میڈیا اور خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کے کردار کے ایک نمایاں پہلو کا ایسا الٹا اور خلاف توقع اثر‘ غیر شعوری طور پر ناظرین کے ذہنوں پر پڑا ہے‘ جس کی طرف شاید ہی کسی کا خیال گیا ہو۔
مختلف ٹی وی چینلوں پر جو مزاحیہ پروگرام پیش کئے جاتے ہیں وہ عام طور پر سماجی سے زیادہ سیاسی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ ان پروگراموں کا عام انداز یہی ہے کہ سیاستدانوں کی بدکرداری‘ بددیانتی‘ بدعہدی‘ بدکلامی اور انتہا سے بڑھی ہوئی کرپشن کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور اس طرح بعض نہایت ہی سنگین اور دل خراش جرائم کو ہنسی مذاق میں اڑا دیا جاتا ہے۔ پروگرام پیش کرنیوالے بھی ہنسی مذاق سے لوٹ پوٹ ہو رہے ہوتے ہیں اور دیکھنے والے بھی قہقہے لگاتے ہیں جیسے انہیں کوئی گدگدی کر رہا ہو۔ اس طرز عمل کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جن سنگین قومی جرائم پر ہمیں غصہ آنا چاہئے بلکہ ہمارا خون کھول اٹھنا چاہئے ان پر ہم ہنس پڑتے ہیں اور ہنسنے کا یہ عمل ہمارے اجتماعی ذہن پر یہی اثر ڈال رہا ہے۔ ہم بے حس و حرکت چپ چاپ راضی برضا ہو کر اپنے اندرونی قومی دشمنوں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں‘ قتل ہو رہے ہیں ہمارے سارے ادارے تباہ ہو رہے ہیں اور ہم ہیں کہ ان دل خراش حادثات اور سانحات کو مزاحیہ واقعات سمجھ کے ہنسی مذاق کا کھیل بنائے ہوئے ہیں۔میں ایک مثال سے اپنی بات واضح کرتا ہوں۔ پچھلی حکومت کے آنے سے پہلے ریلوے کا انتظام ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔ لوگوں کو سستے اور آرام دہ سفر کی سہولت میسر تھی۔ ساری ٹرینیں وقت پر آجا رہی تھیں مگر گیلانی حکومت کے ظالمانہ اور عوام دشمن دور میں ریلوے کا جو حال ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اب اس صورتحال پر ماتم کرنے یا پرزور احتجاج کرنے کے بجائے ہم نے اس قومی نقصان کو بھی ہنسی مذاق کا ایک کھیل بنائے رکھا ہے۔ ایک ٹی وی چینل پر وفاقی وزیر ریلوے کو یہ اعلان کرتے ہوئے دکھایا گیا کہ اس کی وزارت نے عید کے موقعہ پر عوام کی سہولت کیلئے ٹرینوں کے خصوصی انتظامات کئے ہیں اور کراچی میں پشاور تک سپیشل ٹیرنیں چلانے کا پروگرام بنایا ہے۔ پھر اسکے بعد یہ منظر دکھایا گیا کہ ان سپیشل ٹرینوں کے مسافر ریلوے اسٹیشن پر پر ایک ہجوم کی صورت میں موجود ہیں اور نہایت بے تابی سے ٹرین کا انتظار کر رہے ہیں مگر حد نگاہ تک کوئی ٹرین نظر نہیں آرہی۔ اتنی دیر میں وفاقی وزیر ریلوے بنفس نفیس سامنے آکر لوگوں کو تسلی دیتا ہے کہ فکر نہ کرو ہم نے تمہارے لئے بڑا سپیشل انتظام کر رکھا ہے میرے پیچھے پیچھے آ¶۔ پھر وہ مسافروں کو اپنے پیچھے لگا کر ایک طرف چل پڑتا ہے۔ یکایک ایک دوسرا منظر سامنے آتا ہے۔ ناظرین دیکھتے ہیں کہ بہت سی گدھا گاڑیاں ریلوے کے ڈبوں کی طرح ایک قطار میں کھڑی ہیں۔ سب سے اگلی گدھا گاڑی میں وزیر خود سوار ہو جاتا ہے اور مسافر اس کے پیچھے والی گدھا گاڑیوں میں سوار ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ سپیشل ٹرین ہے جس کا خصوصی اہتمام ہماری حکومت نے عید کے موقعہ پر کیا۔ آپ دیکھیں کہ اس انتہائی بدانتظامی‘ نالائقی اور پرلے درجے کی عوام دشمنی پر عوام کا غیض و غضب میں آنا ایک فطری عمل ہے۔ مگر ایسے ٹی وی پروگراموں کے ذریعے اس غیض و غضب کو ہنسی مذاق میں اڑا کر فرو کر دیا جاتا ہے۔ اقبال نے کہا تھا:
غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاج سر دارا
مگر یہاں تو درویش کو غیرت دلانے کی بجائے اسکے پیٹ میں گدگدیاں کی جا رہی ہیں تاکہ وہ زمین پر لیٹا رہے اور اس میں اٹھنے کی سکت ہی پیدا نہ ہو۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024