ورلڈ کپ کیلیے پاکستانی کرکٹ ٹیم کا اعلان ہوتے ہی تبصروں اور تجزیوں کا طوفان امڈ آیا ہے لیکن سب سے دلچسپ تبصرہ سامنے آیا ہے
کچھ کرکٹر انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے آتے ہیں۔ کچھ پچھلے دروازے سے لائے جاتے ہیں اور کچھ دروازہ توڑ کر پاکستانی ٹیم میں آتے ہیں۔ زبردست سہیل خان۔‘ یہ ہیں وہ ریمارکس جو راشد لطیف نے اپنے سوشل میڈیا پیج پر دیے،،آئیے اب دیکھتے ہیں چند اور کھلاڑیوں کی کارکردگی اور سلیکشن کمیٹی کا طریقہ کار ،،سہیل خان برق رفتار باؤلر ہیں اور ان کی رفتار ہی انہیں پاکستانی ٹیم میں لے آئی، مصباح الحق نے بھی سلیکٹرز کے سامنے یہی نکتہ رکھا تھا کہ مکمل فاسٹ بولر ہی ٹیم کی ضرورت ہے اور وہ تین مکمل فاسٹ بولرز کے ساتھ ہی میدان میں اتر سکتے ہیں اور ڈھائی بولرز کےساتھ نہیں،،لیگ سپنر یاسر شاہ کو1992 کے عالمی کپ میں دو لیگ سپنرز مشتاق احمد اور اقبال سکندر کی موجودگی کو ذہن میں رکھتے ہوئے ٹیم میں شامل کیا گیا،،سہیل تنویر جن کے بارے میں مشہور رہا کہ وہ ٹیم منیجمنٹ کی آنکھ کا تارہ بنے ہوئے ہیں بالآخر ٹیم سے باہر ہوگئے اور یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو سراہے جانے کےقابل ہے کیونکہ سہیل تنویر نے آسٹریلیا کے خلاف ابوظہبی کے ون ڈے میں تین وکٹیں حاصل کیں لیکن بیٹنگ میں غلط شاٹ کھیل کر انھوں نے ٹیم کو شکست سے دوچار کر دیاجہاں تک بیٹنگ لائن کا تعلق ہے تو عمراکمل ٹیم میں شامل ہونے والے سب سے خوش قسمت بیٹسمین ہیں کیونکہ اس سال ایشیا کپ میں افغانستان کے خلاف سنچری کے بعد سے 11 اننگز میں وہ صرف ایک نصف سنچری بنا پائے ہیں۔