شرعی قوانین کے نفاذ کی یقین دہانی تک مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں بنوں گا: سابق خطیب لال مسجد‘شریعت کے سوا اور قانون منظور ہوتا تو جنگ نہ کرتے‘ مولانا عبدالعزیز اب بھی ہمارے نمائندہ ہیں : طالبان
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ نیٹ نیوز+ نوائے وقت نیوز) حکومت سے امن مذاکرات کے لئے طالبان کی طرف سے نامزد کردہ کمیٹی کے رکن اور لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز نے مذاکراتی کمیٹی کے نکات میں شریعت کے نفاذ کی شرط کی شمولیت تک مذاکرات سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔ لال مسجد میں اپنی شوریٰ کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب تک مذاکرات میں شریعت کے نفاذ پر بات نہیں کی جاتی وہ مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں بنیں گے۔ ہم مذاکرات سے علیحدہ نہیں ہوئے لیکن تب تک مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے جب تک حکومت وعدہ نہ کرے کہ آئین پاکستان نہیں بلکہ قرآن اور سنت کی روشنی میں مذاکرات ہوں گے۔ حکومت اسلامی یا شرعی نظام کے نفاذ کا وعدہ کرے گی تو میں مذاکرات کا حصہ ہوں گا۔ میں اس قت تک کمیٹی کا حصہ رہوں گا جب تک طالبان مجھے کمیٹی چھوڑنے کو نہیں کہتے مگر میں مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں بنوں گا۔ مذاکرات کے لئے آئین پاکستان کی حدود کی شرط لگانے سے اس عمل میں تعطل پیدا ہو گا۔ حکومت آئین میں رہتے ہوئے مذاکرات کرنا چاہتی ہے لیکن جن سے مذاکرات ہو رہے ہیں وہ اس آئین کو تسلیم نہیں کرتے۔ انہوں نے حکومتی مطالبات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نیک نیتی سے مذاکراتی عمل میں شامل ہوئے لیکن حکومت آئین کی شرط لگا رہی ہے۔ مولانا عبدالعزیز نے آئین کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ نہ صرف آئین بلکہ ملک کا عدالتی نظام بھی قرآن و سنت سے متصادم ہے۔ اگر آئین اسلامی ہوتا تو طالبان کے ساتھ تنازعہ ہی کیوں شروع ہوتا؟ حکومت کیوں جنگ کی بات کرتی ہے ایسی بات کیوں کرتی ہے جس سے طالبان مطمئن نہ ہوں۔ طالبان کا ایجنڈا ہی اسلامی نظام کا نفاذ ہے تو آپ کیسے اسے نظرانداز کرسکتے ہیں۔ مولانا عبدالعزیز نے کہا ہے کہ ہمیں کہا گیا ہے کہ آئین میں رہتے ہوئے مذاکرات کئے جائیں گے۔ ہم نیک نیتی سے مذاکرات کے عمل میں شامل ہوئے۔ حکومتی کمیٹی کے ساتھ ملاقات میں مجھے کچھ تحفظات تھے۔ آئین سے مراد قرآن اور سنت ہے تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ ہم نے قرآن اور سنت کو آڑ بنا کر اپنا آئین بنایا ہے، کیوں کہا جا رہا ہے کہ ہمارا آئین اسلامی ہے، ہماری مقننہ کو قرآن کی مکمل آگاہی ہی نہیں۔ کہا جا رہا ہے قرآن و سنت کی تشریح کا حق پارلیمنٹ کو ہے۔ قرآن ہمارے لئے آئین ہے، قرآن کو آئین بنائیں اور آگے چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ طالبان آئین کو نہیں مانتے، معاملات کیسے آگے بڑھیں گے، آئین اسلامی ہوتا تو کوئی تنازعہ ہی نہ ہوتا، قوم کو دھوکہ و فریب نہ دیا جائے۔ آئین کی بنیاد قرآن و سنت کو بنایا جائے تو گارنٹی دیتا ہوں تنازعہ ختم ہو جائے گا۔ آئین اسلامی ہوتا تو تنازع ہی نہ ہوتا۔ حکومت کہتی ہے مذاکرات آئین کے تحت کئے جائیں، طالبان اس آئین کو نہیں مانتے، معاملات کیسے آگے بڑھیں گے۔ آئین کی شرط نہ لگائیں ورنہ مذاکراتی عمل میں تعطل پیدا ہو گا۔ قرآن ہمارا آئین اور دستور ہوتا تو کیا کسی آمر کی جرات تھی کہ وہ اسے چھو سکتا۔ ہم مذاکرات سے علیحدہ نہیں ہوں گے۔ آئین کو جرنیل معطل کرتے ہیں مگر قرآن کو کوئی معطل نہیں کر سکتا۔ طالبان میں بعض جرائم پیشہ افراد بھی شامل ہیں، ایسی بات کیوں کی جاتی ہے جس سے طالبان مطمئن نہ ہوں۔ آئین کی بالادستی کی بات کی جاتی ہے۔ ہمارا آئین تو قرآن و سنت سے مزین نہیں۔ ہم اس وقت تک مذاکرات نہیں کریں گے جب تک حکومت قرآن و حدیث کے تحت بات نہ کرے۔ یہ طالبان کا نہیں میرا فیصلہ ہے۔ مولانا عبدالعزیز نے کہا کہ طالبان یا مولانا سمیع الحق ہی انہیں کمیٹی سے الگ کر سکتے ہیں انہیں یہ اختیار ہے۔ نہ طالبان سے ملوں گا نہ ہی حکومتی کمیٹی سے مذاکرات میں بیٹھوں گا۔ جب تک نفاذ شریعت کی یقین دہانی نہیں کرائی جاتی مذاکرات میں نہیں بیٹھوں گا۔ آن لائن کے مطابق مولانا عبدالعزیز نے کہا کہ طالبان حکومت میں اصل تنازعہ شریعت کا نفاذ ہے، شق شامل کئے بغیر مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکتے۔ بے وقعت مذاکراتی عمل میں شامل ہوکر وقت برباد نہیں کرسکتا، قرآن و سنت پرکسی مذہب و مسلک یا جماعت کو اختلاف نہیں، آئین کی بجائے قرآن کی شرط رکھی جائے، اگر طالبان قرآن و سنت کا انکار کریں گے تو حکومت کیساتھ ملکر جہاد کرونگا، آئین اسلامی نہیں حکمرانوں نے اپنے مقاصد کیلئے بنایا، آئین کی وجہ سے ملک مسائل کی آماجگاہ بن گیا، پورا نظام غیر اسلامی ہے، بساط لپیٹی جائے، شریعت کے نفاذ کیلئے ضروری ہے عدلیہ و مقننہ کو صحیح معنوں میں اسلامی بنایا جائے، دونوں اداروں میں بیٹھے افراد کو سورۃ اخلاص تک نہیں آتی، دستور قرآنی ہوتا تو کسی جرنیل کو لپیٹنے کی جرات نہ ہوتی، اسلامی قوانین نافذ کئے جائیں تو دہشت گردی، قتل و غار ت و بدامنی سے چھٹکارا مل سکتا ہے، طالبان کو اپنی شرط سے آگاہ کردونگا۔ مذاکرات کے حامی ہیں کمیٹی میں شامل رہونگا۔دریں اثناء نجی ٹی وی سے انٹرویو میں مولانا عبدالعزیز نے کہا کہ شریعت کا نفاذ طالبان کا پہلا ایجنڈا ہے، میں اس آئین کو مانتا ہوں جس میں قرآن وسنت سپریم ہو، ملک میں شرعی نظام ہوتا تو مشرقی پاکستان کبھی علیحدہ نہ ہوتا۔ سودکو شرعی عدالت کی جانب سے حرام قرار دیئے جانے کے بعد سپریم کورٹ نے اس حکم کوکیوں کالعدم قرار دیا۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ پہلے امن ہو پھر شریعت نافذ ہو گی، لیکن ہم کہتے ہیں کہ دوا دو گے تو علاج ہوگا اور جب ملک میں شرعی نظام ہوگا، قاتلوں اورچوروں کو سزائیں ملیں گی تو پھر بم بھی نہیں پھٹیں گے اور امن بھی ہوگا۔
اسلام آباد (نیٹ نیوز+ بی بی سی) کالعدم تنظیم تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہا ہے کہ اگر طالبان کو شریعت کے علاوہ کوئی قانون منظور ہوتا تو جنگ ہی نہ کرتے۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کا اصل مقصد شریعت کے نفاذ کے لئے ہے، ہم جو جنگ لڑ رہے ہیں وہ شریعت کے لیے ہی لڑ رہے ہیں۔ ابھی جو ہم مذاکرات کریں گے تو وہ شریعت ہی کے لئے کریں گے۔ حکومت کی جانب سے مذاکرات کے لئے پیش کی گئی تجاویز کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ان پر غور کیا جا رہا ہے تاہم مزید فیصلے وہ اپنی نمائندہ کمیٹی سے ملاقات کے بعد کریں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں لیکن یہ ساری باتیں جب ہم ان (طالبان کمیٹی) سے ملاقات کریں گے تو پوری طرح ان پر واضح کریں گے، ابھی یہ باتیں قبل از وقت ہیں۔ اس سوال پر کہ پہلے سے نافذ آئین و قانون سے انکار کے بعد شریعت کے نفاذ کے لئے بات چیت کیسے آگے بڑھے گی؟ شاہد اللہ شاہد نے کہا یہ بہت آسان سی باتیں ہیں پہلی بات تو یہ ہے جن کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں وہ سب دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے تو یہ کسی مسلمان کے لئے یہ مشکل نہیں ہے۔ اب ہم امریکہ سے مطالبہ کریں کہ وہ شریعت نافذ کرے تو یہ ان کے لئے مشکل ہوگا لیکن یہ لوگ تو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے دی گئی تجاویز پر غور کیا جا رہا ہے تاہم وہ ابھی اس پر ردعمل دینا نہیں چاہتے۔ دو مخالف گروہوں کی جانب سے مذاکرات میں مختلف مطالبات کئے جائیں گے۔ لیکن ہم مطمئن ہیں کہ شریعت کے نفاذ کے لئے یہ مذاکرات کامیاب ہونگے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ طالبان کی نمائندہ کمیٹی سے ان کی ملاقات آئندہ چار سے پانچ دن میں ہو جائے گی۔ مولانا عبدالعزیز کی مذاکرات میں شمولیت سے انکار کے بعد نمائندہ کمیٹی کے بارے میں شاہد اللہ شاہد کا کہنا تھا وہ اب بھی ان کے نمائندے ہیں، ان کی مشکلات بھی دور ہو جائیں گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مولانا عبدالعزیز کا کہنا غلط نہیں ہے۔ اپنے بیان میں شاہداللہ شاہد نے کہا کہ حکومت سے مذاکرات شریعت کے نفاذ کیلئے کریں گے‘ حکومت کی پیش کردہ تجویز پر غور کیا جارہا ہے‘ شریعت کے علاوہ کوئی قانون منظور ہوتا تو جنگ نہ کرتے۔ حکومت کیساتھ ملاقات کا اصل مقصد نفاذ شریعت ہے۔ مولانا عبدالعزیز کی مذاکراتی عمل سے علیحدگی سے متعلق طالبان کمیٹی سے ملاقات میں بات کریں گے۔