قومی اسمبلی اور سینٹ نے فوجی عدالتوں کے قیام کے بارے میں 21 ویں آئینی ترمیم منظور کر لی اس بارے میں حکومت پر عوام کی طرف سے بڑا دباﺅ تھا کہ دہشت گردی کے بے قابو جن کو ہر حال میں قابو کیا جائے جو بے دردی سے عوام کے جان و مال پر ہاتھ صاف کر رہا تھا۔ کسی بھی پاکستانی کی جان و مال عزت آبرو اور آل اولاد ان ظالموں کے دست برد سے محفوظ نہیں تھی تمام سیاسی، سماجی اور پر امن دینی طبقے اس بات پر زور دے رہے تھے کہ موجودہ عدالتی نظام چونکہ دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکام رہا ہے اس لئے فوری سماعت کی عدالتیں قائم کی جائیں یہ کاری سیاسی حکومتوں کی کمزوری ہے کہ وہ مذہبی سیاسی جماعتوں کے دباﺅ میں آکر فرقہ وارانہ یا سیاسی دہشت گردی میں ملوث افراد پر ہاتھ ڈالنے سے قاصر رہتی ہے اور اگر کبھی کسی بڑی واردات کے بعد کسی کو پکڑ لیا جاتا ہے تو پھر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے جہاں وہ آرام سے بیٹھ کر اپنا نیٹ ورک چلاتے رہتے ہیں۔ عالمی دباﺅ کے خوف سے کم ان مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے دباﺅ سے زیادہ خوفزدہ سیاسی جمہوری حکومتیں ان ظالم دہشت گردوں کو سزائے موت یا پھانسی دینے سے بھی قاصر ہتی ہیں۔
اندرون ملک ان دو عناصر کے ساتھ عرصہ دراز سے ہمیں سیاسی علیحدگی پسندوں کا طالبان اور القاعدہ کے بعد اب داعش کی شکل میں بھی ان دہشت گردوں کا سامنا ہے جو ہمارے اپنے ہی ہاتھوں کے پروردہ ہیں۔ افغانستان میں عالم اسلام کا طرہ اپنے سر سجانے کیلئے ایک آمرحکمران نے اسلام کے نام پر پاکستان عوام، عالمی برادری اور عالم اسلام کو آسانی سے بے وقوف بنایا اور عالمی سامراجی طاقتوں کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے روس کا تیا پانچہ کرنے کیلئے مل جل کر افغانستان کو میدان جنگ بنا لیا۔
بے شک اس وقت روس کو افغانستان سے دم دبا کر بھاگنا پڑا مگر اس سرخ ریچھ کے جانے کے بعد کیا ہوا۔سائبیریا کا ریچھ بھاگا تو افغانستان کے قبرستان میں مروے نوچنے کے لئے مغربی برف زاروں کے بھوکے بھیڑئیے افغانستان میں داخل ہو گئے اوریوں افغانستان مسلسل میدان جنگ بنا رہا اور طالبان نامی مسلح گروپ نے القاعدہ کے ساتھ مل کر اپنے سابقہ مربیوں امریکہ اس کے اتحادیوںاور اسکی حمایت پر پاکستان کا بھی ناطقہ بند کر دیا۔ اورہمیں افغانستان کی تباہی کا ذمہ دار قرار دینے لگے۔ان لوگوں کی سرپرستی ضیا دور سے لے کر آج تک جو مذہبی عناصر کر رہے ہیں وہ بھی افغانستان کے جہاد کے نام پر آج تک اربوں روپے کما رہے ہیں ضیا دور کے بعد جس طرح دھڑا دھڑ عالی شان مدارس اور مذہبی سربراہوں کی شان شوکت والی زندگی کو عروج ملا وہ سب کے سامنے ہے اور یہ سب انہیں ڈالروں کا کمال ہے جو امریکہ اور یورپ نے جہاد کے نام پر ان جماعتوں اور تنظیموں کو دھڑا دھڑ کرائے کے لئے سپاہی بھرتی کے لئے دیئے۔ اگر یہ سب عین اسلام تھا تو پھر کوئی ان اسلام کے پیروکاروں کو یہ بھی سمجھائے کہ افغانستان میں سب کچھ ہم سب کے باہمی تعاون سے مل کرتے تھے۔ اب آپ سب مل کر پر امن طریقے سے افغانستان کے قومی دھارے میں شامل ہو کر وہاں اقتدار سنبھالیں اگر وہاں کے عوام طالبان کو وہاں خوش آمدید کہتے ہیں تو سو بسم اللہ کس نے روکا ہے انہیں۔ زبردستی اسلحہ کے زور پر سوائے خون و کشت کے کچھ حاصل نہیں ہو رہابے گناہ مسلمان ہر جگہ مارے جا رہے ہیں۔اب طالبان اور افغانستان کے حکمرانوں کے درمیان بات چیت یا جنگ جو بھی ہو ان معاملات کو افغانوں نے مل جل کر خود ہی حل کرنا ہے۔ اپنی لڑائی دوسروں کے گھر تک لے جانا غلط اس سے نقصان صرف اور صرف مسلمانوں کا ہی ہوتا ہے اور بالخصوص یہاں پاکستان میں ان غیر ملکی دہشت گردوں کی دہشت گردی کا کیا جواز ہے جو ہمیشہ افغانیوں سمیت تمام جہادیوں کا دوست رہا میزبان رہا ہے اور آج بھی افغانستان کی وجہ سے عالمی طاقتوں کی آویزش کا شکار ہے۔ اب جو بھی سیاسی جماعت ہو یا تنظیم اگر ان دہشت گردوں کے ساتھ رابطے رکھتی ہے تو وہ پاکستان دشمن ہی کہلائے گی۔ کیونکہ یہ دہشت گرد براہ راست ملک و قوم کی آزادی و سلامتی کے درپے ہیں۔
جے یو آئی(ف) ہو یا (س) جماعت اسلامی ہو یا کوئی اورتنظیم انہیں دہشت گردوں کے خاتمے میں اختلاف رائے کا حق ہے مگر ان دہشت گردوں سے ہمدردی چہ معنی دارد یہ حکومت اور فوج کے علاوہ خفیہ اداروں اور آئی ایس آئی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان جماعتوں کو حقائق کے ساتھ تمام نا قابل تردید ثبوت جو ان کے پاس ہیں دہشت گردی کے حوالے سے دکھا کر کے انہیں حقائق کا آئینہ دکھائے اور ایسی تمام جماعتوں اور تنظیموں کا اصل چہرہ عوام کے سامنے بھی لائیں جو دہشت گردوں کی سرپرستی کرتی ہیں خواہ یہ سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہبی لسانی ہوں یا کوئی اور اب ان کا اصل چہرہ عوام کے سامنے آنا بہت ضروری ہے اور آخری بات یہ کہ جن جن دہشت گردوں کو سزائیں مل چکی ہیں ان پر فوری عملدرآمد کرنے میں مزید تاخیر نہ کی جائے ورنہ یہ آخری موقع ضائع نہ کریں اگر یہ نکل گیا تو پھر آئینی ترمیم رہے گی نہ آئین۔ کوئی قصاب ہاتھ میں بغدا لے کر سب کا حساب تمام کر تا نظر آئے گا تا کہ قوم کو دہشت گردی سے محفوظ رکھے اور عوام اس کے ساتھ نظر آئے گی اور کیا معلوم یہی حاملین حبہ و دستار اور بندہ گان مال و زر اس کے دست اقدس پر بیعت کر کے ایک بار پھر حکومت کے مزے لوٹ رہے ہوں گے۔ کسی نئے فقہی نکتے یا مصلحت کی آڑ میں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024