
کشمیر، پاکستان اور بھارت کے بیچ ایک دیرینہ مسئلہ ہے جو گزشتہ 75سالوں سے حل طلب ہے۔ اس ایشو پر پاکستان اور بھارت کے مابین ہمیشہ ہی سے خراب تعلقات رہے ہیں۔ تین جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ پاکستان کی خواہش ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق استصواب رائے سے حل ہو۔ کشمیری پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں یا آزاد ریاست کے قیام کے خواہش مند ہیں وہ جو بھی فیصلہ کریں دونوں فریق یعنی پاکستان اور بھارت اُسے دل سے قبول کر لیں۔ مگر بھارت ہے کہ جس نے گزشتہ سات دہائیوں سے مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی جبکہ پاکستان کی خواہش رہی ہے کہ اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے۔ مذاکرات ہی سے اس مسئلے کا حل ڈھونڈا جا سکتا ہے۔
آپ کو معلوم ہی ہو گا کہ یوم یکجہتی کشمیر ہر سال پانچ فروری کو آزاد کشمیر سمیت پورے پاکستان میں بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ پاکستانی عوام اپنے کشمیری بھائیوں سے اظہارِ یکجہتی کیلئے یہ دن مناتے ہیں اور تجدید عہد کرتے ہیں کہ ہم کل بھی کشمیریوں کے ساتھ تھے اور مستقبل میں بھی اُن کےساتھ رہیں گے ۔ دنیا کا کوئی بھی فورم ہو، کشمیریوں کیلئے آواز اٹھانا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم اس ذمہ داری سے کسی بھی لمحے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔
مسئلہ کشمیر درحقیقت تقسیمِ ہند کے ایجنڈے کا حصّہ ہے۔ شمالی ہند میں جس طرح مسلم اکثریت والے حصّوں کو پاکستان میں شامل کیا گیا اور مسلم اکثریت والے یہ حصّے پاکستان کے وجود کی بنیاد بنے۔ بالکل یہی اصول 1947ءمیں ریاست جموں و کشمیر کیلئے بھی لاگو ہونا چاہیے تھا لیکن ہندوﺅں نے برٹش سامراج کے ساتھ مل کر سازش کی اور اس ”سازش“ کے تحت جموں و کشمیر کو پاکستان میں شامل نہیں ہونے دیا۔ رکاوٹ ڈالی گئی اور جموں و کشمیر کا الحاق بھارت سے کر دیا گیا۔ جو ایک غیر منصفانہ اقدام تھا۔ اس ناپاک گٹھ جوڑ کے باعث بھارت نے اپنی فوج کشمیر میں داخل کر کے اس کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔
1948ءمیں کشمیریوں کی بھرپور جدوجہد کے نتیجے میں جب کشمیر آزاد ہونے کے بالکل قریب تھا بھار ت نے اقوام متحدہ میں کشمیر کا مسئلہ اٹھا دیا۔ جہاں پورے بحث و مباحثے کے بعد اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے دو قراردادیں منظور کیں۔ جن میں ناصرف کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا بلکہ یہ بھی طے ہوا کہ کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے رائے شماری کا موقع فراہم کیا جائے۔ مگر بھارت نے اقوام متحدہ کی اس قرار داد پر اب تک عمل نہیں کیا۔ اقوام متحدہ بھی اپنی اس ”قرار داد“ پر عملدرآمد میں ناکام رہی ہے۔ یوں مظلوم کشمیریوں کو اُنکے حقِ آزادی سے محروم رکھا گیا ہے۔
کشمیر آج بھی چھاپوں،گرفتاریوں اور بھارتی عقوبت خانوں میں ہونےوالے بہیمانہ ظلم اور صعوبتوں کی زد میں ہے۔ کشمیر میں بھارتی مظالم کی ایسی داستانیں رقم ہو رہی ہیں کہ اُن جیسے مظالم کا ذکر شاید ہی تاریخ میں کبھی رقم ہوا ہو۔ کشمیر میں کشمیریوں کی نسل کشی کی مہم شروع کی گئی ہے۔ ایسے مشکل حالات میں پاکستان کی حکومت اور عوام ہمیشہ ہی مظلوم کشمیریوں کی آواز بنے ہیں۔ انہیں تنہا چھوڑنے کی بجائے ہمیشہ ہی اُن کی حمایت کا نعرہ بلند کیا ہے او رپوری دنیا کو باور کرایاہے کہ تنازعہ کشمیر ایک حقیقت ہے۔ اس مسئلے سے کبھی بھی آنکھیں چرائی نہیں جا سکتیں۔
کشمیریوں کیلئے محض اعلانات اور اُن سے کئے جانےوالے دعوے ہی کافی نہیں، ہمیں اب کچھ ایسے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے اور ایسی پالیسی بنانی ہو گی کہ کشمیری اپنی آزادی کی منزل کے قریب تر آسکیں۔ اس سلسلے میں قومی پالیسی کا احیاءکرتے ہوئے ہمیں درج ذیل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے:۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قومی مو¿قف کا اعادہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کی بھرپور تائید و حمایت کی جائے۔بھارت سے جب بھی مذاکرات ہوں ، مسئلہ کشمیر کو سرفہرست رکھا جائے جس میں کشمیری قیادت بھی شامل ہو۔کشمیر کے حوالے سے بھارت کی دیرینہ ہٹ دھرمی اور کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین پامالی، بالخصوص گرفتاریوں اور بھارتی عقوبت خانوں میں بہیمانہ ظلم و تشد کے ساتھ ساتھ سیز فائر لائن پر بلااشتعال فائرنگ۔ آزاد کشمیر اور پاکستان میں ”را“ کی تخریبی کارروائیوں سے بھی دنیا کو آگاہ کیا جائے تاکہ بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب ہو ۔ اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر بین الاقوامی انسانی حقوق کے فورمز پر بھی پوری تیاری کے ساتھ اپنا مقدمہ پیش کیا جائے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو تحریک آزادی کشمیر کا حقیقی بیس کیمپ بنایا جائے۔ایک مضبوط اسلامی جمہوریہ پاکستان ہی تحریک آزادی کشمیر کیلئے کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے داخلی انتشار سے نجات پانے کیلئے بھی مو¿ثر سیاسی استحکام ضروری ہے۔ سیاسی عدمِ استحکام ہو گا تو ہم کبھی بھی مظلوم کشمیریوں کی مدد نہیں کر سکیں گے۔ خطہ ءکشمیر میں پانی کی بہتات ہے۔یہ پانی بھارت کی آبی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ بھارت جانتا ہے کشمیر چھوڑا تو بھارت بہت بڑے آبی وسائل سے محروم ہو جائے گا۔بھارت کشمیر کو اس لیے بھی آزادی نہیں دینا چاہتا کہ پھر سکھوں کی آواز بھی بہت مو¿ثر اور توانا ہو جائے گی جو ”خالصتان“ کیلئے کئی دہائیوں سے جدوجہد کر رہے ہیں۔
رہی بات تحریک آزادی کشمیر کی، تو اسے بھی کسی صورت نہیں دبایا جا سکتا۔ بھارت نے اپنی افواج کے ذریعے جموں و کشمیر میں ہر ظلم کر کے دیکھ لیا مگر وہ آزادی کی اس تحریک کو نہیں دبا سکتا۔ انشاءاللہ کشمیر کو ایک دن آزاد ہونا ہے ۔1948ءمیں آزادی کی جو تحریک کشمیریوں نے شروع کی اُسے بالآخر اپنی منطقی منزل تک پہنچنا ہے۔
اے کشمیر! تیری جنت میں آئیں گے اِک دن
٭....٭....٭