سری لنکا کیساتھ تعلقات مزید مستحکم
اورنگ زیب علی خان
سری لنکا ہمارا دوست ملک ہے اس کے ساتھ تعلقات مزید مستحکم ہورہے ہیں۔جس کے لئے دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح کے وفود کے تبادلے ہوتے رہتے ہیں۔یوں تو بہت سے ممالک ہیں جو اپنے آپ کو انسان دوست کہلاتے ہیں لیکن اصل میں انسان دوست بحر ہند میں بھارت کے جنوبی اور مشرقی ساحل کے قریب ایک جزیرہ سری لنکا ہے جس نے یہ عملی طور پر ثابت کر دیا ہے کہ جو اہم خدمت انجام دے رہا ہے اس کا نہ کوئی صلہ دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کے لیے شکریہ کے الفاظ دنیا کے پاس موجود ہیں۔یہ ہے آنکھوں کا وہ عظیم عطیہ جو اب تک بے شمار افراد کو زندگی کی خوشیاں لوٹا چکا ہے ۔ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ سری لنکا میں جب ایک چراغ بجھتا ہے تو دنیا میں دو چراغ روشن ہوتے ہیں۔
سری لنکا کی اکثریت سنہالی نسل کی جو بدھ کے پیروکار ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ ان کے مذہبی پیشوا گوتم بدھ نے پچھلے جنم میں ایک نابینا کے لیے اپنی آنکھوں کا عطیہ دیا تھا۔سری لنکا جس نے چار فروری کو اپنا قومی دن منا یا ہے اصل میں ناشپاتی کی شکل کا ایک جزیرہ ہے۔ اس کا رقبہ 65610 کلومیٹر ہے اس جزیرے کا دو تہائی حصہ ہموار میدان جبکہ جنوب میں زمین کی سطح بلند پہاڑی چوٹیاں بھی نظر آتی ہے سب سے بلند پہاڑی 2524فٹ ہے کولمبو کا اوسطاً درجہ حرارت 16 ڈگری سینٹی گریڈ ہے ارد گرد پہاڑوں پر دنیا کی عمدہ ترین چائے کے باغات ہیں۔سری لنکا سیاحت کے لحاظ سے ایک بے حد مقبول ترین جزیرہ ہے کیونکہ یہاں بدھ مت کے قدیم اور تاریخی کم و بیش سولہ مقدس مقامات موجود ہیں شاید اسی لیے ہر سال 3 لاکھ سے زائد سیاح سری لنکا آتے ہیں۔ سیاحوں کے لیے یہاں ایک دلچسپ کوہ آدم ہے جہاں پتھر پر ایک نقش موجود ہے اس نقش کے بارے میں جو پانچ فٹ لمبا ہے مسلمانوںکا عقیدہ ہے کہ یہ حضرت آدمؑ کے قدم کا نشان ہے جبکہ اہل بدھ مت اس کو سری بدھا یعنی گوتم بدھ کے پائوں کا نشان کہتے ہیں، اس طرح ہندومت بھی اس کو عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔سری لنکا کی قدیم تاریخ25صدیاں پرانی ہے اور اس قدیم ورثے میں ایک قدیم درخت سری مہابدھی ہے، کہتے ہیں کہ یہ درخت اسی ٹہنی سے اگا ہے جس کے سائے میں مہاتمابدھ کو گیان حاصل ہوا تھا بدھ مت کے پیروکاراس کو بڑی عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور سیاح بھی اس درخت کو ضرور دیکھنے کے لئے آتے ہیں اس طرح سری لنکا کا دوسرا بڑا جزیرہ کینیڈی ہے۔ یہاں بہت سے تاریخی مقامات ہیں ان میں سب سے مشہور جگہ مہاتمابدھ کی ہزاروں سال پرانی عبادت گاہ ہے اس کو ہاتھی دانت کی عبادت گاہ کہتے ہیں۔سری لنکا قدیم زمانے میں پیروبانے کے نام سے موسوم تھا۔ یہ ایک لفظ یونانی لفظ کاپر سے نکلا ہے جس کے معنی تانبے کے ہیں اس زمانے میں یہاں کے باشندوں کا رنگ تانبے سا تھا، بعد میں عربوں کے ساتھ تعلقات قائم ہوئے تو اس جزیرے کو سراندیپ کا نام دیا گیا لنکا یا سیلون رکھا گیا اورجو آزادی کے بعد سری لنکا قرار پایا۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش سے تقریباً پانچ سو سال قبل جنوبی ہند کے باشندوں کی مقامی حکومتیںقائم تھیں۔ سری لنکا کی ساحلی پٹی پر مسلمان آٹھویں صدی سے آباد ہیں اور ان میں عربوں کی خاصی تعداد ہے جو تجارت کی غرض سے یہاںآ کرآباد ہوئی۔ اب سری لنکا میں بارہ لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں اور یہ اس ملک کی دوسری سب سے بڑی اقلیت ہے۔ مسلمان سری لنکا میں سنہالیوں اور تامل کے بعد تیسری بڑی آبادی ہیں ان کی تعداد بارہ لاکھ سے زائد ہے اب تو ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے ایک سیاسی جماعت ’’مسلم کانگریس‘‘ بھی بن گئی ہے۔ مسلمانوں کے مذہبی امور اور ثقافت کے لئے علیحدہ وزارت ہے اور نگران وزیر بھی مسلمان ہے اس لئے سری لنکا کا ہر بڑا شہر اور گائوں جہاں مسلمان آباد ہیں کم ازکم ایک مسجد ضرور موجود ہے، یہاں مساجد کی تعداد15ہزار سے زیادہ ہیں۔سری لنکا میں مسلمانوں کے شخصی قوانین نافذ ہیں اور ملک میں 30 کے لگ بھگ قاضی شرعی عدالتیں قائم ہیں۔ قرآن شریف کا ترجمہ سنہالی میں کیا جاچکا ہے اس طرح ملک کے ہر بڑے شہر اور مسلمان آبادی کے دیہاتوں میں قرآنی مدارس بھی قائم ہیں جن کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔ مسلمان بچیوں کے لئے علیحدہ علیحدہ سرکاری مسلم سکول قائم ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً 70 عربی کالج ہیں ، ان میں خواتین کا بھی ایک عربی کالج بھی ہے۔
سری لنکا میں یورپی آباد کاروں کی یلغار1505ء میں سے شروع ہوئی۔ سب سے پہلے پرتگال نے جزیرے کے ایک حصے پر قبضہ کیا1658ء میںہالینڈ نے اس کے ایک علاقے پر قبضہ کیا مگر1796ء میں انگریزوں نے پر تگالیوں کو بے دخل کر کے سری لنکا کو اپنی نو آبادی بنا لیا۔ انہوں نے یہاں قتل وغارت کا سلسلہ کینڈی بادشاہت کے خاتمہ تک جاری رکھا اوراس کا نام ’’سیلون‘‘ رکھ دیا۔ 1915ء کو باد شاہت کا خاتمہ ہوا اور یوں چار فروری 1948ء کو اس جزیرے کو آزادی ملی۔ اب ملک کی آبادی ایک کروڑ نوے لاکھ سے زیادہ ہے مردوں اور عورتوں کا تناسب تقریباً برابر ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کی آبادی کا 46 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی عمر 20سال سے کم ہے۔ شرح خواندگی 93فیصد ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہاں پرائمری سے یونیورسٹی تک تعلیم مفت ہے۔ اس کے علاوہ غریب بچوں کو سکولوں میں مفت خوراک اور لباس بھی مہیا کیا جاتا ہے۔ملک کی 74فیصد آبادی سنہالی نسل اور 18فیصد تامل نسل اور 8فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے سنہالی اکثریت بدھ مت کے پیروکار جبکہ تامل ہندوہیں۔ سنہالی ملک کی سرکاری زبان ہے لیکن تامل اور انگریزی بھی عام بولی جاتی ہے۔سری لنکا میں صحافت کو بھی مکمل آزادی حاصل ہے۔ یہاں دو قسم کے اخبارات ہیں ایک وہ جو حکومت خود چلاتی ہے اور دوسرے جوآزاد ہیں۔