سردار نامہ۔۔۔۔وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogzai@gmail.com
سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی
قانون بنانا ایک بہت ہی سنجیدہ مسئلہ ہے،اس لیے قانون سازی ہمیشہ ہی ایک نہایت ہی وقت طلب کام رہا ہے،یہ کوئی ایسا آسان کام نہیں ہے یہ ایک ایسا عمل ہے جو کہ جمہو ر یعنی کہ عوام کے مقدر کا فیصلہ کر سکتا ہے کسی بھی قانون کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں زندگیاں متاثر ہو سکتی ہیں۔کسی بھی مجوزہ قانون کو جتنی بھی دیر زیر بحث رکھا جائے اتنا ہی قانون فائدہ مند ہو تا ہے اور اتنا ہی اس قانون کے بارے میں عوامی رائے موافق آجاتی ہے۔اس لیے جیسا کہ پہلے کہا کہ قانون سازی ایک وقت لینے والا کام ہے،جہاں تک پیکا قانون کا سوا ل ہے تو یہ ایک نہایت اہم معاملہ ہے،اس قانون سازی کو اسمبلی اور سینیٹ میں زیر بحث لایا جانا چاہیے تھا اور کم سے کم 2سال تک اس قانون پر بحث ہونی چاہیے تھی،اس کے ساتھ ساتھ تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو بھی اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا،تمام میڈیا تنظیموں کو بھی اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا،اسی طرح اس حوالے سے سول سوسائٹی سے بھی مشاورت کی جانی چاہیے پھر جا کے اس قانون کو پاس کر نا چاہیے تھا اس کے بغیر معاملات چلنے والے نہیں تھے۔یک طرفہ منظوری سے یقینا ایک بے چینی کی لہر پیدا ہو ئی ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ایسے معاملات میں افہام و تفہیم اور فہم و فراست سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہو تی ہے۔کوئی بھی قانون اگر عجلت میں بنا دیا جا ئے تو اس میں بہت سی قباحتیں پائی جاتی ہیں،اور مسائل ہو تے ہیں جن کو کہ ٹھیک کرنا ضروری ہو جاتا ہے،مقننہ کا کام ہی یہ ہو تا ہے کہ کسی بھی معاملے پر تفصیلی غور و خوص کے بعد اس پر عمل کیا جائے یا پھر اس پر قانون سازی کی جائے۔اس بات کی عملی مثال اس طرح سے دی جاسکتی ہے کہ جس طرح سے اون کے سوئٹر کو جتنا بیٹا جاتا ہے اتنا ہی اس کا رنگ چمکدار اور پائیدار نکلتا ہے۔جمہوریت کی طرح قانون سازی کا محور بھی عوام ہی ہوتی ہے کیونکہ قوانین کا اطلاق بھی بالا آخر عوام پر ہی ہونا ہو تا ہے۔اور اگر حساس قسم کی قانون سازی یا پھر آئین سازی کی جانی ہو تو پھر اس صورت میں اتفاق رائے کا ہونا بھی بہت ہی ضروری ہو تا ہے کیونکہ اس کے بغیر معاملات متنازع ہو جاتے ہیں۔ہمارے ہاں بھی یہی کچھ ہو تا رہا ہے یک طرفہ قانون سازی کے باعث معاملات متنازع ہو جاتے ہیں،اپوزیشن اس قانون سازی کے خلاف مہم چلانا شروع کر دیتی ہے اور معاملات مزید خراب ہو جاتے ہیں۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں اتنا عرصہ گر جانے کے بعد بھی قانون سازی کے معیار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے بلکہ کہنا چاہیے کہ معیار میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے،یہ ایک افسوس ناک صورتحال ہے۔