26ملزم کیسے بری ہوگئے‘ سب کو سزا ملنی چاہئے تھی‘ ہائیکورٹ جائینگے: اہل خانہ مشال
لندن‘پشاور (نیٹ نیوز‘ایجنسیاں) پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں واقع عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہین مذہب کے مبینہ الزام میں قتل کیے جانے والے مشال خان کے والد اقبال لالہ نے کہا ہے کہ یہ بات ان کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ اتنے واضح ویڈیوز اور دیگر ثبوتوں کے باوجود 26 ملزمان کو کیسے رہا کردیا گیا۔ برطانیہ کے شہر برمنگھم سے بی بی سی سے ٹیلی فون پر خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اقبال لالہ نے کہا کہ لگتا ایسا ہے کہ انکے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔‘ انھوں نے کہا کہ عدالت کی طرف سے جن ملزمان کو رہا کیا گیا ان کے خلاف وہ ہائی کورٹ جائیں گے اور اپیل کا حق بھی محفوظ رکھتے ہیں۔ خیال رہے کہ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بری کیے جانے والے ملزمان نے مشال خان پر تشدد میں حصہ نہیں لیا تھا اور وہ یا تو صرف وہاں کھڑے تھے یا پھر ویڈیوز بنا رہے تھے۔ اقبال لالہ کے بقول یہ مقدمہ صرف میرے بیٹے کے قتل کا نہیں تھا بلکہ اس کیس میں حکومت کی عملداری کو چیلنج کیا گیا تھا تو ایک لحاظ سے یہ ریاست کی رٹ کی دھجیاں اڑائی گئی تھیں۔‘ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ اچھا فیصلہ ہے کہ اگر صوبائی حکومت رہا ہونے افراد کے خلاف عدالت جاتی ہے۔ علاوہ ازیں مشال خان کے بھائی اور والدہ نے صوابی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ سب ملزمان کو یکساں سزا دی جانی چاہیے تھی اور وہ بریت کے فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔ عمران خان یونیورسٹی کومشال خان کے نام سے منسوب کرنے کاوعدہ پورا کریں۔ انہوں نے کہاکہ میری والدہ کہہ رہی تھیں کہ میرابیٹا توواپس نہیں آسکتا لیکن کوئی اور ماں نہ روئے۔ انہوں نے کہاکہ بہنوں کی تعلیم کا سلسلہ رکا ہواہے۔ سکیورٹی کے باعث بہنیں اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتی ہیں۔علاوہ ازیں لالہ محمداقبال نے برمنگھم میں پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ مشال قتل کیس کو ٹیسٹ کیس بنایا جائے۔ویڈیو میں تو تمام ملزمان کے چہرے اور کردار واضح ہیں۔ اس حد تک تو مطمئن ہوں کہ کیس کا فیصلہ آگیا ہے۔ مفرور ملزمان عارف‘ اسد اور صابر کو گرفتار کیا جائے۔ یونیورسٹی میں کرپشن مشال کے قتل کا سبب بنی۔ کرپشن میں ملوث افرا د کو بھی گرفتار کیا جائے۔
مشال اہل خانہ