
آئی ایم ایف عالمی مالیاتی ادارہ ہے جو پسماندہ ملکوں کو قرضے فراہم کرتا ہے- امریکہ کے ڈی کلاسیفائیڈ پیپرز اور فارن افیئرز کی رپورٹوں کے مطابق آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک امریکہ کے مالیاتی ہتھیار ہیں جن کے ذریعے امریکہ دنیا کے مالیاتی نظام کو کنٹرول کرتا ہے- یہ دونوں مالیاتی ادارے امریکہ کی معاشی اور سکیورٹی پالیسی کا حصہ ہیں- امریکہ ان اداروں کو دنیا بھر میں اپنے عالمی مفادات کو آگے بڑھانے کیلئے استعمال کرتا ہے اور قرضے لینے والے ملکوں کے بازو مروڑتا ہے تاکہ وہ اپنے قومی مفادات پر امریکی مفادات کو ترجیح دیں- پاکستان نے امریکہ سے پہلا مالیاتی پروگرام 1958 ءمیں لیا تھا - اسکے بعد 2023 ءتک 23 پروگرام لے چکا ہے- آئی ایم ایف سے قرضے لینے والوں میں جنرل ایوب خان ذوالفقار علی بھٹو جنرل ضیاءالحق بے نظیر بھٹو میاں نواز شریف آصف علی زرداری اور عمران خان سب شامل ہیں- 2018 ءمیں عمران خان نے پاکستانی قوم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ خود کشی کر لیں گے مگر وہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے- افسوس انہوں نے بھی 2019 ءمیں آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کر لیا اور پھر اس پر ظلم یہ کیا کہ انہوں نے سیاسی عزائم کے تابع آئی ایم ایف کا پروگرام معطل کر دیا- آج میاں شہباز شریف کی حکومت آئی ایم ایف کے معطل شدہ پروگرام کو دوبارہ جاری کرانے کے لیے جتن کر رہی ہے- آئی ایم ایف کا وفد پاکستان آیا ہوا ہے جو حکومت پاکستان کے ساتھ پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کیلئے مذاکرات کر رہا ہے-دو روز قبل وزیراعظم میاں شہباز شریف نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ آئی ایم ایف جس قسم کی شرائط عائد کر رہا ہے ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا-ان کے اس بیان میں گفتنی اور نا گفتنی دونوں باتیں پوشیدہ ہیں- گفتنی باتیں تو عوام کے سامنے آچکی ہیں مگر نا گفتنی باتیں ابھی تک پوری طرح آشکار نہیں ہوئیں اور قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ آئی ایم ایف پاکستان پر دباو¿ ڈال رہا ہے کہ دفاع کے اخراجات کم کیے جائیں اور انہیں شفاف بنایا جائے -امریکہ پاکستان پر چین کے ساتھ تعلقات اور سی پیک کے سلسلے میں بھی دباو¿ ڈالتا رہا ہے - آئی ایم ایف امریکہ کی خواہشات کو پورا کرنے کیلئے مالیاتی حربے استعمال کر سکتا ہے-
آئی ایم ایف نے قرضے فراہم کرنے کیلئے یہ شرائط عائد کی ہیں کہ پاکستان بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرے- گریڈ 17 سے گریڈ 22 کے تمام افسروں کو پابند بنایا جائے کہ وہ اپنے اندرونی اور بیرونی اثاثے قوم کے سامنے ڈکلیئر کریں - اس سلسلے میں اقدامات جاری کر دیے گئے ہیں جن پر عمل درآمد کیلئے ایف بی آر نے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے-آئی ایم ایف نے پٹرولیم کی مصنوعات پر جی ایس ٹی لگانے کی شرط بھی عائد کی ہے-آئی ایم اے نے حکومت سے کہا ہے کہ پاکستان ٹیکس نیٹ کو وسیع کرے اور اشرافیہ کو جو سبسڈی دی جارہی ہے وہ واپس لی جائے- آئی ایم ایف نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان کے وہ شہری جو 300 یونٹ بجلی استعمال کرتے ہیں اور حکومت ان کو سبسڈی دے رہی ہے تاکہ ان کو شدید غربت سے بچایا جا سکے ان کی سبسڈی بھی ختم کی جائے- تازہ اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف نے سٹیل ملز اور دو پاور یونٹس کی نج کاری کا مطالبہ کر دیا ہے حکومت گردشی قرضے ایک ہزار ارب روپے کم کرنے پر آمادہ ہو گئی ہے-آئی ایم ایف جس انداز سے پاکستان کو خطرناک شکنجے میں کس رہا ہے اس سے پاکستان کی آزادی اور سلامتی کے بارے میں خدشات پیدا ہو چکے ہیں- مالیاتی ماہرین کا یہ خیال ہے کہ آئی ایم ایف آخر کار پاکستان کو یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ پاکستان ایک غریب پسماندہ ملک ہے اور قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے تو وہ اپنے ایٹمی اثاثوں کی سیکیورٹی پر اربوں روپے خرچ کیوں کر رہا ہے -
وقت گزرنے کے ساتھ آئی ایم ایف یہ دباو¿ بھی ڈال سکتا ہے کہ پاکستان کی فوج کے سائز کو کم کیا جائے-ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کی مضبوط فوج انڈیا اسرائیل امریکہ کو کھٹکتی ہے-ماضی میں بھی پاک فوج کو کمزور کرنے کی سازش ہوتی رہی ہے آئندہ بھی یہ سازش جاری رہے گی-اندرونی اور بیرونی سازشوں کا مقابلہ ایک ہی طریقے سے کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان معاشی طور پر اپنے پاو¿ں پر کھڑا ہو جائے-آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر قرضہ لینے کی بجائے اپنے اخراجات میں واضح کمی کرے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرے اور پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے ماحول سازگار بنائے-زراعت اور صنعت کی پیداوار میں اضافے کیلئے گھریلو صنعتوں کا جال بچھایا جائے- پاکستان ایسی اشیاءتیار کرے جو برآمد کی جا سکیں-
پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت نے 1991 ءمیں آئی ایم ایف سے صرف ایک بار قرضہ لیا تھا پھر اس کے بعد بھارت کو قرضہ لینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی-قرضہ لینا کوئی بری بات نہیں ہے البتہ یہ خطرناک اس وقت بن جاتی ہے جب قرضوں کو ترقیاتی کاموں پر خرچ کرنے کی بجائے قرضوں کی قسط ادا کرنے کیلئے استعمال کیا جائے اور ان کو سرکاری اہلکاروں اور حکمران اشرافیہ کی عیش و عشرت پر خرچ کردیا جائے- 1958 ءمیں جنرل ایوب خان نے جو قرض لئے تھے ان کو تربیلا ڈیم اور منگلا ڈیم کی تعمیر پر خرچ کیا گیا تھا جن سے آج تک پاکستان کو آمدن ہورہی ہے- پاکستان قرضوں کو ایسے منصوبوں پر خرچ کر رہا ہے جن سے اس کو کوئی آمدن نہیں ہو رہی-جب تک پارلیمنٹ منظوری نہ دے کسی حکومت کو بیرونی قرضے لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے-یہ پالیسی انتہائی تشویشناک اور افسوسناک ہے کہ بیرونی قرضے امیروں پر خرچ کئے جاتے ہیں جبکہ ان کا بوجھ غریب عوام پر ڈالا جاتا ہے- پاکستان اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے- سیاسی انتشار معاشی عدم استحکام دہشت گردی 70 فیصد نوجوان اور سوشل میڈیا جیسے عوامل پہلے کبھی اکٹھے نہیں ہوئے ان حالات میں حکمران اشرافیہ کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ انداز حکومت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے-ہنگامی نوعیت کے ایسے اقدامات اٹھانے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے جو معاشی استحکام کیلئے لازم ہوں-آئی ایم ایف کی ایسی شرائط تسلیم نہ کی جائیں جو ریاست کی آزادی اور سلامتی کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہوں-