جمعرات‘ 2؍ جمادی الثانی ‘ 1440 ھ ‘ 8 ؍ فروری 2019ء
نوازشریف کی پی آئی سی کی بجائے جیل جانے کی خواہش پوری ہو گئی
عجیب قیدی ہے جو خود جیل جانے کا خواہشمندتھا۔ لگتا ہے میاں جی کا دل جیل میں لگ گیا ہے اور وہ اسی لئے وہاں جانے پر بضدرہے۔ انہیں جیل کا امن و سکون بھا گیا ہوگا اور وہ …؎
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے
والا ماحول چاہتے ہیں مگر کیا انہیں یاد نہیں رہا کہ وہ دل کے مریض بھی ہیں۔ اسی لئے حکومت انہیں علاج کی غرض سے امراض قلب کے ہسپتال میں داخل کرانا چاہتی ہے مگر میاں جی بھی بچوں والی ضد پر اڑے رہے۔ حکومتی ترجمان نے انہیں یاد کرایا ہے کہ وہ اول تو قیدی ہیں دوئم بیمار۔ اب یہ حکومت کی مرضی ہے کہ وہ انہیں کہاں رکھے۔ جیل میں یا ہسپتال میں۔ بھلا قیدی کی مرضی کب چلتی ہے۔ ہونا تو وہی ہے جو حکومت چاہے گی۔ سو اسی لئے میاں صاحب کے انکار پر انہیں پی آئی سی کی بجائے سروسز ہسپتال میں ہی رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ کسی صورتحال میں ڈاکٹر تو موجود ہوں مگر میاں صاحب کی ضد کے آگے سب ہار گئے۔ اب میاں صاحب واپس جیل پہنچ چکے ہیں۔ ان کے وکلاء اور جماعت والوں کی پرزور فرمائش اور خواہش ہے کہ عدالت انہیں بیرون ملک علاج کی اجازت دے۔ منہ پھٹ مخالفین تو پہلے ہی ڈیل یا ڈھیل کے پس منظر میں ان کی بیرون ملک روانگی پر شرطیں بھی لگا چکے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ آگے کون سا منظر سامنے آتا ہے۔
=…=…=
لاہور میں پینے کے پانی سے گاڑی دھونے پر 500 روپے کا پہلا چالان
پینے کے صاف پانی سے گاڑیاں دھونے پر واسا کی طرف سے پابندی لگائی جا چکی ہے۔ مگر ہمارے ہاں کون پوچھتا ہے کہ سنہری اصول پر چلنے والے بھلا کب کسی کی سنتے ہیں ۔ان کا تو مشغلہ ہی سرکاری احکامات اور پابندیوں کو ہوا میں اڑانا بن چکا ہے۔ سو پابندی کے باوجود لاہور کیا پورے پنجاب میں بلکہ ملک بھر میں کھلے عام سرکاری نلکوں کے پانی سے گاڑیاں‘ صحن‘ گلیاں تک دھوئی جاتی ہیں۔ لان اور کیاریوں کو پانی دیا جاتا ہے۔۔ کس نے پوچھنا ہے۔ ایک طرف پورے ملک میں ہاہا کار مچی ہے کہ ملک میں صاف پانی یعنی پینے کے پانی کی قلت ہو رہی ہے۔ جلد ہی کھیتوں کو سیراب کرنے والا پانی بھی ختم ہو جائے گا۔ ڈیم ہم نہیں بنا رہے‘ بنانے کی بجائے اڑانے پر زیادہ توجہ رکھتے ہیں۔ ان حالات میں کم از کم پانی کا ضیاع روک کر ہم خشک سالی کی شدت میں کمی تو لا سکتے ہیں۔ سو اب ضروری ہو گیا ہے کہ واسا کی چھاپہ مار ٹیمیں گلی محلوں میں گشت کریں اور دیکھیں جہاں بھی صاف پانی ضائع ہو رہا ہے۔ فوری طور پر انہیں چالان کی رسید تھما دیں۔ جو غنڈہ گردی پر اتریں ان کا کنکشن کاٹ دیا جائے تاکہ ان کے ہوش ٹھکانے آ سکیں۔ اب خدا کرے پانچ سو روپے کا چالان بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو اور اس کے بعد چالانوں کی برسات ہو جائے۔ اس طرح اور کچھ نہیں تو واسا والے قومی آمدنی میں اضافے کا ذریعہ بن جائیں ۔ اب واسا والوں کو چاہئے کہ وہ کمائو پوت بن کر دکھائیں۔ یہ نہ ہو کہ چالان کی بجائے دو سو روپے یا رشوت لیکر خاموشی سے واپس آ جائیں۔
=…=…=
امریکی شہری نے ایک کروڑ باون لاکھ روپے کے عوض مارخور کے شکار کا لائسنس لے لیا
