افغانستان میں امریکی و نیٹو افواج کو درپیش صورتحال‘ ٹرمپ کی افغانستان سے متعلق پالیسی کے اعلان کے بعد پالیسی کو واضح کرنے کیلئے امریکی حکام کے متضاد بیانات ‘ افغانستان میں ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالتے ہوئے پاکستان کو امریکہ کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں اور پاکستان کیلئے ہر طرح کی امداد بند کرنے جیسے امریکی اقدامات کے ساتھ ہی مشرق میں بھارت کی طرف سے بڑھتی ہوئی اشتعال انگیزیاں ظاہر کرتی ہیں کہ امریکہ افغانستان میں مستقل قیام کا ارادہ تو رکھتا ہے لیکن امریکی حکومت کے پاس وہاں قیام امن کیلئے کوئی قابل عمل منصوبہ نہیں جس نے خطے کی ساری صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ داخلی تنقید اور کانگرس میں افغانستان میں ناکامیوں سے متعلق پوچھے جانیوالے سوالات کے بعد امریکی فوج بجائے بات چیت کے افغان مزاحمت کاروں سے جاری بھرپور جنگ کا تاثر دینے کیلئے وہاں وحشیانہ بیماری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور راگ پاکستان کے سرحدی قبائلی علاقوں میں چھپے ہوئے حقانی نیٹ ورک کے ان جنگجوؤں کا الاپا جا رہا ہے جو نہ جانے کب پاک افغان سرحد سے گزر کر افغانستان میں داخل ہوتے ہیں۔ وہاں اپنی مرضی کے اہداف کو نشانہ بناتے ہیں اور کامیابی سے کارروائی مکمل کرنے کے بعد پاکستان میں واپس آ کر اپنے محفوظ ٹھکانوں میں روپوش ہو جاتے ہیں۔ یہ پروپیگنڈا امریکی میڈیا اور اس کے دفاعی تجزیہ کار اس خوبصورتی سے کرتے ہیں کہ جسکے بعد کوئی نہیں پوچھتا کہ زمین پر گھاس میں چھپی سوئی کو ڈھونڈ نکالنے والے امریکی خلائی سیارچے جو رات کے اندھیرے میں بھی انسانی جسم کی حرارت کی بدولت انہیں نہ صرف دیکھ سکتے ہیں بلکہ ان کی نقل و حرکت کی نگرانی بھی کر سکتے ہیں تو یہ امریکی جاسوس سیارچے حقانی نیٹ ورک کے جنگجوؤں کی افغانستان میں داخلے کے وقت نشاندہی نہیں کرتے۔ انہیں نشانہ کیوں نہیں بناتے؟ کوئی نہیں کہتا کہ افغان حدود میں سرحد کی نگرانی کی ذمہ داری پاک فوج پر نہیں۔ امریکی فوج یا ان کی تربیت یافتہ افغان نیشنل آرمی پر عائد ہوتی ہے۔ حالانکہ پاکستان کی طرف سے بارڈر مینجمنٹ اور افغان سرحد پر سکیورٹی کے سخت انتظامات سے امریکی میڈیا ہو یا اسٹیبلشمنٹ سب آگاہ ہیں لیکن انکی اپنی ناکامیوں کو پاکستان سے ’’ڈومور‘‘ کے مطالبے میں چھانے کی عادت ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی‘‘ جبکہ حقائق سے متعلق امریکہ کی مسلسل انکار کی پالیسی اور بات چیت کی بجائے طاقت کے ذریعے امن قائم کرنے کیلئے اعلان کردہ امریکی حکمت عمل نے کابل کے درودیوار ہلا دئے ہیں۔
چند دن کے وقفے میں کابل کے انتہائی محفوظ سمجھے جانیوالے علاقوں میں پہلے افغان حکومت کے ملکیتی پانچ ستاروں والے ہوٹل میں داخل ہو کر دہشتگردوں نے 17 گھنٹوں تک فائرنگ اور دھماکوں کے ذریعے تباہی مچائے رکھی اس حملے میں کتنے افراد جان سے گئے۔ مقامی افراد کی تعداد کیا تھی۔ مارے گئے غیر ملکی کتنے تھے ؟تا حال یہ تفصیل منظر عام پر نہیں لائی گئی۔ ہوٹل کے ان 2 خاص کمروں میں کس ملک کے اہم مہمان مقیم تھے جنہیں دہشت گردوں نے سب سے پہلے نشانہ بنایا؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ دہشت گرد اتنی حساس نوعیت کی عمارت میں کس طرح داخل ہونے میں کامیاب ہوئے؟ کیا انہیں ہوٹل کے سکیورٹی کے ذمہ داران کی مدد حاصل تھی؟ دہشت گردوں کی طرف سے نشانہ بنائے گئے 2 کمروںکے مکینوں کی معلومات دہشت گردوں تک کیسے پہنچیں اور افغان حکومت کے مختلف نمائندگان کی طرف سے ہوٹل میں مارے گئے افراد کی تعداد کے حوالے سے دئے گئے بیانات میں تضاد کیوں ہے؟امریکہ و افغان حکومت کی طرف سے کابل شہر کی سکیورٹی کے حوالے سے بلند و بالا دعوؤں کے باوجود بارود سے بھری ایمبولینس گاڑی کے ذریعے کئے جانے والے دھماکے کے نتیجے میں 100 سے زیادہ افراد جاں بحق اور 200 سے زیادہ زخمی ہو گئے۔ بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد زخمی اور جاں بحق ہونے والوں میں شامل تھی۔ اتنے ہولناک دھماکے کی گرد ابھی تحلیل نہیں ہوئی تھی کہ کابل میں ہی ’’مارشل فہیم ملٹری اکیڈمی‘‘ کے باہر دھماکہ ہو گیا جس کے نتیجے میں گیارہ افغان فوجی جان سے گئے۔ یوں ایک ہی ہفتے کے اندر کابل کو تین دھماکوں نے ہلا کے رکھ دیا جبکہ ایک دھماکہ جلال آباد میں کیا گیا۔ ان چار میں سے دو کی ذمہ داری طالبان‘ 2 کی داعش نے قبول کر لی۔ برطانوی اخبار انڈیپنڈنٹ کی 29 جنوری 2018 ء کو شائع ہونیوالی رپورٹ کیمطابق افغان خفیہ ادارے این ڈی ایس کے سربراہ معصوم استنک زئی نے کہا کہ حملوں میں پاکستانی حمایت یافتہ دہشت گرد ملوث ہیں۔ مجید قرار کے نام سے بتائے گئے افغان سفارتکار نے کہا کہ دہشت گردوں کو دھماکہ خیز آلات پاک فوج اور آئی ایس آئی کی طرف سے فراہم کئے گئے جو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کیخلاف کارروائیوں میں بھی استعمال کئے جاتے رہے ہیں ۔ اس کیلئے رات کو دیکھنے والی عینکوں کی مثال دی گئی اور بتایا گیا کہ اکیڈمی پر حملہ کرنیوالے دہشت گردوں نے ’’نائٹ ویژن‘‘ عینکیں آنکھوں پر چڑھا رکھی تھیں جبکہ افغانستان کی نیشنل آرمی کے پاس اس طرح کی عینکیں نہیں ہیں۔ مجید قرار نے زور دیا کہ برطانوی ساختہ عینکیں پاک فوج کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں لشکر طیبہ اور افغانستان میں حقانی نیٹ ورک کو فراہم کی گئیں۔ اس طرح اخبار انڈیپنڈنٹ نے دعویٰ کیا کہ انٹرنیشنل ہوٹل پر حملہ کیلئے دہشت گرد جس گاڑی پر سوار ہو کر آئے اس میں پایا جانے والا دھماکہ خیز مواد اور دیگر اشیاء پاکستانی ساختہ تھیں۔ مزید تحقیقات پر معلوم ہوا کہ انہیں تیار کرنیوالی کمپنی کا تعلق اسلام آباد سے ہے۔ پاکستان کی مخالفت میں برطانوی اخبار نے دور کی کوڑی لاتے ہوئے ان دھماکوں کو امریکہ کی طرف سے پاکستان کی روکی گئی امداد سے جوڑ دیا جو گزشتہ 16 برسوں سے افغانستان میں امریکی ناکامیوں کے جواب میں پاکستان پر لگائے جانیوالے الزامات میں پاک فوج اور آئی ایس آئی کو ملوث کرنے کیلئے ایک نیا اضافہ ہے۔ رات کو دیکھنے والی عینکوں اور کابل ہوٹل تک پہنچنے کیلئے دہشتگردوں کی طرف سے استعمال کی جانے والی گاڑی سے پاکستانی ساختہ اشیاء ملنے کی بات اس وقت سامنے آئی جب آزاد کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے قریب معصوم کشمیریوں کو دھماکہ خیز مواد سے اڑانے کیلئے بارودی سرنگوں کی تنصیب‘ چھوٹے ٹرانسسٹر ریڈیو سیٹ ‘ کیلکولیٹر اور موبائل فون پگڈنڈیوں اور راستے میں پھینکنے میں ملوث ایک بھارتی ایجنٹ کو گرفتار کر لیا گیا۔2016 ء سے جای بارودی سرنگوں کی وجہ سے ہونیوالے دھماکوں کی بدولت بہت سے کشمیری بچے اور بڑے جسمانی طور پر معذور ہو گئے جبکہ بارودی سرنگوں کو ریموٹ کنٹرول دھماکوں سے اڑایا جاتا۔ اس مقصد کیلئے دھماکے کا کنٹرول لائن آف کنٹرول کے پار چوکیوں پر موجود بھارتی فوجیوں کے پاس ہوتا جو پاک فوج کی پٹرولنگ پارٹیوں کو ہدف بنانے کیلئے اس وقت ریموٹ کا استعمال کرتے جب پاک فوج کا کوئی جوان زمین میں نصب کی گئی بارودی سرنگ کے بہت قریب پہنچتا۔ طویل نگرانی اور تگ ودو کے بعد پاک فوج بم نما اشیاء اور بارودی سرنگیں نصب کرنیوالے بھارتی دہشت گرد کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئی تو اس سے حاصل ہونے والی معلومات اور دھماکہ خیز مواد کی جانچ سے انکے بھارتی ساختہ ہونے کے ناقابل تردید ثبوت ملے۔ جنہیں پاک فوج نے ہاٹ لائن پر بھارتی فوج کے سامنے رکھا تو بظاہر انکار کے باوجود انہیں معلوم تھا کہ کنٹرول لائن کے قریب آزاد کشمیر میں معصوم کشمیریوں کو دھوکے سے مارنے اور پارک فوج کو نشانہ بنانے کی انکی چالبازی پکڑی گئی ہے جسکے ازالے اور پاک فوج کو دباؤ میں لانے کیلئے اندھیرے میں دیکھنے والی عینکوں اور دہشتگردوں کی گاڑی سے پاکستانی اشیاء ملنے کی بات افغان حکمرانوں اور ایک برطانوی اخبار کے ذریعے سامنے لائی گئی ہے۔ حالانکہ دنیا یہ جاننا چاہتی ہے کہ کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود گزشتہ 16 برسوں میں امریکہ اگر افغانستان کے دارالحکومت کابل کا تحفظ یقینی نہیں بنا سکا تو وہ آئندہ افغانستان میں امن کو کس طرح ممکن بنائے گا؟