امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جنہیں ہمارا برقی میڈیا اور اس سے وابستہ بعض اینکرز ’’مِسٹر ‘‘ کے بجائے اب ’’ٹرمپ صاب‘‘ کہنے لگے ہیں۔ TWEET پر پیغامات بھجوانے اور اپنے حکمنامہ کے لئے وقف سرکاری رجسٹر کے ہر صفحے کو الٹ پلٹ کر اس پر دستخط اور فوری احکامات جاری کرنے کا ایسا سیاسی چسکا لگ چکا ہے جیسے پورا کرنے کے لئے اپنی دفتری مصروفیات کا کوئی بھی لمحہ وہ آج کل ضائع ہونے نہیں دیتے؟ ان کے اس سیاسی چسکے کا یہ عالم کہ اپنے ان دوست ممالک کو جنہیں کڑے وقت پر وہ اکثر COALITION PARTNER کہہ کر یاد کیا کرتے تھے۔ آج انہیں ’’سیاسی تڑیاں‘‘ لگا رہے ہیں۔ یہ سیاسی لت انہیں آج نہیں لگی مسند اقتدار پر براجمان ہونے سے قبل جب وہ ایک کامیاب بزنس مین تھے تو سماجی رابطے کے لئے ٹویٹ کرنا ان کا اس وقت بھی یہی پسندیدہ مشغلہ تھا؟
اسے خوش قسمتی کہہ لیں یا بدقسمتی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بھی ٹرمپ نے ابتدا میں بااعتماد اتحادی ممالک کی فہرست میں تو رکھا مگر پھر وہی ہوا کہ ’’رات گئی بات گئی‘‘ بش اور اوباما بھی پاکستان کی افغانستان میں دی گئی قربانیوں اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے کی گئی کاوشوں کا بھرپور طریقہ سے اقرار کرتے رہے جس پر ہماری سابقہ حکومتیں ’’صاب‘‘ کے منہ سے نکلی تعریف کو ہی مضبوط پاک امریکہ دوستی تصور کرتی رہیں؟ یہ سوچا ہی نہ کہ بڑی قوتوں کی ایسی دوستیاں ان کے صرف اور صرف مفادات کے تابع ہوتی ہیں؟ مگر گزشتہ ہفتے سال نو کی صبح طلوع ہونے سے پہلے ہی پاکستان کے خلاف ایک انتہائی رعونت آمیز ٹویٹر پیغام دے کر ٹرمپ نے یہ ثابت کر دیا کہ ’’امریکی مفادات‘‘ کے سامنے ایسی ’’دوستی وُستی‘‘ کی کوئی حقیقت نہیں؟ ایسی دوستی کے لئے جب کسی ملک کو چاہو ’’ڈالروں سے خرید لو؟ نئے سال کی آمد پر عیسائی برادری دنیا بھر میں چونکہ بھرپور خوشیاں مناتی ہے۔ برطانیہ اور یورپی ممالک سمیت امریکہ میں ملکی سربراہان بھی چونکہ ان خوشیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں اس لئے سال نو کی آمد کی درمیانی شب اس گرینڈ خوشی کے لئے مختص ہوتی ہے۔ اس شب میں چند گھنٹوں کے لئے سب کچھ جائز ہو جاتا ہے؟ ’’مِسٹر ٹرمپ‘‘ نے بھی اس مرتبہ ان خوشیوں کو دوبالا کرنے کے لئے اپنی ذاتی رہائش گاہ پر ایک خصوصی دعوت کا اہتمام کیا۔ جنہیں پینا تھی‘ انہوں نے دل کھول کر پی‘ جنہیں ڈانس کا ’’سواد‘‘ چکھنا تھا انہوں نے یہ سواد چکھا‘ جنہیں گرنا تھا وہ گرے اور جنہیں گر کر سنبھلنا تھا وہ سنبھل نہ پائے… اور یوں نئے سال کی یہ رات صبح میں تبدیل ہو گئی؟ مِسٹر ٹرمپ میکشی سے چونکہ پرہیز کرتے ہیں اسلئے ہوش میں رہے مگر صبح سویرے ہی جسے ہم پنجابی میں ’’نور پیر دا ویلا‘‘ کہتے ہیں پاکستان کے خلاف ایک ایسا ہذیانی پیغام داغ دیا جو اتحادی دوست اپنے اتحادی دوستوں کو نہیں بھجوایا کرتے۔
اپنے ٹویٹر پر دیئے پیغام میں انہوں نے یہ اقرار کرتے ہوئے کہ امریکہ نے اپنی بے وقوفی کی بنا پر 15 برس کے دوران پاکستان کو 33 بلین ڈالرز سے زائد رقم کی فراہمی کی تشہیر تو کر دی مگر پاکستان کی دی گئی قربانیوں کا جس میں 70 ہزار افراد ہلاک‘ لاکھوں معذور اور 1 ٹریلین کا نقصان شامل ہے اس کا ذکر سرے سے گول کر گئے۔ مفاداتی مؤقف یہ اختیار کیا کہ اتنی بڑی رقم کے باوجود پاکستان امریکہ کو وہ ممکنہ نتائج نہیں دے پایا جس کی توقع تھی اس لئے پاکستان کو اب مزید امداد نہیں دی جائے گی۔ بات یہاں تک بھی رہ جاتی تو مستقبل میں پاک امریکہ اتحادی تعلقات پر نظرثانی کی گنجائش موجود تھی۔ مگر پاکستان کے بارے میں ٹرمپ کے کہے اس فقرے نے
"THEY HAVE GIVEN US NOTHING BUT LIES AND DECIT"
اتحادی دوستی کے دروازے بند کر دیئے ہیں۔ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر NIKKI HACOY نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ
"PAKISTAN PLAYED A DOUBLE GAME FOR "YEARS" THAT GAME IS NOT ACCEPTABLE TO THE
پاکستان کو دوہرے کھیل کا طعنہ دینے والی امریکی سفیر نے صحافیوں سے 2‘ 3 یا 5 برس کی بات نہیںکی بلکہ لفظ YEARS استعمال کیا اور وہ یہ بھول گئیں کہ ’’ییرز‘‘ ان کی ناکام امریکی پالیسی کا واضح اعتراف ہے۔ پاکستان کو اب NOTICE پر رکھنے کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔ جو اس امر کا ثبوت ہے کہ ’’مسٹر ٹرمپ‘‘ شرابی نہ ہوتے ہوئے بھی کسی ایسی ذہنی کیفیت کا شکار ہو چکے ہیں جس میں مسلمانوں اور بالخصوص پاکستانیوں کے اپنے ملک کے بارے میں جذبات انہیں سونے نہیں دے رہے۔ پاکستان کا امریکہ کو شکر گزار ہونا چاہئے تھا کہ پاکستان نے امریکہ کو فضائی اڈے دیئے۔ نیٹو کو آزادانہ آمدورفت کی سہولتیں دیں۔ امریکہ کے ہمراہ ایک ایسی جنگ لڑی جو پاکستان کی ہرگز نہ تھی مگر افسوس ان تمام تر قربانیوں کے باوجود امریکی صدر کی سوچ کا محور صرف DO MORE تک محدود رہا۔
یہاں تک لکھ چکا تھا کہ خاموش رکھے میرے موبائل کے ’’واٹس اپ‘‘ کی روشنی آن ہوئی دوسری جانب پاکستان کے ممتاز عسکری تجزیہ کار اور سابق کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفیٰ تھے۔ ناپ تول کر وقت مقررہ پر کھانا کھانے والے جنرل صاحب جنہوں نے FOOD POISNING کا شکار ہو کر ہسپتال میں چند روز گزار کر گھر پہنچتے ہی مجھے یاد کیا تھا۔ موقع مناسب اور لوہا گرم دیکھتے ہی میں نے ان سے پوچھ لیا کہ امریکی صدر نے اقتصادی امداد بند کرنے کا عندیہ تو دے دیا۔ پاکستان کو NOICE پر بھی ڈال دیا گیا ہے۔ کیاعوام‘ حکومت اور افواج پاکستان یہ سب کچھ برداشت کر لیں گے۔؟
"NOT AT ALL" جنرل صاحب نے جرنیلی لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا۔ امریکی انتظامیہ اپنے ہی سسٹم کو دھوکہ دے رہی ہے۔ جسے آپ نے ’’مسٹر ٹرمپ‘‘ کہا۔ بنیادی طور پر وہ ایک پاگل شخص ہے جسے ’’کولیشن پارٹنرز‘‘ سے گفتگو کرنے کا ادراک ہی نہیں۔ افغانستان میں امریکہ بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ جس کے بارے میں ٹرمپ کے ایڈوائزرز جن میں وزیر دفاع مٹیس‘ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف شامل ہیں۔ بخوبی جانتے ہیں یہ تمام لوگ پاکستان میں کام کر چکے ہیں اس لئے جغرافیائی امور کو بھی یہ اچھی طرح جانتے ہیں ان دھمکیوں کا اصل نقطہ پاک امریکی مفادات ہیں۔ پاکستان اپنے مفادات سے اب ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔ ہماری بہادر افواج کی قربانیوں کا یہ صلہ دیا گیا ہے ہم بھکاری نہیں اپنی قومی عزت قومی مفادات اور اپنی INTEGREGITY کی حفاظت کرنا اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہمیں اب ایک ٹھوس پالیسی بنانا ہے جس کا تسلسل قائم رہنا چاہئے۔ وقت آ گیا ہے کہ حکمران بھی اب اس معاملے کی نزاکت کو سمجھیں۔ خاموشی اور دھیمے لہجے کا وقت اب گزر گیا۔ ہمیں بھی اب دوٹوک لہجے میں بات کرنا ہو گی۔ وہ سچ ہی کہہ رہے تھے۔
جنرل صاحب کی ان باتوں کو یقیناً قومی ترازو میں تولنا ہو گا کیونکہ اطلاعات آ چکی ہیں کہ امریکہ اپنی ان دھمکیوں کو مزید بڑھا کر بہت جلد ’’ڈرؤن پریکٹسز‘‘ کا بھی آغاز کرنے والا ہے۔ اس بار ڈرؤن کا آغاز کہاں سے ہو گا‘ اس بارے میں بتانا ابھی اس لئے بھی ضروری نہیں کہ قوم تو ہنوز ’’صادق اور امین‘‘ کی تلاش میں گم ہے۔!