میں کشمیریوں کے لئے نہیں اور جامعہ ملیہ۔ علی گڑھ یونیورسٹی۔ اتر پردیش کے مدرسے اور حتیٰ کہ جواہر لال نہرو کے ہندو طالب علم ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کشمیر کی آزادی کے نعرے لگائے اورا ٓر ایس ایس کے غنڈوں سے تھپڑ کھائے مگر واحد مسلمان ایٹمی ملک مودی کے اس ظلم و ستم پر زبانی کلامی احتجاج کے قابل بھی نظر نہیں آتا۔ ہم اکیلے کیا۔ پوری امت مسلمہ مفلوج نظرا ٓتی ہے۔ چہ پدی چہ پدی کا شوربہ۔ حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھرسے۔
میں مایوسی پھیلانا نہیں چاہتا۔ میں تو اپنے مرشد مجید نظامی کا شاگرد ہوں جنہوں نے کہا تھا کہ انہیں ایک ایٹمی میزائل کے ساتھ باندھ کر بھارت کی کسی چھائونی پر داغ دیا جائے ۔اس لئے بزدلی سے میرا کیا واسطہ۔ میںتو اپنے وزیر اعظم عمران خان کی طرح سلطان ٹیپو شہید کو ہیرو مانتا ہوں اور میرا ماٹو ہے کہ شیر کی ایک دن کی ز ندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بدرجہا بہتر ہے۔ بس مجھے ایک غم ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِمیزائلوں کا بٹن میرے ہاتھ میں نہیں۔ اور جن ہاتھوں میں ہے وہ مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ لمحہ موجود میں کونسا راستہ اختیار کرنا ہے۔
ہمارے فوجی سربراہوں کی تقرری اور تو سیع کا مسئلہ تو حل ہو چکا مگر حکومتی کارگزاری کی اصلاح کے لئے کیا ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم نے پہلے ایف بی آر کے اعلی افسروں کو بلایا ۔ پھر سول سرونٹس کا ایک اجلا س منعقد کیا۔ انہوںنے ایک ہی بات کی کہ لوگوں کے کام رکے ہوئے ہیں ۔اس کے ذمہ دار آپ لوگ ہیں اور اب تو نیب کے دانت بھی توڑ دیئے گئے ہیں،اس لئے عوام کی خدمت میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہئے۔ بیورو کریٹس نے ایک کان سے سنا ہے ا ور دو سر کان سے نکال دیا ہے اس لئے کہ حکومتی پالیسی میں ایک تضاد اب بھی ہے۔ وزیر اعظم کہتے تو ہیں کہ نواز شریف نے اپنے چہیتوں سے نوکر شاہی کے ادارے کوبھر دیا۔ اور آئندہ سے لاڈلے کی تقرری اور تبادلے کی روش نہیں اپنائی جائے گی مگر ڈیڑھ سال میں وفاقی اور دو صوبائی حکومتوں نے آئی جی پو لیس بھی بار بار بدلے اور سیکرٹریوں کے تبادلے کاجھکڑ بھی چلتا رہتا ہے۔ اوپر سے آرمی چیف کی تقرری اور توسیع کا اختیار بھی وزیر اعظم کے حوالے کیا جا رہا ہے جس سے تو فیورٹ از م کی سابقہ پالیسی چلے گی جیسے ماضی میں ہوتا رہا۔ امریکہ میں ہر سرکاری افسر کی اپنی پسندیدہ پارٹی ہے اور اعلانیہ ہے مگر اس بنا پر کسی کو نہ تو نواز اجاتا ہے نہ کسی کے خلاف انتقامی کارروائی کی جاتی ہے۔پاکستان میں سول و فوجی افسروں کے لئے سیاست میں حصہ لینے کی ممانعت ہے تو پھر آرمی چیف کے لئے کسی وزیر اعظم کی مرضی کیوں۔ اصولی طور پر عدلیہ کی طرح موسٹ سینیئر کو اگلے عہدے پر لگایا جائے ۔ سارا جھگڑا ختم ہو جائے گا مگر ہماری خواہش ہو گی تو جھگڑا ختم ہو گا ورنہ موجودہ آرمی ایکٹ میں ترامیم اس جھگڑے کا خاتمہ نہیں کر سکتیں۔ فوج میں ا گر کسی جونیئر جرنیل کو چیف مقرر کیا گیا تو سینیئر افسران سپر سیڈ ہونے کی وجہ سے مستعفی ہونے پر مجبور ہیں۔ آخر وہ کونسا معیار ہے کہ کسی افسر کو بلا وجہ گھر بھیجا جائے۔ سینارٹی کا اصول کیوں متعین نہیں کیا جاتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر موجودہ ترامیم میں توسیع کو ون ٹائم صرف جنرل باجوہ کے لئے مخصوص کیا جاتااور آئندہ سے سینیئر جرنیل ہی کو چیف مقرر کیا جاتا تو یہ ترامیم مکمل اتفاق رائے سے منظور ہو سکتی تھیں اور جماعت اسلامی جیسی محب وطن جماعت کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ اب جو ترمیم ہوئی ہے اسے متفقہ نہیں کہا جا سکتا۔
ہم صراط مستقیم کواختیار کر لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے مسائل حل نہ ہونے پائیں۔ اگر حکومتی پالیسی کسی چہیتے کو نوازنے کی ہو تو مسائل کاانبارلگتا چلا جائے گا۔ عمران خان میرٹ کو پسند کرتے ہیں تو اسی کی پابندی کریں اور کروائیں۔ مسائل خودبخود حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024