جمعرات ‘ 16 ؍ربیع الاوّل 1436ھ‘ 8 ؍ جنوری 2015ء
امید ہے عمران زندگی کے نئے موڑ پر خوش رہیں گے : جمائما!
عورت کوئی بھی ہو بہرحال عورت ہی ہوتی ہے۔ مشرق ہو یا مغرب، جنوب ہو یا شمال، جہاں کی بھی ہو اس کے اندر بہرحال عورت کا دل ہی دھڑکتا ہے۔ اب جمائما کو ہی دیکھ لیں کتنی اعلیٰ ظرفی سے انہوں نے اس شخص کے لئے دعا کی جس کے لئے اس نے اپنا مذہب چھوڑا، مشرقی عورت بنی، اس نے دو بچوں کے ہوتے ہوئے اسے طلاق دی۔ وجہ جو بھی ہو آج تک اس بارے میں دونوں طرف سے خاموشی کو نیم رضا مندی ہی کہا جا سکتا ہے، کسی نے بھی لب کشائی نہیں کی۔ یہ ایک اچھی روایت ہے۔
اب عمران نے سب سے چھپ کر دھرنے کے ایام میں جب ہزاروں لوگ اس کے اشارے پر جان پر کھیلنے کو تیار تھے انہیں سرد بھیگتی راتوں میں چھوڑ کر خود خاموشی سے نکاح کر لیا ہے تو تحریک انصاف والے اسے اپنے کپتان کا زبردست چھکا کہیں گے یا چوکا، اس کا جواب کوئی محمود الرشید یا چودھری اعجاز سے پوچھے جو تحقیق کر کے کپتان سے پوچھ کر حقیقت بتانے کی گولی کھلا کر عوام کو مطمئن کرتے رہے تھے۔ بہرحال جو ہونا تھا وہ ہو گیا البتہ جمائما کی طرف سے عمران کے لئے خوشی کی دعا بقول شاعر … ؎
تمام عمر تُجھے زندگی کا پیار ملے
خدا کرے یہ خوشی تُجھ کو بار بار ملے
والی کیفیت کی عکاسی کرتی ہے۔ جمائما خود بھی کب کا اپنا گھر دوبارہ بسا چکی ہیں۔ مگر اس کے بعد بھی وہ ماں ہونے کے ناطے عمران کے دونوں بیٹوں کو ابھی تک پال رہی ہیں اور کبھی بھی وہ باپ بیٹوں کے درمیان رکاوٹ یا دیوار نہیں بنیں۔ یہی عورت کا بڑا پن ہے جمائما میں موجود ہے۔ اب دیکھنا ہے عمران کی نئی دلہن کے بچے ان کے پاپا سنبھالتے ہیں یا وہ بھی اپنی ماں کے ساتھ عمران کے پاس رہنے کے لئے بنی گالہ ساتھ آتے ہیں۔ عائلہ ملک نے اپنے جلے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے ٹوئیٹر پر دل جلا تبصرہ کیاہے کہ عمران کو جہیز میں بلاول جیسا نمونہ بھی مل رہا ہے جو غلط بات ہے‘ ایسا نہیں کہتے۔
٭۔٭ ۔٭۔٭۔٭
نہاری، چنے، آلو کی بُھجیا، حلوہ پوری، سری پائے، جوس، آملیٹ اور پراٹھا۔ وزیراعظم نے ارکان پارلیمنٹ کو پُرتکلف ناشتہ دیا!
