جسٹس (ر) راجہ افراسیاب................
ایک ٹیلی ویژن چینل’’ریاست جموں و کشمیر کو بار بار بھارت کا حصہ دکھا رہا تھا۔ مجھے شک گزرا کہ شاید یہ بھارتی ’’چینل‘‘ ہے۔ جلد ہی مجھے اس بات کا علم ہوگیا کہ’’یہ ٹی وی‘‘ بھارتی نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کا ٹیلی ویژن چینل ہے۔’’مالکان‘‘ ٹیلی ویژن کو اس بات کا شاید علم نہیں کہ ریاست جموں و کشمیر بھارت کا ہر گز حصہ نہ ہے یہ متنازعہ علاقہ ہے۔ مسئلہ کشمیر پر ہی بھارت اور پاکستان کے درمیان اب تک تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ آئندہ بھی بدستور بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک خوفناک جنگ کے خطرات ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ جب تک مسئلہ کشمیر کا فیصلہ کشمیریوں کی مرضی کیمطابق نہیں ہو جاتا۔ اس وقت تک یقینی طور پر اس خطے میں امن کے قیام کی کوئی بھی امید نہیں رکھی جا سکتی۔
بھارت دراصل دنیا کی ایک سپر پاور بننے کے خواب دیکھ رہا ہے اس خطے کے تمام چھوٹے چھوٹے ملکوں کو بھارت اپنا ایک طفیلی خطہ تصور کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ بھارت نے آج تک پاکستان کو دل سے تسلیم نہ کیا ہے۔ وہ ہمیشہ سے مناسب وقت کی تاک میں بیٹھا رہتا ہے۔ اس خطے کے ملکوں کو خاص طور پر پاکستان کو وہ ہمیشہ سے میلی آنکھ سے دیکھتا چلا آ رہا ہے وہ خود پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا رہتا ہے۔ اسی مقصد کیلئے بھارت نے افغانستان سے گٹھ جوڑ بنا رکھی ہے۔ یہ دونوں ملک روز اول سے ہی پاکستان کیخلاف گہری سازشوں کا تانا بانا تیار کرتے رہتے ہیں۔ آجکل تو امریکہ بھی کھل کر پاکستان کے خلاف مکروہ اور انتہائی خطرناک سازشوں میں مصروف ہے اس تمام دشمنی کا پس منظر دراصل پاکستان کا دنیا میں ایک ایٹمی طاقت کی حیثیت سے ابھرنا ہے۔ امریکہ ہر گز یہ نہیں چاہتا کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت کا حامل ملک دنیا کے نقشے پر ظاہر ہو۔
دراصل امریکہ بھارت کی پشت پناہی کرکے اسے چین کے مقابلے کی طاقت بنانا چاہتا ہے۔ چین کی معاشی، اقتصادی اور دفاعی میدانوں میں حیرت انگیز ترقی سے امریکہ بوکھلا اٹھا ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ کھل کر بھارت کے ساتھ ہر میدان میں تعاون کر رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں امریکہ کے نزدیک پاکستان کی قطعی طور پر کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بلکہ وہ تو پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں ایک طفیلی ملک سے زیادہ کا درجہ دینے کیلئے ہر گز تیار نہیں ہے۔ ہمیں ہر وقت امریکہ کے خوفناک ہتھکنڈوں سے ہوشیار رہنا ہوگا۔ امریکہ کی معاشی امداد بھی ہمارے لئے غلامی کا طوق ہے اسی بہانے امریکہ پاکستان کے اندر آنے جانے کا زیادہ سے زیادہ سلسلہ جاری رکھے گا ‘امریکہ دوستی کی شکل میں ہمارا بدترین دشمن ہے۔ امریکہ کو جب بھی موقع ملا وہ پاکستان کی خودمختاری اور حاکمیت اعلیٰ کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچائے گا۔ ہم میں اتنی ہر گز قوت نہیں ہے کہ ہم امریکہ کو پاکستان سے نکل جانے کا حکم دے سکیں۔ ہمیں انتہائی دانشمندی اور ہوشیاری سے موجودہ حالات اور واقعات کا مقابلہ کرنا ہے۔ ہر طبقہ فکر کے لوگ پاکستان کے کونے کونے سے یہ آواز اٹھا رہے ہیں کہ امریکہ ہمارے ایٹمی اثاثوں کو اپنے قبضے میں حفاظت کے نام پر لینا چاہتا ہے۔ قوم کی یہ سوچ100 فیصد درست ہے۔ مجھے یہ خبر اخبار میں پڑھ کر سخت تشویش ہوئی کہ بلیک واٹر کمپنی کے لوگ سہالہ پولیس ٹریننگ سکول میں پہنچ چکے ہیں ہمارا ایٹمی مرکز کہوٹہ بالکل سہالہ کے نزدیک ہی واقع ہے۔ آپ وہاں سے آدھے گھنٹے کے اندر اندر کہوٹہ پہنچ سکتے ہیں۔ قوم کو یہ بھی بتایا جائے کہ ’’بلیک واٹر کمپنی‘‘ کس طرح پولیس سنٹر تک پہنچ گئی ہے اس کمپنی کو اجازت کس نے دی کہ وہ پولیس سنٹر تک رسائی حاصل کر سکے۔ مجھے تو اس میں بھی سازش نظر آتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو ان حالات کا بہادری سے مقابلہ کرنا چاہیے۔ بلیک واٹر کمپنی کو پولیس سنٹر سے فوراً واپس بلا لینا ہی ہوگا۔
بدقسمتی سے اس وقت پاکستان ہر طرف سے گہری سازشوں میں گھر چکا ہے۔ ہماری سلامتی کو ہر طرف سے خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ ہمیں تاریخ سے ضرور سبق سیکھنا ہوگا۔’’ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ بھی ایسے ہی حالات میں ہندوستان کے ساحلوں تک پہنچی تھی۔ وہ تجارت کی خاطر ہندوستان میں داخل ہوئے تھے۔ زمانے نے یہ دیکھا کہ کس طرح تجارت کے بہانے آنیوالے انگریزوں نے سارے ہندوستان پر قبضہ جمایا تھا۔آج پھر تاریخ اپنے آپکو دہرا رہی ہے۔ انگریز اور امریکہ کے لوگ ایک ہی قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔’’بلیک واٹر‘‘ دراصل ایسٹ انڈیا کمپنی کا دوسرا نام ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے انگریز آئے تھے اب انکی نسل رنگ کے لوگ امریکہ سے پاکستان میں اپنے ناپاک عزائم کیساتھ آ رہے ہیں۔ امریکہ نے عراق، افغانستان پر قبضہ جما رکھا ہے‘ اب وہ پاکستان پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے ہمارے پاس اب قطعی طور پر غفلت کی نیند سونے کا وقت نہیں ہے۔ پوری طرح جاگنے اور خبردار رہنے کا وقت آ چکا ہے۔ فوری طور پر ہمارے حکمران قوم کو آنیوالے انتہائی تباہ کن خطرات سے آگاہ کریں اور ان خطرات سے پوری طرح نپٹنے کا بندوبست کریں۔
حکمران امریکہ کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے عظیم اور آزمودہ دوست ہمسایہ چین کی طرف رخ کریں‘ روس سے بھی اپنے تعلقات استوار کرنے کی بھرپور کوشش کریں‘ روس کو بھی اس بات کا احساس دلانا ہوگا کہ اگر امریکہ مستقل طور پر پاکستان میں قیام کرتا ہے تو اسکی پاکستان میں موجودگی بذات خود روس کیلئے ایک عظیم خطرہ ہوگا پاکستان، چین اور روس ہمسایہ ممالک ہیں انہوں نے ہمیشہ اکٹھے ہی اسی خطے میں رہنا ہے جبکہ امریکہ سات سمندر پار سے اس خطے میں وارد ہوا ہے جو اس خطے کے تمام ممالک کی آزادی کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے بھارت کو بھی اس خطرے سے آگاہ رہنا ہوگا‘ اگر امریکہ آج بھارت کا دوست ہے تو وہ کل بھارت کا سب سے بڑا دشمن بھی بن جائیگا۔ امریکہ کے ہاں’’دوست دشمن‘‘ ایک ہی قطار میں گنے جاتے ہیں بھارت پر لازم ہوگیا ہے وہ حق و انصاف کی بنیاد پر جلدازجلد مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے پاکستان سے بامقصد بات چیت کا آغاز کرے۔ مسئلہ کشمیر کے حل ہونے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان اچھے دوستانہ تعلقات کا قیام دونوں ملکوں کے بہتر مفاد میں ہے۔