ہماری پارلیمانی سیاست اور پارٹیاں پارلیمانی جمہوریت کے نظام کے تحت قائم کی گئی ہیں اور کام کرتی ہیں لیکن قانون سازی کا جو طریقہ کار ہم اختیار کرتے ہیں،یہ اس نظام سے مطابقت نہیں رکھتا یہ ہماری اپنی ہی تخلیق ہے۔قانون سازی کا اصول ہو تا ہے کہ کسی بھی قانون کی تین ریڈنگز کی جاتی ہیں اور اس کے بعد آگے بڑھا جاتا ہے،لیکن ہمارے ہاں تینوں ریڈنگز ایک ساتھ کرکے ہی قانون کو منظور کر لیا جاتا ہے۔لہذا پیکا ایکٹ کا قانون کتنا ہی ضروری کیوں نہ ہو،عوامی آرا سے ما ورا تخلیق کیا گیا ہے،اس لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ اس قانون کو واپس پھر سے زیر بحث لایا جائے۔اور عوام کی رائے بھی لی جائے اور عوام کی رائے کے مطابق قانون سازی میں تبدیلیاں کیں جائیں۔ہمارے ہاں یہ مسئلہ قانون سازی تک محدود نہیں ہے کیونکہ آئین سازی بھی اسی انداز میں کی جاتی رہی ہے اور مسائل سے دوچار کیا جاتا رہا ہے اور ہم مسائل کی دلدل میں گھرتے چلے جاتے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ نظام کو گھر کی لونڈی سمجھا جاتا ہے اور عوام کی رائے کو بالکل بھی بھاو نہیں دیا جاتا ہے۔جمہوریت اور آئین سازی اور قانون سازی کی بنیاد جمہوریت ہو تی ہے،اور عوام ہو تے ہیں بہر حال ہمارے ہاں جتنی بھی آئینی ترامیم کی گئیں ہیں ان ترامیم میں 8ویں ترمیم ایک ایسی ترمیم تھی جس میں کہ یہ تمام پروسیجر بڑ ی حد تک فالو کیا گیا تھا لیکن پروسیجر پر عمل کرنے کے بعد بھی ترمیم کے حوالے سے تشنگی رہ گئی تھی۔لیکن یہ بات ایک حقیقت ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ قانون سازی کے عمل پر اثر انداز ہو ا جائے،اور کبھی امریکی طرز پر قانون سازی کی کوشش کی جاتی ہے اور کبھی ہاوس آف کامنز طرز پر فالو کیا جاتا ہے۔اور ہم اسی چکر میں نہ ادھر کے رہے اور نہ ادھر کے ہمارا سارا نظام ہی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے آرڈیننس کے ذریعے کام چلایا جاتا ہے جو کہ مزید خرابیوں کا باعث بنتا ہے۔قانون سازی صرف اور صرف پارلیمان کا حق ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ حق پارلیمان کے ذریعے عوام کے نمائندوں کے پاس ہی رہنے دیا جائے۔پارلیمان کے اس حق کے استعمال کے لیے دیگر عناصر کے ساتھ ساتھ صبر کا ہونا بھی بہت ضروری ہے اور عجلت میں کی گئی قانون سازی کسی بھی صورت میں پائیدار ثابت نہیں ہو تی ہے۔یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔اس کام میں حکومت وقت کا بھی اہم کردار ہوتا ہے کیونکہ حکومت کی پارلیمان کی بڑی جماعت بھی ہو تی ہے۔بہر حال ہمارے ملک میں ایکسٹرا پارلیمنٹری حکومتیں بھی رہی ہیں یعنی کہ مارشل لا ہو تا ہے اور پارلیمان کا وجود ہی نہیں ہوتا ہے اس دور میں بھی قانون بنائے جاتے ہیں لیکن اس کے بعد پارلیمان کے ذریعے ہی ان قوانین کو قانونی دائرے میں لانی کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ تمام عمل کسی بھی قانون ساز (Legislative) معیار پر پو را نہیں اترتا ہے اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ روش کو تبدیل کیا جائے اور جمہوریت کو اس کی روح کے مطابق بحال کیا جائے۔