کسی کو بھی وزیراعظم کے خوش لباس، خوش خوراک اور دیالو ہونے پر کوئی شبہ نہیں، اس کے باوجود جب بھی موقع ملتا ہے میاں صاحب اپنی محبتیں دستر خوان پر نچھاور کرتے نظر آتے ہیں اور خوانِ نعمت سے ہر شخص لذتِ دہن پاتا ہے۔ اب صبح صبح ارکان پارلیمنٹ کو بُلایا گیا تو ان کی مہمانداری کرنابھی میاں صاحب کا حق بنتا ہے، جو آئے انہوں نے مزے سے صبحانہ یعنی ناشتہ کیا اور جو نہیں آئے وہ اب اسراف، فضول خرچی اور نجانے کون کون سی گرائمر اور لُغت کی اصطلاحیں ڈھوند ڈھونڈ کر میاں صاحب پر الزام تراشیاں کرتے پھریں گے حالانکہ ان میں سے اکثر وہ لوگ ہوں گے جو ناشتہ کے دستر خوان پر نہ سہی ویسے ہی حکومتی کھانے کی میز سے صبح شام منہ اور دامن بھرتے ہیں مگر باز پھر بھی نہیں آتے تنقید کرنے سے۔ اب پھر کون سے یہ اخراجات وزیراعظم صاحب کی جیب سے ادا ہوئے ہیں، خدا کے فضل سے پاکستان کا خزانہ بھرا ہوا ہے۔ یہ چھوٹے موٹے اخراجات وہاں سے باآسانی پورے ہو سکتے ہیں۔ یہ تمام ارکان پارلیمنٹ صوبائی ہوں یا قومی، ارکان سینٹ و حکومتی عہدیدار و بڑے بڑے سیاستدان صاحب اقتدار ہوں یا حزب اختلاف، سب سالانہ اربوں روپے کی مراعات اور تنخواہیں ہڑپ کر جاتے ہیں غریبوں کی دُہائی دے کر انکے حقوق کی بات کر کے انکے نام پر۔ یہ ہلکا پھلکا ناشتہ تو کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
ذکاء اشرف کے بیٹے کا ولیمہ 11 جنوری کو بلاول ہائوس لاہور میں ہو گا، صدر زرداری بھی شرکت کیلئے آج لاہور پہنچ رہے ہیں۔
اب اسے کوئی کچھ بھی کہے مگر حقیقت یہ ہے کہ واقعی زرداری صاحب قسمت کے دھنی ہیں۔ جہاں بھی جاتے ہیں دھن خود بخود دھنا دھن دھن کر کے ان پر برستا ہے۔ اب یہ خوش نصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ بحریہ ٹائون میں یہ شاندار بلاول ہائوس ملک ریاض کی طرف سے انہیں تحفے میں ملا اور اب لوگ اسے شادی کی تقریب کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ مروت اپنی جگہ دوستی اپنی جگہ حساب دوستاں ویسے بھی چلتا رہتا ہے۔ اب زرداری صاحب بھی اگر بلاول ہائوس کو شادی کی تقریبات پر رینٹ کے لئے دینا شروع کر دیں تو کروڑوں روپے سالانہ نہیں ماہانہ کما سکتے ہیں۔ شروعات ذکاء اشرف سے ہی کر کے دیکھ لیں۔ لوگ تو ایسی عجوبہ روزگار جگہوں پر اپنی شادی کی تقریب یاد گار بنانے کے لئے لاکھوں روپے ہنسی خوشی دینے کو تیار ہوں گے۔
ہمارے ہاں تو ایسے بھی دیالو اور سخی موجود ہیں جو کروڑوں بھی صرف نام بنانے کی خاطر دے سکتے ہیں۔ ایک لگا بندھا روزگار بیٹھے بٹھائے زرداری صاحب کو میسر ہو سکتا ہے جو ان کے اور ان کے بچوں کے لئے سیاست سے ہٹ کر بھی اچھی کمائی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ورنہ یہ وسیع و عریض محل نما گھر کونسا روز روز زرداری صاحب یا ان کے گھر والوں کے مسلسل زیر استعمال رہتا ہے۔ کبھی کبھی ہی ان میں سے کوئی اس مکان میں رہنے آتا ہے ورنہ یہ محل اپنے بنانے والوں کا منتظر ہی رہتا ہے۔ چلیں اس بہانے شادی کی تقریب ہو یا رسم حنا، یہاں خوش شکل، خوش رنگ دلکش لوگوں کی چہل پہل رہے گی اور ہجوم دوستاں کے قہقہے گونجا کریں گے تو گھر آباد آباد سا لگے گا ورنہ پرانے لوگ تو کہتے ہیں کہ خالی گھر میں بھوت بسیرا کر لیتے ہیں۔ اب بلاول ہائوس کو گھوسٹ ہائوس بننے سے بچانے کے لئے اس میں زندگی کے میلے سجنے چاہئیں۔ بلاول کے اپنے سر بھی تو سہرا سجنا ہے پھر آصفہ، بختاور کی رخصتی بھی ہونی ہے اب دیکھنا ہے ان کاموں کے لئے بلاول ہائوس کراچی سجتا ہے یا بلاول ہائوس لاہور؟ یہ بعد کی بات ہے۔