ایک ٹیلی ویژن چینل’’ریاست جموں و کشمیر کو بار بار بھارت کا حصہ دکھا رہا تھا۔ مجھے شک گزرا کہ شاید یہ بھارتی ’’چینل‘‘ ہے۔ جلد ہی مجھے اس بات کا علم ہوگیا کہ’’یہ ٹی وی‘‘ بھارتی نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کا ٹیلی ویژن چینل ہے۔’’مالکان‘‘ ٹیلی ویژن کو اس بات کا شاید علم نہیں کہ ریاست جموں و کشمیر بھارت کا ہر گز حصہ نہ ہے یہ متنازعہ علاقہ ہے۔ مسئلہ کشمیر پر ہی بھارت اور پاکستان کے درمیان اب تک تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ آئندہ بھی بدستور بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک خوفناک جنگ کے خطرات ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ جب تک مسئلہ کشمیر کا فیصلہ کشمیریوں کی مرضی کیمطابق نہیں ہو جاتا۔ اس وقت تک یقینی طور پر اس خطے میں امن کے قیام کی کوئی بھی امید نہیں رکھی جا سکتی۔
بھارت دراصل دنیا کی ایک سپر پاور بننے کے خواب دیکھ رہا ہے اس خطے کے تمام چھوٹے چھوٹے ملکوں کو بھارت اپنا ایک طفیلی خطہ تصور کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ بھارت نے آج تک پاکستان کو دل سے تسلیم نہ کیا ہے۔ وہ ہمیشہ سے مناسب وقت کی تاک میں بیٹھا رہتا ہے۔ اس خطے کے ملکوں کو خاص طور پر پاکستان کو وہ ہمیشہ سے میلی آنکھ سے دیکھتا چلا آ رہا ہے وہ خود پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا رہتا ہے۔ اسی مقصد کیلئے بھارت نے افغانستان سے گٹھ جوڑ بنا رکھی ہے۔ یہ دونوں ملک روز اول سے ہی پاکستان کیخلاف گہری سازشوں کا تانا بانا تیار کرتے رہتے ہیں۔ آجکل تو امریکہ بھی کھل کر پاکستان کے خلاف مکروہ اور انتہائی خطرناک سازشوں میں مصروف ہے اس تمام دشمنی کا پس منظر دراصل پاکستان کا دنیا میں ایک ایٹمی طاقت کی حیثیت سے ابھرنا ہے۔ امریکہ ہر گز یہ نہیں چاہتا کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت کا حامل ملک دنیا کے نقشے پر ظاہر ہو۔
دراصل امریکہ بھارت کی پشت پناہی کرکے اسے چین کے مقابلے کی طاقت بنانا چاہتا ہے۔ چین کی معاشی، اقتصادی اور دفاعی میدانوں میں حیرت انگیز ترقی سے امریکہ بوکھلا اٹھا ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ کھل کر بھارت کے ساتھ ہر میدان میں تعاون کر رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں امریکہ کے نزدیک پاکستان کی قطعی طور پر کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بلکہ وہ تو پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں ایک طفیلی ملک سے زیادہ کا درجہ دینے کیلئے ہر گز تیار نہیں ہے۔ ہمیں ہر وقت امریکہ کے خوفناک ہتھکنڈوں سے ہوشیار رہنا ہوگا۔ امریکہ کی معاشی امداد بھی ہمارے لئے غلامی کا طوق ہے اسی بہانے امریکہ پاکستان کے اندر آنے جانے کا زیادہ سے زیادہ سلسلہ جاری رکھے گا ‘امریکہ دوستی کی شکل میں ہمارا بدترین دشمن ہے۔ امریکہ کو جب بھی موقع ملا وہ پاکستان کی خودمختاری اور حاکمیت اعلیٰ کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچائے گا۔ ہم میں اتنی ہر گز قوت نہیں ہے کہ ہم امریکہ کو پاکستان سے نکل جانے کا حکم دے سکیں۔ ہمیں انتہائی دانشمندی اور ہوشیاری سے موجودہ حالات اور واقعات کا مقابلہ کرنا ہے۔ ہر طبقہ فکر کے لوگ پاکستان کے کونے کونے سے یہ آواز اٹھا رہے ہیں کہ امریکہ ہمارے ایٹمی اثاثوں کو اپنے قبضے میں حفاظت کے نام پر لینا چاہتا ہے۔ قوم کی یہ سوچ100 فیصد درست ہے۔ مجھے یہ خبر اخبار میں پڑھ کر سخت تشویش ہوئی کہ بلیک واٹر کمپنی کے لوگ سہالہ پولیس ٹریننگ سکول میں پہنچ چکے ہیں ہمارا ایٹمی مرکز کہوٹہ بالکل سہالہ کے نزدیک ہی واقع ہے۔ آپ وہاں سے آدھے گھنٹے کے اندر اندر کہوٹہ پہنچ سکتے ہیں۔ قوم کو یہ بھی بتایا جائے کہ ’’بلیک واٹر کمپنی‘‘ کس طرح پولیس سنٹر تک پہنچ گئی ہے اس کمپنی کو اجازت کس نے دی کہ وہ پولیس سنٹر تک رسائی حاصل کر سکے۔ مجھے تو اس میں بھی سازش نظر آتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو ان حالات کا بہادری سے مقابلہ کرنا چاہیے۔ بلیک واٹر کمپنی کو پولیس سنٹر سے فوراً واپس بلا لینا ہی ہوگا۔
بدقسمتی سے اس وقت پاکستان ہر طرف سے گہری سازشوں میں گھر چکا ہے۔ ہماری سلامتی کو ہر طرف سے خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ ہمیں تاریخ سے ضرور سبق سیکھنا ہوگا۔’’ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ بھی ایسے ہی حالات میں ہندوستان کے ساحلوں تک پہنچی تھی۔ وہ تجارت کی خاطر ہندوستان میں داخل ہوئے تھے۔ زمانے نے یہ دیکھا کہ کس طرح تجارت کے بہانے آنیوالے انگریزوں نے سارے ہندوستان پر قبضہ جمایا تھا۔آج پھر تاریخ اپنے آپکو دہرا رہی ہے۔ انگریز اور امریکہ کے لوگ ایک ہی قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔’’بلیک واٹر‘‘ دراصل ایسٹ انڈیا کمپنی کا دوسرا نام ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے انگریز آئے تھے اب انکی نسل رنگ کے لوگ امریکہ سے پاکستان میں اپنے ناپاک عزائم کیساتھ آ رہے ہیں۔ امریکہ نے عراق، افغانستان پر قبضہ جما رکھا ہے‘ اب وہ پاکستان پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے ہمارے پاس اب قطعی طور پر غفلت کی نیند سونے کا وقت نہیں ہے۔ پوری طرح جاگنے اور خبردار رہنے کا وقت آ چکا ہے۔ فوری طور پر ہمارے حکمران قوم کو آنیوالے انتہائی تباہ کن خطرات سے آگاہ کریں اور ان خطرات سے پوری طرح نپٹنے کا بندوبست کریں۔
حکمران امریکہ کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے عظیم اور آزمودہ دوست ہمسایہ چین کی طرف رخ کریں‘ روس سے بھی اپنے تعلقات استوار کرنے کی بھرپور کوشش کریں‘ روس کو بھی اس بات کا احساس دلانا ہوگا کہ اگر امریکہ مستقل طور پر پاکستان میں قیام کرتا ہے تو اسکی پاکستان میں موجودگی بذات خود روس کیلئے ایک عظیم خطرہ ہوگا پاکستان، چین اور روس ہمسایہ ممالک ہیں انہوں نے ہمیشہ اکٹھے ہی اسی خطے میں رہنا ہے جبکہ امریکہ سات سمندر پار سے اس خطے میں وارد ہوا ہے جو اس خطے کے تمام ممالک کی آزادی کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے بھارت کو بھی اس خطرے سے آگاہ رہنا ہوگا‘ اگر امریکہ آج بھارت کا دوست ہے تو وہ کل بھارت کا سب سے بڑا دشمن بھی بن جائیگا۔ امریکہ کے ہاں’’دوست دشمن‘‘ ایک ہی قطار میں گنے جاتے ہیں بھارت پر لازم ہوگیا ہے وہ حق و انصاف کی بنیاد پر جلدازجلد مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے پاکستان سے بامقصد بات چیت کا آغاز کرے۔ مسئلہ کشمیر کے حل ہونے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان اچھے دوستانہ تعلقات کا قیام دونوں ملکوں کے بہتر مفاد میں ہے۔