پارلیمنٹ نے دہشت گردوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کے لئے فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے آئین میں 21 ویں ترمیم مُتفِقّہ طور پر منظور کرلی۔ اِس سے قبل جناب آفتاب احمد خان شیرپائو نے فوجی عدالتوں کے قیام کو ۔’’کڑوی گولی‘‘۔ قرار دِیا اور جناب حاصل بزنجو نے ۔’’زہر کا گھُونٹ‘‘۔ خبروں کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے میاں رضا ربانی آبد ِیدہ ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ۔’’میرا ووٹ میری پارٹی کی امانت تھی اور مَیں نے اپنے ضمِیر کے خلاف ووٹ دِیا۔ مَیں آج اتنا شرمندہ ہُوں کہ پہلے کبھی نہیں ہُوا‘‘۔ بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن شاعر ہیں۔ انہوں نے اپنی تاریخ ِ وفات خُود ہی کہہ دی جب کہا کہ 50 سال تک فوجی عدالتوں کے خلاف جدوجہد کرنے والا اعتزاز احسن آج (6 جنوری) کو مر گیا اعتزاز احسن نے ( فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہونے سے ) ۔ دو سال پہلے جان دے دی!‘‘۔’’کڑوی گولی‘‘۔ اگر شفا بخش ہو تو اُس کے نگلنے میں کوئی ہرج نہیں ہوتا۔ مِرزا غالبؔ کے درد کا مسئلہ ذاتی تھا جب انہوں نے اپنی لا پرواہی پر اِتراتے ہُوئے کہا تھا کہ…
’’دردِ مِنّت کش ِ دوا نہ ہُوا
مَیں نہ اچھا ہُوا ٗ بُرا نہ ہُوا‘‘
لیکن دہشت گردی کے ناسُور بلکہ پنجابی زبان میں ۔’’سُور‘‘۔ کے خاتمے کے لئے کڑوی گولی نِگلنا ۔’’ثواب ‘‘۔ہے ۔ بے شک مولانا فضل اُلرحمن شوق سے کہیں کہ۔’’خُدا کا شُکر ہے کہ ہم اِس گُناہ میں شامِل نہیں ہُوئے‘‘۔ مِرزا غالبؔ نے بھی اپنے ہم عصر مولانا فضل اُلرحمن سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ …
’’جانتا ہُوں ٗ ثوابِ طاعت و زُہد
پر طبِیعت ٗ اِدھر نہیں آتی‘‘
مولانا فضل اُلرحمن ہوں یا کسی دوسری مذہبی جماعت کے امیر وہ عام لوگوں کو اپنے سے کم تر اور کم عقل سمجھتے ہیں اور اُن کے منتخب نمائندوں کو بھی۔ ہر مذہبی جماعت کا امیر عام لوگوں سے یہی کہتا ہے کہ۔’’ تُم ہمیں ووٹ دو! ۔ ہم تُم پر اسلام نافذ کردیں گے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی عام انتخابات ہُوئے تو کسی بھی مذہبی جماعت کا ۔’’بھاری بھرکم امیر‘‘۔ عوام سے بھاری مینڈیٹ نہیںحاصل کر سکا ٗ پھر وہ سب ۔’’اُمراء ‘‘۔مِل کر اپنے شاگردوں کو آگے لے آئے جنہوں نے عام مسلمانوں پر اپنی اور اپنے اساتذہ کی مرضی کی شریعت کو نافذ کرنے کے لئے دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اُستاد امانتؔ نے کہا تھا کہ…
’’سخت جانی سے ٗ غمِ ہِجر میں تنگ آیا ہُوں
زہر کے گھونٹ مجھے ٗ آبِ بقا ہوتے ہیں‘‘
کیا خبر کہ فوجی عدالتیں ۔’’دُشمنانِ دِین و ایمان‘‘۔ کو اُن کے کیفرِ کردار تک پہنچا کر علّامہ اقبالؒ اور قائدِ اعظمؒ کے پاکستان کو اُن کے خوابوں کی تعبیر بنا دیں؟میاں رضا ربانی مبارکباد کے مُستحِق ہیں کہ انہوں نے اپنی پارٹی ( در اصل جنابِ زرداری) ۔ کی امانت میں خیانت نہیں کی۔ جنابِ داغؔ دہلوی سیاستدان نہیں تھے جب انہوں نے نہ جانے کِسے مخاطب کر کے کہا تھا…
’’مجھ پہ الزام ہے کہ ٗ کیوں تُونے میرا غم کھایا؟
اور ہوتی ہے ٗ امانت میں خیانت ٗ کیسی؟‘‘
اب رہا ضمِیر کا معالمہ۔’’ضمِیر‘‘۔کو انگریزی زبان میں ۔"Conscience" ۔کہا جاتا ہے۔ لیکن گرامر میں ۔"Pronoun" ۔ کو ۔ ’’اسمِ ضمِیر‘‘۔ کہتے ہیں اور جب اسمِ ضمیر کا اِسم ۔ ’’ظاہر یا غائب‘‘۔ کی طرف مُڑ جائے تو اُسے ۔’’ضمِیر پھرنا ‘‘۔ یا۔’’ضمِیر پھیرنا‘‘۔ کہتے ہیں لیکن ٗ میاں رضا ربانی نے فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے اپنی پارٹی کی امانت یعنی ووٹ کا استعمال کِیا تو وہ پارلیمنٹ میں ۔’’گرامر ٗ گرامر‘‘۔ نہیں کھیل رہے تھے ۔انہوں نے اپنے ۔"Conscience" کی بات کی ہے۔ اپنے ضمیر کے خلاف ووٹ دینے کی بات ۔ اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ میاں رضا ربانی اور اُن کی پارٹی(قیادت) ۔ کے ضمِیروں میں بُعد اُلمشرقین ہے۔ آئین کی رُو سے پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کا کوئی رُکن پارٹی ڈِسپلن کو توڑ کر اپنے ضمِیر کے مطابق ووٹ دے تو اُسے اپنی نشست سے محروم ہنا پڑتا ہے۔ پارٹی قیادت کی طرف سے اُسے حُکم دِیا جاتا ہے کہ…
