
اصغر علی شاد
دنیا بھر میں پانچ فروری کو ’’یوم یکجہتی کشمیر ‘‘ کے طور پر منایا جا رہا ہے ۔ اس موقع پر پاکستان ، آزاد کشمیر ، مقبوضہ کشمیر اور دنیا کے سبھی حصوں میں مقیم پاکستانی اس عزم کو دہراتے ہیں کہ وہ کشمیریوں کی سیاسی اور اخلاقی حمایت مسلسل جاری رکھیں گے اور اس مقصد کے حصول لئے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ واضح ہو کہ پہلی بار پانچ فروری 1990 کو جماعت اسلامی پاکستان کے اس وقت کے امیر ’’قاضی حسین احمد‘‘ مرحوم کی اپیل پر فیصلہ کیا گیا کہ ’’پانچ فروری‘‘ کو ’’کشمیر ڈے ‘‘ کے طور پر منایا جائے ۔ اسی کے نتیجے میں تب سے اس موقع پر پاکستان اور کشمیر کے عوام ریلیاں،جلوس، جلسے منعقد کر کے ایک دوسرے سے اپنی جذباتی وابستگی اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں اور اس عہد کا اعادہ کیاجاتا ہے کہ اس دیرینہ تنازعہ کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے گا اور اس ضمن میں پاک حکومت، عوام اور معاشرے کے سبھی طبقات اپنا اخلاقی اورسفارتی فریضہ نبھائیں گے۔
کسے معلوم نہیں کہ پاکستان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ تنازعہ کشمیر کے عملی طور پر تین فریق ہیں، پاکستان، کشمیری عوام اور بھارت۔ اس تنازعہ کو محض اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرار دادوں کے مطابق ہی حل کیا جا سکتا ہے اور جب تک کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت نہیں دیا جاتا، تب تلک کوئی یکطرفہ فارمولہ پاکستان و کشمیری عوام کو کسی صورت قبول نہیں۔ یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اس مسئلے کو بھارت خود اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھے اور اس وقت کے بھارتی وزیراعظم نے اعلانیہ طور پر اقرار کیا تھا کہ مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی خواہش کے مطابق ہی حل کیا جائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستانی حکمران ان وعدوں سے منحرف ہوتے چلے گئے اور اب صورتحال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو 5 اگست 2019 کے بعد سے اب تلک قابض بھارتی فوج نے دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر رکھا ہے۔ چند روز قبل سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے اب تک وہاں کی مقامی معیشت کو 9 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچ چکا ہے۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے ماہرین نے کہا ہے کہ مودی سرکار مقبوضہ جموں و کشمیر کے جنگلات کو منظم طریقے سے ختم کرنے پر کام کر رہی ہے، اس معاملے میں دہلی حکومت نے ’’تجاوزات‘‘ خاتمہ کی نام نہاد مہم کے نام پر مقبوضہ جموں وکشمیر کے جنگلات کی کٹائی شروع کر رکھی ہے اور ان جنگلات کی بے جا کٹائی سے حاصل ہونیوالی جگہ انڈین آرمی کی بستیوں کیلئے الاٹ کی جا رہی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہاں پر مقیم لوگ صدیوں سے انہی درختوں اور باغوں کی مدد سے اپنی روزی روٹی کماتے تھے۔ اسی کے ساتھ ساتھ پہلگام ضلع میں بھی جنگلات کی کٹائی زور و شور سے جاری ہے۔ یاد رہے کہ صرف جنگلات کی کٹائی ہی نہیں کی جا رہی بلکہ یہاں پر مٹی، پتھروں اور لکڑی سے بنے مکانوں کو بھی بلڈوز کیا جا رہا ہے اور اس مہم کے نتیجے میں ہزاروں کشمیری بے گھر اور بے روزگار ہو چکے ہیں۔مبصرین کے مطابق غزہ کی یہودی بستیوں کی طرز پر مقبوضہ کشمیر کے طول و عرض میں ریٹائرڈ اور حاضر سروس بھارتی فوجی اہلکاروں کی کالونیا ں بنائی جا رہی ہے، تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق مودی حکومت 44 لاکھ سے زائد ہندوئوں کو مقبوضہ وادی کا ڈومیسائل جاری کر چکی ہے ۔ سرینگر میں مختلف ہائوسنگ منصوبوں کے تحت کشمیری پنڈتوں اور انتہا پسند ہندوئوں کی بڑی تعداد کو وہاں بسایا جا رہا ہے۔
غیر جانبدار مگر سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ بھارت کی 1000 سالہ تاریخ پر سرسری سی بھی نگاہ ڈالیں تو یہ امر پوری طرح عیاں ہو جاتا ہے کہ ہندوستان اپنی تاریخ کے زیادہ تر حصے میں غلامی کی حالت میں وقت گزارتا رہا۔ اس کی توجیہہ تلاش کرتے ہوئے بیشتردانشوروں نے کہا ہے کہ دہلی کے حکمران اس صورتحال کے لئے اپنی غیر انسانی روش کے علاوہ کسی دوسری چیز کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ یہ امر کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ ہندوستان ہمیشہ سے ذات پات کے بدترین نظام میں جکڑا رہا ہے اور ابھی تک وہی صورتحال جوں کی توں برقرار ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اونچی ذات کے بالادست ہندو طبقات نے ہمیشہ شعوری و غیر شعوری دونوں طرح سے کوشش کی ہے کہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو اپنے سے حقیر سمجھا جائے اور اپنے اسی چلن کے نتیجے میں وہ زیادہ تر عرصہ غلام رہا ہے کیونکہ یہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ 1857 تک بھارت میں برائے ہی سہی مگر مسلمانوں کی حکومت قائم تھی، بعد ازاں باگ دوڑ انگریزوں کے ہاتھ میں رہی اور یوں 1947 کے بعد موجودہ بھارت کی آزادی کی عمر محض 75برسوں پر محیط ہے اور قوموں کی زندگی میں 75 سال درحقیقت اتنا اہم عرصہ نہیں ہوتا کہ جس کی بنا پر کوئی ایسا نتیجہ نکالا جا سکے کہ اس قوم کا دیرپا مستقبل کیا ہو گا۔ ایسے میں اس امر کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ اپنی غیر انسانی روش کے منطقی نتیجے کے طور پر تاریخ اپنے آپ کو دہرائے اور بھارت دوبارہ پستی کی گہرائیوں میں گر کر ایک بار پھر ماضی کے دھندلکوں میں گم ہوجائے۔
اس معاملے کو قدرے تفصیل سے بیان کرتے سیاسی اور سفارتی حلقوں نے کہا ہے کہ یوں تو اس کھلے راز سے سبھی آگاہ ہیں کہ مودی نے اپنے پہلے عہدِ اقتدار میں حلف اٹھانے کے محض چوبیس گھنٹوں کے اندر اپنے پہلے حکم میں اجیت ڈووال کا نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کے عہدے پر تقرر کیا جو انڈین انٹیلی جنس بیورو کے چیف کے طور پر ریٹائر ہوئے اور فخریہ طور پر پاکستان میں جاسوسی اور تخریب کاری کا اعتراف کرتے ہیں ۔ ایسے میں دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ خدا وطن عزیز کو ایسی دہشتگردانہ ذہنیت کے حامل گروہوں اور شخصیات کے شر سے محفوظ رکھے۔ (آمین)