مشاورت زیادہ ڈکٹیشن کم کی جائے ۔۔ امریکہ کو آمرانہ پالیسیاں ختم کرنا ہوں گی : ہلیری کلنٹن
واشنگٹن ( اے ایف پی +آن لائن + جی این آئی) امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا ہے کہ بیروزگاری انتہا پسندی کی وجہ ہے۔ امریکہ کو ماضی کی آمرانہ پالیسیاں ختم کرنا ہونگی۔ امریکہ مشاورت زیادہ اور ڈکٹیشن کم کرے۔ یہاں پیٹرسن انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ماضی میں امریکہ نے کئی ملکوں میں حقیقی حالات جانے بغیر اپنے فیصلے دوسروں پر لاگو کئے۔ بیروزگاری کے خاتمے انتہا پسند نظریات کو شکست دئیے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ ادھر جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ کی مسلح افواج کے سربراہ ایڈمرل مائیک مولن نے کہا کہ کرسمس کے موقع پر امریکی مسافر طیارے کو تباہ کرنے کی کوشش سے اہم سبق سیکھا ہے اور ہم خفیہ اداروں کے کام میں موجود خامیوں کو دور کرنے کیلئے فوری اقدامات کر رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکی انٹیلی جنس آفیسر نے اعتراف کیا ہے کہ دنیا کی طاقت ور فوجیں اپنے سے معمولی اور کمزور دشمن سے شکست کھا گئیں۔ امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ مائیکل فلن نے ملٹری انٹیلی جنس نظام کے ازسرنو جائزہ لینے کا حکم دیتے ہوئے اسے نئے خطوط پر استوار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہلیری کلنٹن نے پاکستان اور افغانستان کا نام لئے بغیر کہا کہ ترقیاتی کاموں کے لئے دی گئی امداد سے امریکی مفادات کو فروغ اور عالمی مسائل کے حل میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے ماضی میں بعض اوقات دور سے مسائل کا حل مسلط کیا اور زمینی حقائق نظرانداز کئے۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکہ کو ایسے اتحادیوں کی ضرورت ہے جو اچھے طرز حکمرانی‘ غربت کے خاتمے اور اپنی بہبود کے لئے اپنے ذرائع پیدا کرنے کا عزم رکھتے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ جب نسل انسانی کا ایک تہائی حصہ اس حال میں گزر بسر کر رہا ہو کہ اس کے پاس اپنے اور اپنے بچوں کی زندگی بہتر بنانے کے مواقع قلیل ہوں تو اس وقت تک ایک محفوظ اور جمہوری دنیا کے قیام کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ مایوسی‘ بیروزگاری اور ترقی کے مواقع نہ ملنا انتہا پسندی کی وجہ ہیں جبکہ دنیا سے غربت کے خاتمے تک جمہوریت کا فروغ ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں مسائل کی اصل وجہ جانے بغیر ان کے حل کی کوششیں کی گئیں۔ امریکہ کو ایسے اتحادیوں کی ضرورت ہے جو گڈ گورننس کے قیام اور کرپشن کے خاتمے کے لئے سنجیدہ اقدامات کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام اور خصوصاً خواتین کا معیار زندگی بہتر بنائے بغیر دہشت گردی کو نہیں روکا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے وقت میں جب دنیا میں کروڑوں لوگ بیروزگار ہوں تو دہشت گردی اور انتہا پسندی کو روکا نہیں جا سکتا اس لئے بین الاقوامی امن کے لئے سفارتکاری‘ جارحانہ کارروائیوں کے ساتھ امریکہ کی جانب سے ترقیاتی امداد بھی اہم ہے۔ آن لائن کے مطابق انہوں نے کہا نئے دہشت گردوں کو پیدا ہونے سے روکنے کےلئے دنیا سے بے روزگاری کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ترقیاتی کاموں کےلئے دی جانے والی امداد سے دہشت گردی کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ بیروزگاری اور ترقی کے مواقع نہ ملنے سے لوگوں میں مایوسی پھیلتی ہے اور اس سے انتہاءپسندی جنم لیتی ہے۔ ہلیری کلنٹن کا کہنا تھا کہ دنیا کی ایک تہائی آبادی ایسے حالات میں رہتی ہے جہاں لوگوں کو اپنے اور بچوں کے مستقبل کو بہتر بنانے کےلئے کوئی امید نظر نہیں آتی ایسے حالات میں جمہوریت کا فروغ ممکن نہیں امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکہ کی سلامتی کا انحصار عالمی امداد کے حوالے سے امریکہ کی نئی اپروچ پر ہے اور امریکہ کو ماضی کی آمرانہ پالیسیوں کو ختم کرنا ہوگا جس طرح اس نے امداد کے تحت اربوں ڈالرز خرچ کرڈالے۔ ہماری نئی اپروچ میں ترقی پذیر ممالک میں عوام کے ساتھ مل کر کام کرنا شامل ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ دنیا کومحفوظ بنانے کےلئے امریکہ کی مجموعی حکمت عملی میں بہتر ہدف بناکر امداد فراہم کرنا مرکزی جزو ہے۔ ایڈمرل مائیک مولن نے امریکی مسافر طیارے کو تباہ کرنے کی کوشش پرشدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسی ہی کارروائیوں سے دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر بارک اوباما نے اسی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے ائر لائن سکیورٹی کو بہتر بنانے کے فوری اقدامات کے حوالہ سے بے صبری کا مظاہرہ کیا ہے۔ مائیک مولن نے کہا کہ امریکہ آئندہ دو برسوں تک صدر اوباما کی طرف سے اعلان کردہ پاک افغان حکمت عملی پر عملدرآمد پرفوکس رکھے گا۔ انہوں نے کہا پاکستان اور یمن جیسے ممالک خودمختار ملک ہیں امریکہ ان کی سالمیت کا احترام کرتا ہے ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے امریکہ یمن حکومت کی مدد جاری رکھے گا ان کی تقریر کا زیادہ فوکس پاکستان اور افغانستان رہے انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کا فوکس صرف افغانستان تک محدود نہیں رہ سکتا بلکہ اس میں پاکستان کوبھی شامل کیا جانا ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے گزشتہ دو برسوں میں پاکستان کے چودہ دورے کئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ دوسرے لوگوں کی نظر سے درپیش چیلنجز کو دیکھنا چاہتا ہے۔ ایڈمرل مولن کا کہنا تھا کہ امریکہ اب پاکستان افغان حکمت عملی پر عملدرآمد کے مرحلے سے گزر رہا ہے دنیا کے 42 ممالک نے اس حکمت عملی کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 9/11 حملوں کے بعد امریکہ نے پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں کو روکنے کے لئے ناقابل یقین تعداد میں کارروائیاں کی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ترجمان وائٹ ہاﺅس نے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان اور یمن جیسے ممالک میں براہ راست فوجی مداخلت نہیں کرے گا۔ جہاں القاعدہ اپنے ٹھکانے قائم کرتی نظر آ رہی ہے تاہم وائٹ ہاﺅس کا کہنا ہے کہ امریکہ القاعدہ کے خفیہ ٹھکانوں کے خلاف قابل عمل انٹیلی جنس کا استعمال جاری رکھے گا‘ وائٹ ہاﺅس کا اشارہ ڈرون حملوں کی طرف تھا۔ وال سٹریٹ جرنل کے مطابق افغانستان میں کمانڈروں کو وہ ٹھوس معلومات حاصل نہیں ہو پا رہیں جن کی بنیاد پر کوئی جنگ جیتی جا سکتی ہے۔