
بلقیس ریاض
سلمیٰ عوان کے ساتھ میرا تعلق چالیس سال سے محیط ہے۔ جب بھی میرے گھر میں ادبی محفلیں ہوتی تو سلمیٰ اعوان ضرور شمولیت کرتیں۔۔۔اور اپنے خوبصورت کالم سے سب کو محفوظ کرتی۔۔۔جب انٹرنیشنل کانفرنس اسلام آباد میں ہوئی تو یہ میرے ہمراہ تھی ہم نے ایک ہی کمرہ شیئر کیا۔۔۔پھر جب بھی سیرت کانفرنس ہوتی تو یہ تب بھی میرے ساتھ ہوتی۔۔۔اور میری دوستی دن بدن اس سے بڑھتی گئی۔
جب میرے میاں کا تبادلہ اسلام آباد میں ہو گیا تو میں کافی سال وہاں کی خوبصورتیوں،فضائوں اور ہوائوں میں لطف اندوز ہوتی رہی۔۔۔لاہور میں چکر لگتے رہے مگر اس کی تحریر میرے ساتھ رہی۔۔۔۔کبھی کبھار بیاز میں ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں۔۔۔۔پھر جب میاں ریٹائرڈ ہوئے تو ہم لاہور آگئے تو ادبی محفلوں میں ملاقاتوں کا سلسلہ دوبارہ سے شروع ہو گیا۔
سلمیٰ بہترین سفرنامہ نگار،افسانہ نگار،کالم نگار ہے۔ بہت سی خوبیوں کی مالک ہے حال ہی میں چین کا سفرنامہ شائع ہواتو اس نے بڑی محبت کے ساتھ مجھے اپنا سفرنامہ ’’حیرت بھری آنکھ میں چین‘‘ میرے ہاتھ میں رکھا تو مجھے محسوس ہوا ایک انمول موتی سمندر کی گہرائیوں سے نکل کر میرے ہاتھ میں آگیا ہو۔
چین کے بارے میں بڑا خوبصورت سفرنامہ لکھا ہے۔ بیس سال پہلے میں نے بھی ’’چین کو چلیے‘‘سفرنامہ لکھا تھا۔۔۔۔جو باتیں میں لکھ نہیں پائی تھی اس نے خوبصورت انداز سے وہ باتیں لکھی ہیں۔ چین کا سفر کرنے سے پہلے بہت سی دشواریوں سے گزری تھی۔۔۔دل میں تمنا تھی کہ چین کا سفر کروں۔۔۔۔جب داماد کی پوسٹنگ چین ہوئی تو دونوں بیٹی اور داماد بچوں کے سکولوں کی وجہ سے پریشان تھے۔۔۔مگر سلمیٰ لکھتی ہے۔
’’چین تقرری کا سن کر دل نومانو جیسے بلیو اچھل رہا تھا۔ پر انہیں ہراساں دیکھ کر ہونٹوں پر تالے لگا لئے۔۔۔کہیں گے‘‘۔
’’لو دیکھ میری ماں کو میری نہیں اپنے سیر سپاٹے کی پڑی ہے‘‘۔
خیر جب سارے معاملے طے ہو گئے تو۔۔۔۔ایک دن عازم چین ہو گئے‘ جانے سے قبل وہ اپنی ملازمہ میری محبت میں یہ کہتے ہوئے کہ اسے ذاتی کاموں کیلئے رکھئیے۔ بدن اور سر کی مالش باقاعدگی سے کروایا کریں۔ اچھی لڑکی ہے۔ میں اسے کہنا چاہتی تھی ساری زندگی جوتیاں چٹخانے والی عورت کو ان عیاشیوں کی ذرا عادت نہیں اور نہ ہی ن کی عادی ہونا چاہتی ہے۔ وہ اپنے سب چھوٹے موٹے کام خود کرنے کی خواہشمند رہتی ہے۔ تاکہ اس کے گوڈے ہاتھ پائوں موبائل رہیں۔
سلمیٰ کی اس طرح کی تحریر پڑھ کر سنجیدہ شخص کو اگر ہنسی نہیں آتی تو مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا۔
چین کے بارے میں لکھتی ہے آج جہاں چین کھڑا ہے اس میں شنگھائی کے ساتھ قازقستان کا حصہ بھی ہے۔
سیاہی میں لت پت شفاف سڑکیں ان پر چلتی سرخ بیر بہوٹی کے رنگ کی ڈبل ڈیکر بسیں، نئی گاڑیاں کاریں ٹیکسیاں ان پشت پر تکبر سے کھڑی بلند و بالا عمارتیں چیخ چیخ کر چین کی دنیا پہ چھا جانے کی خبر دیتی تھیں۔ نکھر نکھرے تکون آنکھوں والے مرد اور عورتیں،نوجوان لڑکیاں لڑکے گویا ایک سیل رواں میں بہتے چلے جا رہے تھے۔ ایک بج رہا تھا۔ دھوپ کے بھانکپن پر ابھی ابھی وہی خوشی اور تیزی تھی۔ دلکشی اور خوبصورتی عین اپنے عروج پر تھی۔ سارا ماحول میٹھے سے سرور میں ڈوبا لگتا تھا۔
’’اف میں یہاں ہوں۔۔۔احسان ہے تیرا‘‘۔