’’بس کہ ٗ گھر جا کے ٗ سنوارا کرو گیسُو اپنے ‘‘
جِس کسی رُکن کے سر پر گیسُو کے بجائے وِگ سجی ہو تو ٗاُسے اپنے لئے کوئی اور کام تلاش کرنا پڑتا ہے۔ جِس شخص کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوں۔ اُسے ۔’’آبدِیدہ‘‘۔ کہا جاتا ہے ۔ عام طور پر سیاستدان آبد ِیدہ نہیں ہوتے۔ اُن کے حلقۂ انتخاب کے ووٹر صاحبان / صاحبات ہوتے ہیں۔ سینیٹر میاں رضا ربانی اور سینیٹر چودھری اعتزاز احسن کا حلقۂ انتخاب سارا پاکستان ہے اور وہ پاکستان کے ہر شہری کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ سکتے ہیں کہ…
’’مَیں بھی پاکستان ہُوں ٗ تُوبھی پاکستان ہے‘‘
جب بھی جناب ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی سالگرہ یا برسی کا دِن آتا ہے (یعنی سال میں چار بار) اُن کے عقیدت مند اپنی شرمندگی کا اعتراف کرتے ہیں کہ…
’’بھٹو ہم شرمندہ ہیں ٗ تیرے قاتل زِندہ ہیں‘‘
’’بی بی ہم شرمندہ ہیں ٗ تیرے قاتل زِندہ ہیں‘‘
حالانکہ کہ اِس میں شرمندگی کی کوئی بات نہیں۔’’ شرمندہ تو جنابِ بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو ہونا چاہیے‘‘۔لیکن یہ سوال اپنی جگہ شرمندگی کا باعث ہے کہ۔’’ محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارت ِعظمیٰ اور جنابِ زرداری کی صدارت کے دَور میں ٗ جنابِ بھٹو کے خلاف مقدمہ ٔ قتل سپریم کورٹ میں -"Re-Open" کیوں نہیں کرایا گیا؟ اور کیا یہ بھی شرمندگی نہیں کہ ٗ جناب آصف زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو محترمہ بے نظیر بھٹو کے مقدمۂ قتل میں مُدّعی نہیں بنے؟ایران کے بادشاہ خُسرو پرویز کی ملکہ شِیریں کے عاشق فرہادؔ(کوہ کن) ۔ کے مرنے کی داستان بیان کرتے ہُوئے ٗمِرزا اسد اُللہ خان غالبؔ نے کہا تھا…
’’تیشے بغیر مر نہ سکا ٗ کوہ کن اسدؔ
سر گشتۂ خُمارِ رسُوم وقیُودتھا‘‘
لیکن جناب اعتزاز احسن(بقول اپنے) رسُوم و قیُود کے بغیر ہی مر گئے۔ فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے آئینی ترمیم پر میاں رضا ربانی کا آبد ِیدہ ہونا اور جناب ِ اعتزاز احسن کا مرنا ٗ مجھے ماضی کی طرف لے گیا ٗ جب پاکستان کی ساری فوجی عدالتیں۔’’قائدِ عوام‘‘۔اور ۔’’فخر ِ ایشیا‘‘۔ سوِیلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جناب ذوالفقار علی بھٹو تھے اور اُن کے حکم سے ایک فوجی عدالت نے لائل پور(فیصل آباد) سے پاکستان پیپلز پارٹی کے منتخب رُکن قومی اسمبلی جناب مختار رانا کو مارشل لاء کے تحت 4 سال کی سزا دِلوا کر انہیں قومی اسمبلی کی رُکنیت سے بھی محروم کرادِیا تھا۔ اُس روز مَیں بھی بہت آبد ِیدہ ہُوا تھا اور اُس دِن بھی جب ۔’’قائدِ عوام‘‘۔ نے اپنے جانشین جناب معراج محمد خان کو بھی مارشل لاء کے تحت 4 سال سزا دِلوائی تھی۔میاں رضا ربانی صاحب !۔ مَیں نے اُن سزائوں کو ۔ ’’رضائے ربّانی ‘‘۔(ربّ دی مرضی) ۔سمجھ کر قبول کرلِیا تھا۔ آپ بھی کرلیں!۔ اور ہاں بیرسٹر اعتزاز احسن صاحب! آپ کیوں مریں؟۔ مریں آپ کے دُشمن!۔ ابھی تو آپ نے چیئرمین بلاول بھٹو کو بھی با اختیار چیئرمین کے رُوپ میں دیکھنا ہے؟۔اُس روز آپ کو پھر مِرزا غالبؔ کی زبان میں کہنا پڑے گاکہ …
’’مُجھے کیا بُرا تھا مرنا ٗ اگر ایک بار ہوتا!‘‘
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38