عدل و انصاف کے لئے کوشاں اعلیٰ عدلیہ کے اقدامات
محمدصلاح الدین خان
سپریم کورٹ گزشتہ سال مقدمات کو تیزی سے نمٹانے اور لوگوں کو انصاف کی فراہمی کیلئے تندہی سے کوشاں رہی جبکہ انسانی حقوق کے معاملات پر چیف جسٹس کی جانب سے سوموٹو کے تحت بھی بھی کئی ایک اہم مقدمات کو زیر سماعت لایا گیا۔ جن میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ، سانحہ کورٹ رادھا کشن، پشاور چرچ حملہ ، اسلام آباد ڈسٹرکٹ کورٹ حملہ، سرگودہا میں بچوں کی ہلاکت اور بوڑھی خاتون و گونگی بہری لڑکی سے اجتماعی زےادتی کے واقعات سمیت ماحولےاتی آلودگی ، سرکاری اراضی پر قبضے، سفارتخانوں و دیگر بااثر اداروں کی جانب سے پیدا کردہ رکاوٹوں کے خلاف کارروائی سے متعلق از خود نوٹس پر کیس شامل ہیں۔ سال بھر میں زیر التواءمقدمات کو نمٹانے کا معاملہ اس بار بھی سر فہرست رہا۔ بحیثیت مجموعی ملک بھر میں ہائی کورٹس ڈسٹرکٹ کورٹس اور ماتحت عدلیہ کی کاررکردگی اس بار بھی مایوس کن رہی ہے ۔ جبکہ اس دوران سپریم کورٹ میں انتہائی اہم نوعیت کے بعض پرانے مقدمات اور اپیلوں کو غیر مو¿ثر ہونے کی بنا پر نمٹا دےا گےا ہے ۔ ان مقدمات میں پرویز مشرف کے دور حکومت کی ایمرجنسی کو کالعدم قرار دینے کی درخواستیںسے متعلق کیس، مےاں نواز شریف، آصف زرداری، بے نظیرکےخلاف سےاسی مقدمات، ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نظربندی کیس، وغیر ہ شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت سپریم کورٹ میں زیر التواءمقدمات کی تعداد بیس ہزار کے قریب ہے جبکہ انسانی حقوق سیل میں تیس ہزار درخواستیں التواءکا شکار ہیں۔ سال 2014ءکے دوران سپریم کورٹ میں عام انتخابات، الیکشن کمیشن آف پاکستان، پارلیمنٹرین اور دھاندلی کے حوالے سے مقدمات کی سماعت کا تسلسل رہا۔ اگر یہ کہا جائے مذکورہ نوعیت کے مقدمات میں عدالت عظمیٰ پھنس کر رہ گئی تو بے جا نہ ہوگا۔ مگر سپریم کورٹ نے ہرممکن کوشش کی کہ خود کو سےاست سے الگ رکھا جائے اور کوئی ایسا فیصلہ نہ دےا جائے جس سے جمہوری سسٹم ڈی ریل ہو۔ جس کا ذکر متعدد کیسز میں ججز کی جانب سے کئی بار آبزرویشن کے ذریعے بھی کیا جاتا رہا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے پی ایم نااہلی کیس میں کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا یہ مقدمہ سیاسی نوعیت کا ہونے کے باعث ہماری دسترس سے باہر تو نہیں، ہمارا مقصد یہ ہے کہ انتخابات کو متنازعہ نہیں بننا چاہیے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ عدالت آئین کے مطابق سےاسی مقدمات کے حوالے سے فیصلے دینے سے گریز اور پہلو تہی کرتی ہے جس کی اجازت آئین بھی دیتا ہے تاکہ جمہوری معاملات چلتے رہیں، سسٹم سٹک نہ ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہائی کورٹ نے مذکورہ اپیلوں کوسےاسی قرار دیتے ہوئے انہیں خارج کر دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے ریڈ زون میں دھرنے کے حوالے سے مقدمہ میں بھی عدالت نے خود سے حکم دینے کے بجائے اس مسلئے کو انتظامی طور پر حل کرنے پر زور دےا جبکہ اس حوالے سے دائر متعدد پٹیشنز 17 دسمبر کو دھرنا ختم ہونے کے بعد غیر مو¿ثر ہو گئیں۔ گزشتہ سال سپریم کورٹ میں اہم نوعیت کے مقدمات کی سماعت ہوئی ان میں عام انتخابات 2013 ءکالعدم قرار دینے سے متعلق کیس، مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تعنےاتی کیس، بلدےاتی انتخابات کیس اور شولڈر پرموشن کیس وغیرہ شامل ہیں۔
سپریم کورٹ نے عام انتخابات 2013 کالعدم قرار دینے سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کےا چیف جسٹس نا صرالملک نے 10 صفحات پر مبنی فیصلہ تحریر کیا جس میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 225 کی موجودگی میں انتخابی نتائج کو کیسے چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 225 کے تحت کسی بھی الیکشن کے نتیجہ کو صرف الیکشن ٹریبونل میں ہی چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ عدالتی فیصلے سے ممکنہ متاثرہ شخصیات کو فریق نہ بنانا انہیں فیئر ٹرائل کے حق سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔ اسی لئے تفصیلی فیصلہ میں عدم شواہد، لازمی شخصیات کوفریق نہ بنانے پر درخواستیں ناقابل سماعت قرار دی گئیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئینی اور قانونی نکات پر درخواست گزار کی معاونت نہ ملنے پر عدالتی کارروائی آگے نہیں بڑھائی جا سکتی۔ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت اگر درخواستوں کو منظور کر لیتی تو تمام ممبران پارلیمنٹ اپنی رکنیت سے محروم ہو جاتے۔ انتخابی دھاندلی کے الزامات سے متعلق کوئی دستاویز منسلک نہیں کی گئی۔ لہٰذا ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی میں عدالتی کاروائی کو آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔
سپریم کورٹ نے وزیراعظم میاں نوازشریف کو نااہل قرار دینے کے لئے دائر تینوں آئینی درخواستیں ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کر دی ہیں۔ عدلت نے قرار دیا ہے کہ وزیراعظم کا اسمبلی کے فلور پر جھوٹ ثابت نہیں ہو رہا، وزیراعظم کے اسمبلی میں دیئے گئے بیان میں فوج سے متعلق کہیں غلط بیانی نظر نہیں آئی وزیراعظم، وزیرداخلہ چوہدری نثار اور آئی ایس پی آر کی ٹویٹ میں کوئی تضاد نہیں محض درخواست گذار کی خواہش پر وزیراعظم کو نااہل قرار نہیں دےا جا سکتا۔ ان متفرق درخواستوں پر چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ، جسٹس ثاقب نثار، جسٹس انور ظہیر جمالی، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس سرمد جلال عثمانی اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل سات رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی، جنہیںپی ٹی آئی کے اسحاق خاکوانی، ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور گوہر نواز سندھو کی جانب سے دائر کیا گیا تھا۔اس سے قبل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے آرٹیکل 62 اور آرٹیکل 63 کی تشریح سے متعلق معاملہ چیف جسٹس کو ارسال کیا تھا، جس کے پیش نظر چیف جسٹس نے ان درخواستوں کی سماعت کیلئے سات رکنی بنچ تشکیل دیا تھا۔
نئے مستقل چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار محمد رضا خان نے ہفتہ6 دسمبرکو پانچ سال کے لئے عہدے کا حلف اٹھا لیاہے۔ چیف جسٹس ناصرالملک نے سپریم کورٹ میں منعقدہ تقریب میں ان سے حلف لیا۔ وہ پاکستان کے 18ویں چیف الیکشن کمشنر کی حیثیت سے اس عہدے پر فائز ہوئے۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا خان نے میڈےا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت ہونے کی وجہ یہ عہدہ قبول کرنے سے گریزاں تھے۔ واضح رہے کہ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم عام انتخابات کے بعد 31 جولائی 2013ءکو مستعفی ہو گئے تھے اس طرح ایک سال پانچ ماہ کے بعد مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تقرری ہوئی ہے۔ پاکستان کے نئے چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار محمد رضا خان وفاقی شرعی عدالت کے چےف جسٹس کے علاوہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج رہے ہےں۔69 سالہ سردار محمد رضا خان سپریم کورٹ کے ان بارہ ججوں میں شامل ہیں جنہیں پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کی پاداش میں ملازمت سے برطرف کیا گیا تھا۔ سردار محمد رضا خان 10 فروری1945 ءکو خیبر پی کے کے ضلع ایبٹ آباد کے گاو¿ں نملی میرا میں پیدا ہوئے۔ کنٹونمنٹ بورڈ اور بلدےاتی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے مقدمات میں سندھ اور پنجاب کی حکومت کی جانب سے جلد الیکشن کمیشن کے تعاون سے حلقہ بندیوں اور دیگر معاملات طے کرنے کے لئے میٹنگ کی یقین دہائی کروائی گئی ہے جبکہ 30 سال سے کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات نہ ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم ودیگر کے خلاف توہین عدالت کے نوٹس جاری کر رکھے ہیں۔
سپریم کورٹ عدلیہ بحالی تحریک کی کامےابی کے بعد کے سالوں کی طرح حاصل ہونے والی آئینی و قانونی اتھارٹی کے تسلسل کو گزشتہ سال برقرار نہ رکھ سکی۔ اس عرصے میں عدالتی معاملات کو جارحانہ حکمت عملی کے بجائے مفاہمت کی پالیسی کے تحت چلایا جاتا رہا۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بولڈ سٹپ اور سوموٹو اختےارات کو آنے والے چیف جسٹس صاحبان نے کم ہی استعمال کےا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انسانی حقوق اور عوامی مفاد کے ایشوز سے متعلق بعض مقدمات کی سماعت نہیں کی گئی اور بجلی، پٹرول، گیس، اشےائے خورد و نوش، کرایوں میں اضافہ سے متعلق مقدمات سپریم کورٹ میں زیر التوا ہونے کے باوجود سماعت کے لئے نہیں لگائے گئے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ناصرالملک کی زیرصدارت چوبیس دسمبر کومنعقدہ اجلاس میں تمام ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان اور ہائی کورٹس کے نگران ججوں نے شرکت کی۔ اجلاس میں مختلف عدالتوں میں انسدادہشت گردی کے زیر التوا مقدمات کوجلد نمٹانے کے حوالے سے مختلف تجاویز پرغور کیا گیا۔ اجلاس کے دوران چیف جسٹس نے پشاور میں فوجی سکول پر دہشت گردوں کے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ انتہائی سفاکانہ ہے جس میں معصوم بچوں کو نشانہ بنایاگیا اس واقعہ نے پوری قوم کوجھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، یہ ایک قومی سانحہ ہے اور ہر فردکو اس واقعہ کی مذمت کرنی چاہیے ۔ چیف جسٹس نے اجلاس کو بتایا کہ واقعہ کے بعد وہ خود پشاور گئے جہاں انہوں نے بعض وکلا کے علاوہ واقعہ میں زخمی ہونیوالے زیر علاج بچوں کے ساتھ ملاقات کی۔ اجلاس کو بتایا گیاکہ انسداد دہشتگردی کی عدالتوں میں کام کے حوالے سے نگرانی کا میکنزم پہلے ہی موجود ہے ۔ اس حوالے سے ہر ہائیکورٹ کے ایک جج کو انسداد دہشتگردی کی عدالتوں کا مانیٹرنگ جج نامزد کیا گیا ہے جن کی نگرانی میں انسداد دہشت گردی کی عدالتیں کام کریں گی۔ اس کے ساتھ چاروں صوبوں کی نگرانی کیلئے سپریم کورٹ کے 4 جج صاحبان کو نامزد کیا گیا ہے جو ہائی کورٹس میں انسداد دہشت گردی کے حوالہ سے مقدمات کی نگرانی کریں گے۔ چیف جسٹس نے اجلاس کو بتایا کہ ہائی کورٹس اور انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کی رپورٹس کے مطابق انسداد دہشتگردی کی عدالتوں میںجتنے مقدمات زیر التواءہیں ان میں سے 10 تا 15 فیصد مقدمات کا تعلق بم دھماکوں یا مختلف تنظیموں اور دہشتگرد عناصر کی جانب سے کئے جانے والے دہشت گرد حملوں سے ہے ۔جبکہ باقی ماندہ ایسے مقدمات کا ان عدالتوں میں ٹرائل کیا گیا ہے جو ٹیکنیکل بنیادوں پر دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں۔ اجلاس میں تمام صورتحال کے تناظر میں مختلف تجاویز کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ دہشت گردی سے متعلقہ مقدمات کی ترجیحی اور روزانہ کی بنیادوں پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ان کی سماعت کی جائے گی۔ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے جج گواہان، تحقیقات، پراسیکیوشن ایجنسیوں اور وکلا صفائی کو ایک مقررہ مدت کا پابند بنائیں تاکہ روزانہ کی بنیاد پر مقدمات کی سماعت یقینی بنائی جا سکے۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ صوبہ بلوچستان اور مالاکنڈ ڈویژن جہاں ایف سی و لیویز اہلکار اور ریونیو کے حکام تحقیقات اور ایف آئی آر کا اندراج کرانا چاہیں وہاں متعلقہ ادارے اور حکومتیں اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ اس سلسلہ میں تربیت یافتہ پولیس افسران کی خدمات فوری طور پر حاصل کی جائیں۔ ہائی کورٹ کے نگران جج صاحبان ماہانہ کی بنیاد پر اجلاس منعقد کریں گے جس میں رپورٹ کیلئے متعلقہ فریقین کی شرکت یقینی بنائی جائے گی۔اجلاس نے صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی کہ وہ متعلقہ صوبے کے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت سے انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کا مقام تبدیل کرنے کیلئے اقدامات کریں تاکہ ان کی کارکردگی کو مزید بہتر بنایا جا سکے۔ عدالتی افسران سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں انسداد دہشت گردی کے حوالہ سے دائر اپیلوں کا جائزہ لے کر عسکریت پسندی سے متعلق کیسوں اور دیگر مقدمات کو الگ کریں گے تاکہ انسداد دہشت گردی سے متعلقہ مقدمات کی جلد سماعت کو یقینی بنایا جا سکے۔ چیف جسٹس صاحبان اس امر کو یقینی بنائیں کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی سطح پر انسداد دہشت گردی کے حوالہ سے مقدمات کو الگ کرنے کا کام ترجیحی بنیادوں پر مکمل کریں۔ اجلاس نے لاءاینڈ جسٹس کمیشن کو ہدایت کی کہ وہ انسداد دہشت گردی کے قوانین کا جائزہ لے کر نئی سفارشات سپریم کورٹ کے نگران ججوں اور چیف جسٹس آف پاکستان کو ارسال کریں۔ سپریم کورٹ میں سال 2014ءکے دوران جسٹس تصدق حسین جیلانی ریٹائرڈ ہوئے جن کی جگہ موجودہ چیف جسٹس ناصرالملک نے عہدے کا چارج سنبھالا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے الیکشن میں کامران مرتضےٰ کی جگہ فضل حق عباسی صدر منتخب ہوئے۔ رجسٹرار فقیر حسین کی جگہ نئے رجسٹرار طاہر شہباز کا تقرر بھی اس سال کے دوران ہوا۔ اب پی ٹی آئی کی درخواست پر جوڈیشنل کمیشن کی تشکیل کےلئے وزیراعظم کی جانب سے سپریم کورٹ کو خط بھی ارسال کیا جا چکا ہے۔