برصغیر کے ادبی افق پر سب سے چمکدار ستارہ سلمیٰ کی ذات ہے۔ اس کی تخلیقی صلاحتیں عمر کے ساتھ پھیلتی ہیں۔ زمانے کی دھوپ نے اس کے ادب کو نکھارا ہے۔
سلمیٰ نے اپنے ادب کی قدروں کو برقرار رکھا ہے۔ کئی ادیب اس کی تحریر پڑھ کر مستفید ہوئے ہیں اور راحت محسوس کرتے ہیں۔ اسے خود معلوم نہیں کہ یہ کتنا عمدہ لکھتی ہے۔۔۔اس کی شخصیت کے بارے میں اتنا ضرور کہوں گی اس کی ذات اور اس کا فن زمانے کو سمیٹے ہوئے ہے۔۔۔۔اس کے دل میں عاجزی اور انکساری ہے۔۔۔۔سادہ طبیعت اور ذرا بھر غرور نہیں ہے کہ میں کتنی بڑی رائٹر ہوں۔۔۔۔یہی وجہ ہے کہ سلمیٰ اعوان بنیادی طور پر ایک اچھی اعلیٰ پایہ کی لکھاری ہے اور سفرنامہ لکھتے وقت ایک خاص دلچسی پیدا کرتی ہے۔۔۔۔اور کہیں کہیں پنجابی کے الفاظ بھی لکھتی ہے کہ پڑھنے والا ایک خاص لطف سے ہمکنار ہوتا ہے۔۔۔۔اور یہی بنیادی لوازمات جو کسی بھی سفرنامے کی تشکیل و تعمیر کیلئے تصور کئے جاتے ہیں۔ اس کے فن کو چار چاند لگاتے ہیں۔۔۔۔اور اس کا ستارہ مسلسل افق کی بلندیوں پر چمکتا ہوا نظر آرہا ہے۔۔۔۔بنیادی طور پر اکیلی گھومنے پھرنے کی عادی ہے مگر چین کے سفرنامے میں بیٹی اور داماد کے ساتھ کو دیکھ کر لکھتی ہے ۔
جیسے کہا جائے بندے کی سوئی کہیں اٹک سی جاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی سیاپا میرے ساتھ بھی تھا۔ تشنگی میرے اندر اکیلے گھومنے پھرنے کی ،پابندیوں سے آزاد ہونے کی ۔اس صبح میں نے سعدیہ کے ہاتھ پکڑ لئے تھے کہ وہ میرے پنجرے کو آزاد کر دے۔ پھرنے دے قلانچیںمجھے۔ میرے اندر کی بے چینی اور اضطراب کو تسکین پانے دے۔
بیٹی نے کہا۔
’’زیادہ دور مت جائیے گا ایڈریس سنبھال کر رکھیئے گا‘‘۔
اس کے جانے کے بعد میں کھلکھلا کر ہنسی تھی میں نے گردوبیش کو چاہت سے دیکھا تھا موسم میں خنکی تھی۔ دھوپ میں نرمی تھی۔ میرے چھوٹے سے بیگ میں فلاسک اور شامی کباب تھے کچھ دیر بیٹھ کر اپنی آزادی کا جشن منایا پھر خود سے پوچھا۔
’’اب کہاں سے شروع کرنا ہے‘‘۔
سارے سفرنامے میں یوں لگتا ہے انگلی پکڑ کر ساتھ ساتھ لے کر چلتی ہے اور قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ان کے ساتھ سفر کر رہا ہے۔ اس کا بڑا ہی گہرا مشاہدہ ہے۔۔۔اور اس کی اعلیٰ تحریر کو نمایاں کرتا ہے۔۔۔تصویر کشی بڑی عمدہ کی ہوئی ہے۔۔۔۔ٹیکسی میں بیٹھی جزیرے کی سمت جا رہی ہے۔ لکھتی ہے۔
’’جزیرے پر انگلینڈ اور فرانس مسلط تھے۔ جزیرے کی تاریخ تو ویسے ہی سونگ اور لیانگ بادشاہوں سے ناطہ جوڑتی ہے‘‘۔
’’جب وہ (ڈرائیور)جوش خطابت میں بول رہا تھا۔ میری نظر باہر کے منظروں میں الجھ گئی۔ شام کی سنہری کرنوں میں چمکتا ہوا سبزہ۔۔۔۔چہار منزلہ کلاسیکل طرز تعمیر کی حامل عمارتیں جن کے ہاتھوں پر برطانوی طرز تعمیر کے مخصوص رنگ گہری چھاپ تھی۔ شفاف سڑکیں جن پر پھرتے بچے اور بوڑھے جیسے ان نظروں میں مزید رعنایاں بھر رہے تھے۔ کسی گلی کے موڑ پر مجسمے اس کا حسن بڑھاتے۔۔۔پر سکون ماحول میں رچی میٹھی سی خنکی بھلی لگتی تھی‘‘۔
پھر کہنا پڑتا ہے کہ سلمیٰ کا بڑا ہی گہرا مشاہدہ اس کی اعلیٰ تحریر کو نمایاں کرتا ہے۔ غرض کہ میری دعا ہے کہ ا س کا ستارہ افق کی بلندیوں پر ہمیشہ چمکتا رہے اور وہ مزید ترقی کرتی رہے اور خدا اس کو ہمت دے اور بھی سفرنامے لکھے اور ہم پڑھ کر محظوظ ہوتے رہیں(آمین)