اس پر چلیں حکومت کے حالی موالی کہہ سکیں گے کہ حکومت نے مالی اور معاشی استحکام کیلئے نایاب جنگلی جانوروں کے شکار کی اجازت دی ہے۔ مگر کیا ایک کروڑ باون لاکھ خرچ کرکے بھی حکومت ایک مارخور پیدا کر سکتی ہے۔ یہ پاکستان کا قومی جانور ہے۔ اس کی آبادی پہلے ہی بہت کم ہے۔ بلند و دشوار پہاڑوں پر یہ جانور نہایت مشکل اور ناسازگار ماحول میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اوپر سے ناجائز اور جائز طریقے سے یعنی قانونی اور غیرقانونی طریقے سے اس کا شکار بے دردی سے ہو رہا ہے۔ شکار کے شوقین چند روپے دیکر یا چھپ کر اس نایاب جانور کی نسل کشی کرکے اس کا وجود مٹا رہے ہیں۔
یہ امریکی بڑا صاحب ذوق نکلا کہ اس نے کم از کم ایک معقول رقم کے عوض مارخور شکار کرنے کی اجازت لی ہے ورنہ چند ہزار دیکر بھی وہ یہ شوق پورا کر سکتا تھا جس طرح باقی پاکستانی نودولتیئے کرتے ہیں۔ اب یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ انہیں کتنے مارخور شکار کرنے کا لائسنس ملا ہے۔ یہ نہ ہو کہ وہ اس رقم کے عوض سارا علاقہ ہی مارخوروں سے خالی کردے۔ چولستان میں عرب شہزادے تلور کا شکار کرتے ہیں مگر وہاں انہوں نے تلور کی افزائش کے فارم بھی کھولے ہیں وہ بھی بھاری نہ سہی معمولی رقم دیکر شکار کا شوق پورا کرتے ہیں۔ اب اس امریکی شکاری کی رقم سے کیا ہی اچھا ہو کہ مارخوروں کی افزائش نسل کا بھی فارم کھولا جائے تاکہ ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہو۔۔۔۔۔
=…=…=
وزیراعظم کی کفایت شعاری مہم‘ پی سی بی میں 60 لاکھ روپے پر تین افسر بھرتی
وزیراعظم کے احکامات اپنی جگہ‘ اچھی بھاری بھرکم تنخواہوں پر افسر بھرتی کرنا اپنی جگہ‘ آخر ان سے پہلے بھی جو یہاں ان سیٹوں پر کام کر رہے تھے‘ وہ کوئی کابلی چنے کھا کر سادہ پانی پی کر تو گزارا نہیں کر رہے تھے جو یہ بے چارے نئے بھرتی ہونے والے افسران نان جویں کھا کر سادہ پانی پی کر یہاں اپنی صلاحیتیں ضائع کریں۔ پی سی بی والے ویسے ہی دیالو ہیں‘ ان کی نظرکرم جس پر پڑتی ہے‘ اسے لاکھ پتی بنانے پر تل جاتے ہیں۔ اب یہ جو افسران ہیں‘ تو وہی مالدار آسامیاں ہیں۔ سچ کہتے ہیں مایا کو ملے مایا کر کر لمبے ہاتھ۔ سو اب یہاں بھی نئے ایم ڈی اور ڈائریکٹر میڈیا کو ملنے والی تنخواہ پی سی بی کے تمام افسران کو ملنے والی تنخواہوںکا 75 فیصد بنتی ہے۔ ہے ناں تعجب کی بات۔ یہ سب بھاری تگڑی سفارش کے کرامات ہیں۔ ایک اور سابق بیورو کریٹ کو بھی لاکھوں روپے پر رکھا گیا ہے۔ ان تقرریوں سے لگتا ہے پی سی بی والوں کو ابھی تک وزیراعظم کے کفایت شعاری پروگرام سے آگاہ نہیں کیا گیا ہے یا وہ اس انتظار میں ہیں کہ کب عدالتیں انہیں بلا کر پوچھیں گی کہ وہ آخر کس بات کی اتنی بھاری تنخواہ لے رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ یہ نوبت آئے‘ انہیں خود ہی بندوبست کرلینا چاہئے۔ صرف یہ بہانہ نہیں چلے گا کہ ان کو ان کی انٹرنیشنل صلاحیتوں کے مطابق مراعاتی پیکیج دیا جا رہا ہے حالانکہ اتنی تنخواہ میں تو کئی ماہر پاکستانی ہائر کئے جا سکتے تھے۔ آخر افسروں کو کونسے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں۔