مکرمی! 25 جنوری 2018ء کے اخبارات میں پولیس کی جانب سے منڈی احمد آباد تحصیل دیپالپور ضلع اوکاڑہ اشتہار شائع ہوا جس میں خدیجہ بی بی دختر مختار احمد نامی بچی کی گمشدہ لاش کے متعلق درج تھا کہ 5 سالہ خدیجہ بی بی کو مورخہ 20-12-2013 کو عمران نامی شخص نے اغوا کیا اور زیادتی کے بعد قتل کر دیا۔ تاحال بچی کی لاش نہ ملی ہے۔، جسے بھی لاش کے بارے میں علم ہو وہ منڈی احمد آباد کی پولیس کو اطلاع دے۔ 5 لاکھ روپے انعام دیا جائے گا۔ اشتہار میں یہ نہیں لکھا کہ ملزم عمران گرفتار ہوا ہے کہ نہیں، اگر گرفتار ہوا تو پھر لاش کیوں نہیں برآمد ہوئی کیونکہ ظاہر ہے کہ قتل تو اغوا کنندہ نے ہی کیا ہو گا۔ اگر ملزم گرفتار نہیں ہوا تو پولیس کی کارکردگی پر گہرا سوالیہ نشان ہے اور 4 سال کے بعد معصوم بچی کی لاش کے متعلق اخبار میں اشتہار دینا حکومت پنجاب اور ہماری چاق و چوبند پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔زینب اور خدیجہ بی بی کے قتل میں ایک بات تومشترک ہے کہ دونوں کو اغوا اور زیادتی کے بعد قتل عمران نامی نے ہی کیا۔ زینب کا قاتل تو پکڑا گیا، پوری حکومت پنجاب اور اسکی پروردہ پولیس ہل کر رہ گئی مگر معصوم خدیجہ کے اغوا، زیادتی اور قتل پر نہ کوئی احتجاج ہوا نہ اسکی لاش ملی۔ نہ جانے پولیس کو چار سال بعد کیسے خیال آ گیا کہ خدیجہ بی بی بھی کسی کی بیٹی تھی۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی سزائوں سے فرار نے جرائم میں اضافہ اور جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اب بہتر ہو گا کہ زینب کے قاتل کو سنگسار کیا جائے یا سربازار ٹکٹکی پر لٹکا دیا جائے تاکہ جرائم پیشہ افراد عبرت پکڑ سکیں۔ (رائو محمد محفوظ آسی۔ ٹائون شپ لاہور)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024