پیپلز پارٹی آزاد کشمیروصوبے بھر سے لاہور امڈ آئی
فرخ سعیدخواجہ
عرصہ دراز کے بعد پنجاب صوبائی درالحکومت لاہور کی تاریخی جلسہ گاہ موچی دروازہ کی سیاسی رونقیں لوٹ آئی ہیں۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کی تمام تر کوششوں کے باوجود ان کا جلسہ کمزور رہا لیکن کم از کم اتنا تو ہوا کہ آزاد کشمیر اور پنجاب کے شہروں گوجرانوالہ، گجرات، منڈی بہاوالدین، فیصل آباد، جھنگ سمیت دیگر چھوٹے بڑے شہروں سے پیپلز پارٹی اپنے کارکنوں کو لاہور کی جلسہ گاہ تک کھینچ لائی۔ سنٹرل پنجاب کے صدر قمر الزمان کائرہ کا یہ کارنامہ ہے کہ وہ موچی دروازہ میں جلسہ منعقد کرنے کا خطرہ مول لینے کی جسارت کر پائے۔ آزاد کشمیر پیپلز پارٹی کے صدر چوہدری لطیف اکبر اور ان کے سابق عہدیداروں نے بھی سنٹرل پنجاب کے تنظیمی عہدیداران کی طرح کارکنوں کو ٹرانسپورٹ فراہم کر کے لاہور کے جلسہ عام کو غیر فعال ہونے سے بچانے میں اپنا حصہ ڈالا۔ قیام پاکستان سے پہلے موچی دروازہ کی جو جلسہ گاہ تھی اب اس کا ایک تہائی حصہ باقی رہ گیا ہے۔ اردگرد کی تجاوزات اور بغرض جلسہ بیٹھنے کے لئے سیڑھیوں کی تعمیر سے اس میں لوگوں کے سمانے کی گنجائش بھی کم پڑ چکی ہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے کہ موچی دروازہ کی جلسہ گاہ کے باہر مرکزی سڑک پر پیپلز پارٹی کا آخری جلسہ عام جس میں شہید بے نظیر بھٹو نے خطاب کیا تھا الیکشن 1997ء میں منعقد ہوا تھا،لیکن یہ جلسہ اس جلسے سے بہت بڑا تھا جس میںبہت بڑی تعداد میں شریک لوگ ’’مسجد شب بھر‘‘ واقع شاہ عالمی دروازے تک موجود تھے، جہاں سڑک کے دونوں اطراف بھیڑتھی۔
ماضی میں موچی دروازہ کی جلسہ گاہ کا حسن یہ تھا کہ متعلقہ سیاسی جماعت کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی جلسہ سننے آیا کرتے تھے جبکہ جلسوں کے شوقین لاہوریوں کی بڑی تعداد مقررین کے خیالات سے محفوظ اور چسکا لینے کے لئے بھی موجود ہوتی تھی ۔ اس دور میں سکیورٹی نام کی بلا موجود نہیں تھی نہ ہی واک تھرو گیٹ، جامہ تلاشیاں ہوتی تھیں نہ کنٹینرز لگا کر راستے مسدود کئے جاتے تھے۔ بہر حال 5 فروری کے جلسہ میں پیپلز پارٹی لاہور کے صدر حاجی عزیزالرحمان اور سابق صدر چوہدری اسلم گل سمیت زونل صدور نے رونق میلہ بڑھانے کے لئے اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ پیپلز پارٹی کے ترانوں میں ایک نیا ترانہ شیروں کا شکاری آصف زرداری خاصا مقبول رہا۔ لگتا یوں ہے کہ پیپلز پارٹی صرف نواز شریف کو ٹارگٹ کر کے خود کو عمران خان سے بڑی اپوزیشن ثابت کر نے کے لئے کوشاں ہے۔ جلسہ عام میں سابق وزراء اعظم سید یوسف گیلانی، راجہ پرویز اشرف، سابق چیئرمین سینٹ سید نیّرحسین بخاری، اعتزاز احسن، سید خورشید شاہ، میاں منظور وٹو، سابق صدر آزاد کشمیر سردار محمد یعقوب، پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے صدر چوہدری لطیف اکبر، قمر الزمان کائرہ، فیصل صالح حیات، چوہدری منظور، نوید چوہدری، حاجی عزیز الرحمن چن، چوہدری منور انجم۔ بلند و بالا سٹیج پر اپنے لیڈر آصف زرداری کے ساتھ موجود تھے۔
کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا سلسلہ قیام پاکستان کے بعد سے جاری ہے۔ 1990ء میں امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے جب 5 فروری کی کال دی اس وقت نواز شریف صوبے کے وزیر اعلیٰ تھے ۔ پھراس اپیل پر مرکزی اور صوبائی تمام حکومتوںاور تمام مکاتب فکر نے مل کر قومی سطح پریوم یکجہتی کشمیر منایا۔ پچھلے 28 سال سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں 5 فروری کو کشمیریوں سے یکجہتی کے دن کی حیثیت سے منایا جاتا ہے۔ اس برس بھی جماعت الدعوۃ کے زیر انتظام دفاع پاکستان کونسل کی مال روڈ پر استنبول چوک میں کشمیر کانفرنس منعقد ہوئی جسے لاہور میں ہونے والے تمام جلسوں اور ریلیوں میں اس لئے اہمیت حاصل رہی کہ دختر کشمیر آسیہ اندرابی نے بھی اس میں حاضرین سے ٹیلی فونک خطاب کیا۔ جبکہ حاضری کے لحاظ سے بھی یہ لاہور کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔ مسلم لیگ نے الحمراہ ہال سے چیئرنگ کراس تک ریلی نکالی جس میں وفاقی وزارء خواجہ سعد رفیق، پرویز ملک، صوبائی وزیر خواجہ عمران نذیر لارڈ میئر کرنسل ہے مشیر جاوید، وزیراعلیٰ کے مشیر خواجہ احمد حسان، حمزہ شہباز کے پولیٹیکل سیکرٹری سید توصیف شاہ، ممبران قومی اسمبلی مہر اشتیاق، وحید عالم خان، شائستہ پرویز ملک، کرن ڈار، ممبران پنجاب اسمبلی میاں مرغوب، چوہدری شہباز، رمضان صدیق بھٹی، ڈاکٹر فرزانہ نذیر، نسرین نواز، فرزانہ بٹ، رخسانہ کوکب، شہزادی کبیر، راحیلہ خادم حسین، ڈپٹی میئر چوہدری اللہ رکھا، رانا اعجاز حفیظ، میاں طارق، سواتی خان، چوہدری بلال، وسیم قادری، رائو شہاب الدین، عامرخان و دیگر نمایاں تھے۔ ریلی کے اختتام پر قائدین ریلی نے دھواں دھار تقاریر کیں۔ کشمیر کانفرنس ہو یا مسلم لیگ ن لاہور کی ریلی ان میںایک ہی نعرہ گونجتا رہا ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ جماعت اسلامی نے سیٹیٹ بنک سے الفلاح بلڈنگ تک ریلی نکالی جس کی قیادت پارٹی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کی۔ این اے 120 میں 544 ووٹ حاصل کرنے والی جماعت اسلامی کی ریلی کے شرکاء کی تعداد 7 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کرنے والی تحریک لبیک یا رسول اللہ سے زیادہ تھی۔ پی ٹی آئی آزاد کشمیر کے سیکرٹری جنرل و ممبران قانون اسمبلی آزاد کشمیر دیوان غلام محی الدین نے پچھلے سالوں کی روایت برقرار رکھتے ہوئے چیئرنگ کراس پر مظلوم کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے کیمپ لگایا ۔جس میں پی ٹی آئی کے رہنما چوہدری سرور، چوہدری اعجاز، میاں محمود الرشید، ڈاکٹر یاسمین راشد، عندلیب عباس، فرخ جاوید مون، عامر شیخ، ولید اقبال، میاں حماد اظہر، سعدیہ سہیل، شنیلا راوت و دیگر موجود تھے۔ جمعیت علماء اسلام ف کے امیر اور کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن کی اپیل پر جے یو آئی نے کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کیلئے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا محمد امجد خان کی قیادت میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ کشمیر نوجوان کی فعال تنظیم ٹروتھ فار کشمیر کے زیر اہتمام پنجاب اسمبلی پریس کلب تک ریلی نکالی گئی جس کی قیادت سابق چیئرمین سینٹ میاں محمد سرور اور طارق احسان غوری نے کی۔صبح سویرے سے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لئے انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنانے سے لے کر ریلیاں، تقریبات، سیمینار منعقد کرنے اور کیمپ لگانے سمیت احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ نماز مغرب کے بعد تک جاری رہا۔ پاکستانیوں کی اہل کشمیر سے محبت کے ان مظاہروں میں ایک ہی خواہش جھلکتی دکھائی دی کہ کشمیریوں کو حق خودار ادیت ملے جس سے وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکیں۔