صاحبو! جمہوریت کو اس لئے بھی پسند کیا جاتا ہے کہ اس نظام میں عام آدمی کے شامل اقتدار ہونے کا تصور موجود ہے یہ نظام عوامی اور ملکی مفادات کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ ملکی سلامتی اور تعمیر و ترقی اس کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ یہ نظام خودغرضانہ سوچ کی نفی کرتا ہے اور مفاد عامہ کا دعوے دار ہے۔ یہ نظام سیاسی قیادت کو برداشت کا درس دیتا ہے اور قوم و ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لئے سیاسی حکمت عملی اپنانے کی راہ دکھاتا ہے کہنے کو تو آج ہمارے ہاں بھی جمہوریت کا راج ہے مگر سیاسی قیادت کو ذاتی اغراض و مقاصد کے لئے لڑتے جھگڑتے دیکھا جا سکتا ہے اور یہاں سیاسی سرگرمیاں دھرنوں کی صورت میں سڑکوں پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔
سیاسی قیادت کے بیانات سے خودغرضی جھلک رہی ہوتی ہے۔ سیاست دان ایک دوسرے کے لئے جو زبان استعمال کرتے ہیں اور جو لب و لہجہ اختیار کئے ہوئے ہیں اسے جمہوری طرز سیاست نہیں کہا جا سکتا۔ یہ جمہوری تماشہ میڈیا پر ہر روز دیکھنے کو ملتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اختلاف رائے کو جمہوریت کا حسن ہے۔ ہاں‘ اگر اختلافات جمہوری قانون و قاعدے کے دائرے میں ہوں اور جمہوری تقاضوں کو پورا کرنے کی غرض سے ہوں تو یقیناً اختلاف رائے کو جمہوریت کا حسن کہا جا سکتا ہے تو یہ بات دیکھنی ہو گی کہ کیا آج جمہوری قیادت کی سرگرمیاں جمہوری اصولوں کے مطابق ہیں پھر یہ کہ جمہوری سسٹم سیاسی قیادت سے تقاضہ کیا کرتا ہے۔ جمہوری سسٹم کا پہلا تقاضہ تو یہی ہو سکتا ہے کہ ملک و قوم کی بہتری کے لئے قانون سازی کاعمل جاری رہے جس کے لئے قومی اتفاق اور اتحاد کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے بعد جمہوری حکومت ملک و قوم کی بھلائی کے لئے اقدامات اٹھانے کی منصوبہ بندی کرے تاکہ ملک مضبوط عوام خوش اور خوشحالی ہوں۔ جمہوری حکومت ملک میں قیام امن کو ممکن بنائے تاکہ ملک میں بے یقینی کی فضا پروان نہ چڑھ سکے۔ ملک میں مثالی نظام عدل قائم ہو تاکہ عوام کو انصاف اور ان کے حقوق ملتے رہیں جمہوری حکومت عوام کو سہولیات فراہم کرنے کی تگ و دو جاری رکھے۔ ملکی معیشت مضبوط ہو تاکہ حکومت دنیا بھر میں کشکول اٹھائے نہ پھرے اور اسے ڈو مور کے تقاضوں کا سامنا نہ ہو۔ ملک سے مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ ہو نوجوانوں کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق روزگار ملے تاکہ نوجوان مایوسی کی دلدل کی طرف نہ بڑھیں۔ نظام تعلیم اور طب کے شعبہ پر حکومت کی خصوصی توجہ ہو کیونکہ تعلیم اور صحت انسان کی بنیادی ضروریات میں شامل ہیں ملک بھر میں میرٹ کو اہمیت حاصل ہو تاکہ کرپشن پر قابو پانے میں مدد ملے۔ ملک کا دفاع مضبوط ہو سفارتی اور خارجہ محاذ ہر وقت چوکس ہو تاکہ دشمن کی چالوں کا بروقت مقابلہ کیا جا سکے۔ دوسری بات یہ کہ جمہوری سسٹم سیاسی قیادت کو پارلیمنٹ کا پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے جہاں سیاسی قیادت بیٹھ کر ملک و قوم کی بہتری کے لئے قانون سازی کرتی ہے عوام کا مستقبل بہتر بنانے کے لئے منصوبے بناتی ہے اس پلیٹ فارم پر اختلافی معاملات بھی زیر بحث آتے ہیں منتخب اراکین کو یہ معاملات آئین کی روشنی میں گفتگو کے ذریعے سلجھانے ہوتے ہیں اس سارے عمل میں بنیادی بات ذاتی مفادات نہیں بلکہ قومی مفادات کا تحفظ ہوتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہمارا ملک جمہوری حکمت عملی کے تابع آگے بڑھ رہا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں ہماری یہ قیادت ہی پارلیمنٹ کو احترام نہ دیتی ہو یہاں آنا تک گوارا نہ کرتی ہو؟ جو قیادت حصول اقتدار اور اختیارات کے لئے ہر وقت بے تاب ہو یہاں سے تنخواہیں اور مراعات لینا نہ بھولتی ہو قائدین اس پلیٹ فارم پر بھی لعنت بھیجتے ہوں صدقے جاؤں اس جمہوریت پسندی پر۔
پانچواں درویش پھر بولا آج ملک جن حالات سے دوچار ہے چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ساتھ درندگی کے جو واقعات ہو رہے ہیں۔ اسے دیکھتے ہوئے اس بات کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ پاکستان کے نظام میں بہتری لانے کی اشد ضرورت ہے۔ خصوصاً نظام عدل پر خصوصی توجہ دئے جانے کی ضرورت ہے۔ لگتا ہے اب نواز شریف کوا س ضرورت کا ادراک ہو چکا ہے یہ بات کون نہیں جانتا کہ نواز شریف کئی دفعہ وزیراعظم بن چکے ہیں پچھلے انتخابات میں انہیں بھاری مینڈیٹ ملا تاکہ سسٹم کو درست کرنے میں انہیں کسی دشواری کا سامنا نہ ہو۔ انہیں نااہلی کے بعد وزارت عظمیٰ چھوڑنا پڑی اب یہ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا۔ آج کل نواز شریف اور ان کی صاحبزادی اداروں پر برس رہے ہیں عدلیہ خاص طورپر ان کے نشانے پر ہے۔ مان لیتے ہیں انہیں انصاف نہیں ملا یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس ملک میں نواز شریف جیسے طاقتور آدمی کو انصاف نہیں ملا اس ملک میں عام آدمی کا کیا حال ہو گا اسے کون انصاف دلائے گا؟
نون لیگ کو قوم نے بھاری مینڈیٹ کیوں دیا تھا؟ سسٹم درست کرنا کس کی ذمہ داری تھی؟ جب تک تمہیں نہیں نکالا گیا تم چپ رہے اس عرصے میں عوام پر جو بھی ظلم ہوتے رہے اس کا کون حساب دے گا؟ یہ جو زینب والا کیس سامنے آیا ہے کیا قصور میں یہ پہلا واقع تھا؟ اگر پہلے واقعہ پر ملزم پکڑا جاتا تو نوبت یہاں تک کیوں پہنچتی؟ ملک بھر میں ایسے واقعات ہوئے ان کے پیچھے کیا اسباب تھے یہ بات جاننے کی کوشش کی گئی؟ نہیں تو کیوں؟ اب تو عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہو چکا تھا وہ اٹھ کھڑے ہوئے سوشل میڈیا اور میڈیا بھی میدان میں کود پڑا ایسے میں پنجاب پولیس نے خوب فرض نبھایا احتجاج کرتے عوام پر بھی گولیاں برسا دیں جس سے دو آدمی لقمہ اجل ہوئے۔ تب حکمرانوں کی آنکھیں کھلیں خادم پنجاب بھی متحرک نظرآئے مگر زینب کے والد آرمی چیف اور عدلیہ کی طرف دیکھ کر حکومتی کارکردگی پر کھلا عدم اعتماد کا اظہار کر رہے تھے۔ یہ بات بھی دکھی کر دینے کے لئے کافی تھی کہ سیاسی قیادت ایسے موقعہ پر بھی اپنی سیاسی دکانداریاں چمکانے کی فکر میں نظر آئی۔ جب ملزم پکڑا گیا پھر وزیراعلیٰ نے ایک میلے (پریس کانفرنس) کا انعقاد ضروری سمجھا جس میں اظہار ندامت کی بجائے اہلکاروں کو داد دینے کے لئے تالیاں بجائی گئیں پاکستان کی بیٹی کے ساتھ درندگی کے واقعہ پر حاکم وقت کی موجودگی میں تالیاں بجائی گئی ہوں صدقے جاؤں اس سیاسی قیادت کے‘‘