
لقب ا ور خطاب عطا کرنا ہماری تہذیبی روایت رہی ہے تاہم اس میں فرق سمجھنا ضروری ہے۔ رسمی اور سرکاری سطح پر ملنے والا خطاب، پسندیدگی اور ناپسندیدگی دونوں پہلو ﺅں کا حامل ہوتا ہے۔ کوشش و جستجو اور پیہم ترقی کے متقاضی دور میں راجاﺅں اور نوابوں کی جانب سے عطا ہونےوالے خطابات کو محققین اور مصلحین ناپسند خیال کرتے تھے کیوں کہ ایک توا±ن خطابات کے ہجوم میں اصل نام گم ہوکر رہ جاتا تھا ۔دوسرا یہ کہ اس سے معاشرے و ادب ، حتی کہ صاحبِ خطا ب کو بھی کچھ خاص فائدہ نہ ہوتا تھا۔ سرکاری خطابات کا معاملہ الگ ہے۔ البتہ عوام و علما ءکے دلوں سے نکلنے والے القابات اپنے اندر حب اور موزونیت کی متعدد تشریحات رکھتے تھے۔ یوں اب تک کا منظر نامہ یہی رہا ہے کہ ایک لقب بعض اوقات کئی سرکاری اور رسمی خطابات پر بھاری ہوتا ہے اور اگر وہ لقب کسی اسکالر کی جانب سے کسی شخص کو دیا جائے تو اس کا درجہ بڑھ جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ معاملہ لقب فرزندِ اردوکا ہے۔
ڈاکٹر معین الدین عقیل (ستارئہ امتیاز) کی جانب سے سید روح الامین کو فرزندِ اردو کا لقب عطا ہوا، یہ امر اپنے اندر کئی جہات رکھتا ہے۔ روح الامین کئی کتابوں کے مصنف ہیں اوراردو زبان کی علاقائی بقا ءا انکی تصانیف میں ایک مشترک قدرہے۔ یہ قدر انکے یہاں بلاشبہ حب الوطنی،اپنی شناخت کے سفر اور مٹی سے محبت کے جذبے کے سبب سے ہے۔انکی کتب میں،"اربعین رضویہ"،"پانچ دریا"،"اردو ہے جس کا نام"،"اردو ایک نام محبت کا"،"اردو بہ طور ذریعہ¿ تعلیم"،"اردو لسانیات کے زاویے"،"اردو کے لسانی مسائل"،"اردو تاریخ و مسائل"،"اقبال: شاعری و فکر و مقام"،"اردو کے دھنک رنگ"،"اقبال فکر وفن"،"برسرِ مطلب"، "طیفِ نظر"، "ہماری اردو،ہمارا پاکستان"اور "اردو جو نہیں تو کچھ بھی نہیں" شامل ہیں۔ تصانیف یہ طویل فہرست اس حقیقت کو پایہ¿ ثبوت تک پہنچاتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا دیا ہوا یہ لقب کس قدر مبنی بر حقیقت ہے۔روح الامین کی شخصیت اور علمی خدمات پر مشتمل کتاب بہ عنوان "فرزندِ اردو" کو ڈاکٹر شبیر احمد قادری نے مرتب کیا ہے ۔
جس طرح اردو زبان ایک بہت بڑے لسانی خاندان کا حصہ ہے، اسی طرح اردو کے بولنے والے بھی ایک خاندان کے افراد ہیں۔ ڈاکٹر عطش درانی نے لکھا تھا کہ پاکستانی اردو نہ صرف وجود میں آرہی ہے بل کہ اپنا وجود رکھتی ہے۔ یقیناً اس میں ان کی تصانیف کے اعلیٰ معیار کے ساتھ ساتھ اخلاقی جرا¿ت ، تقریرو تحریر، فنون اور ذرائع ابلاغ کے شعبوں میں اردو کی بوقلمونی کو پیش کرنا،پس پردہ کثیر الجہات عوامل ہیں ۔
آج سے کوئی پندرہ سال قبل جب گجرات شہر میں قیام رہا تو اردو زبان میں وٹو صاحب (اس وقت جامعہ گجرات، حافظ حیات کے ایڈیشنل رجسٹرار)کا ایک شعری مجموعہ ظہور پذیر ہوا تھااور دلی تقویت کا باعث بنا تھا کہ گجرات میں اردو زبان سے انسیت و الفت کا رشتہ استوار ہے۔ اسکے بعد سید روح الامین کی اس ادبی حیثیت پر ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب کی مہر ثبت ہونا، معیار کے اعلیٰ ہونے کی دلیل ہے۔ سید روح الامین کی ادبی کاوشیں اس سلسلے میں قابل تعریف و ستائش ہیں۔ہمارا بنیادی اور مسلمہ مفروضہ (Assumption) یہ ہے کہ کئی ممالک جو اپنی قومی زبان میں تعلیم دیتے ہیں، ان کی ترقی کا گراف پاکستان سے بلند ہے اور زبان ِ غیر سے شرحِ آرزو کرنے کے نتیجے میں پاکستان ترقی کے اس معیار تک رسائی حاصل نہیں کرسکا۔حقیقت تو یہ ہے کہ انگریزی اجارہ داری ہی محض قصوروار نہیں، بات یہ ہے کہ زبان کو رائج کرنے کے لیے اور اسے ر است علمی زبان کا درجہ دلانے میں محض لغات کی اشاعت کافی نہیں ،جامعات اور دیگر تحقیقی اداروں میں اردو زبان کا علم رکھنے والوں کی تعیناتی بھی اہم ترین ہدف ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نہیں۔ میری گزارش ہے کہ روح الامین جامعات اور دیگر تحقیقی اداروں میں اردو پڑھانے والوں کے معیارات اور ان اداروں میں زبان کے کردار کے حوالے سے بھی ا پنی تحقیق سامنے لائیںتاکہ اصل منظر نامہ سامنے آسکے۔
اردوکے ادیب و اسکالر اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ جامعہ گجرات میں شعبہ اردو کیوں موجود نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جامعہ گجرات کے اولین وائس چانسلر ڈاکٹر نظام الدین صاحب کا نقطہ نظر تحقیقی تھااور وہ اردو کا ایک روایتی و فرسودہ شعبہ کھولنے اور اردو پڑھانے کا کام کرنیوالے ملازمین کے بجائے محققین کی تلاش میں تھے۔ روح الامین کی کتاب کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ اپنی تصنیفات میں محض تاریخیت کو بیان نہیں کرتے، بل کہ اردو کی لسانی ترقی کیلئے آپ تاریخیت کو تقابلی بیانیے (Comparative Descriptive) سے جانچنے اورنکات وار بیان کرنے کے بعداسے ایک مرتب و منظم صورت کی پیش کش عطا کرتے ہیں اور یہی ادبی جرا¿ت آپ کا اصولی اسلوب وضع کرتی ہے۔ مستقبل میں اس عالمی کارنامے کو مکمل کرنے میں بے شمار ادبا، مورخین اور محققین سامنے آئیں گے لیکن اس ادب کی معنویت اور اس کی تحقیق کی جڑوں میں،ثقافتِ زبان کا انداز متعین کرنے میں اور اردو زبان کے حوالے سے اجتماعی شعور کی بیداری میں سید روح الامین کی حیثیت مستندو مقدم رہے گی۔