بچپن میں ہمارے قصبہ میں پروفیشنل سائیکلسٹ آتے تھے وہ قصبہ کے باہر میدان میں 7یوم تک بغیر رکے بغیر بریک لگائے مختلف کرتب دکھاتے ہوئے سائیکل چلانے کے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ سائیکلسٹ سائیکل پرہی نہاتے دھوتے کپڑے بدلتے تھے اور کبھی کبھی وہ ایک پہیے کا سائیکل بھی چلاتے تھے۔ جسے دیکھ کر ہم بہت حیران ہوتے تھے۔ یہ کیسے چل رہا ہے؟ 1947ء سے پہلے ہمارے بزرگوں نے لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر تاریخ میں ایک ایسی مملکت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے جو مذہب کے نام پر وجود میں آنیوالی دنیا کی پہلی سلطنت تھی۔مگر جغرافیائی پیچیدگیوں کی وجہ سے اسکی حیثیت دو پہیوں والے سائیکل سے مشابہہ تھی۔ قیام پاکستان سے ہی اس سائیکل کی ٹیوب کو پہلا پنکچر اس وقت لگا جب حضرت قائداعظم کی بے وقت رحلت ہو گئی۔ دوسرا پنکچر اسے اس وقت لگا جب قائد ملت نواب لیاقت علی خان کو راولپنڈی شہر میں خطاب کے دوران شہید کر دیا گیا اور پھر پہلے دس سالوں میں اس سائیکل کی اگلی پچھلی پہیوں کے بے شمار پنکچرز لگے۔
1958ء میں مارشل لاء کا نفاذ ہوا اور آمر ایوب خان نے اس مملکت کی بچی کھچی ساکھ کو دائو پر لگا دیا۔ قائداعظم کی ہمشیرہ کو دھاندلی سے شکست دے کر ایوب خان نے الیکشن رزلٹ تو اپنے حق میں کر لئے مگر پاکستان کے اساس کو ناقابل تلافی پنکچرز لگا دیئے۔ ہیرو کہلوانے اور فیلڈ مارشل کا خود ساختہ خطاب حاصل کرنے کے لئے مدبرانہ سوچ کی بجائے مملکت کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا۔ نوزائیدہ مملکت جسے سیاسی تربیت کی ضرورت تھی وہاں ایبڈو کا بدنام زمانہ قانون نافذ کرکے سیاسی نرسری تباہ کر دی اور 65ء کی جیتی جنگ تاشقند کی میز پر ہار کر وطن عزیز کی پنکچر ٹیوب کو کاری پنکچر لگا دیا۔ جس کے ثمرات71ء کی جنگ کی صورت برآمد ہوئے مگر تب تک اس سائیکل کی دونوں ٹیوبیںپنکچر ہو چکی تھیں اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ دنیا کی سب سے بڑی مملکت کی بہادر فوج نے ڈھاکہ کے گرائونڈ میں 90ہزار فوجیوں نے ہتھیار پھینک کر اس سائیکل کو دو ٹکڑے کر دیا اور صرف 23سال بعد ہی پاکستان تقسیم ہو گیا۔ اور ایسی شرمناک شکست کے اسباب جاننے کی سنجیدہ کوشش بھی نہ کی گئی۔ حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کی اصل روح کے متعلق قوم کو اب تک تذبذب میں رکھ گیا اور آج بھی حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کو عوام کے سامنے لانے کی بجائے چھپانے کو ترجیح دی جا رہی ہے شاید کسی اور سانحہ کی تلاش ہے قوم کے لیڈروں اور حکمرانوں کو؟ اس سائیکل کے ایک پہیہ کے جدا ہونے سے نہ آج سابقہ مشرقی پاکستان مکمل ہے اور بچا کھچا پاکستان مکمل ہے اس ایک پہیے پر چلتے ہوئے یقین ہماری ترقی کی رفتار وہ نہیں جو ہونی چاہیے۔ قوم نے 71ء کی جنگ کی نفسیاتی شکست کے اسباب کو ابھی پوری طرح بھلایا بھی نہیں تھا کہ سامراجی قوتوں نے اس قوم سے پھر ان کا راہبر چھین لیا پھر قوم کو ایک ایسا پنکچر لگایا گیا کہ جس کے اثرات آج بھی نہ صرف محسوس کیے جا سکتے ہیں بلکہ قوم اس کے نتائج بھگت رہی ہے آگے بڑھنے کی بجائے ہم اندھیروں کے مسافر بن کر رہ گئے ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ملک اسرائیل، جنوبی کوریا، ملائیشیااور چین آج دنیا کی معیشت میں ایک خصوصی کردار ادا کر رہے ہیں۔ جب کہ وطن عزیز آگے بڑھنے کی بجائے اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ تقسیم پاکستان کے بعد پاکستان کی آبادی جو5کروڑ سے بھی 20کروڑ ہو گئی مگر ہمارے مسائل 200کروڑ ہو گئے۔ نااہل لیڈروں نے قوم کی راہنمائی کی بجائے قوم کو اندھا سمجھ کر لوٹنا شروع کر دیا۔ ہاریوں کی سیاست میں قوم کو بے وقوف بنا کر کھربوں روپے کے پنکچر لگائے گئے ہیں۔
گذشتہ حکومت کے پانچ سالوں میں 100ارب ڈالر کا پنکچر قوم کو لگایا گیا جبکہ موجودہ حکمران یہ ہدف چند مہینوں میں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ گذشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل پر مشہو راینکر شاہد مسعود کا پروگرام چل رہا تھا۔ میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا ٹاک شو دیکھ رہا تھا جب ڈاکٹر شاہد مسعود نے یہ خبر بریک کی کہ ایک غیر ملکی قوت کے سفیر محترم نے عمران خان اور دیگر لوگوں کو بتایا ہے کہ گذشتہ سال ہونے والے الیکشن 11 مئی کے دن پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی نے محترم نوازشریف صاحب کو ٹیلی فون پر فخریہ یہ نوید سنائی کہ جناب (35 پنکچرز لگا دیئے ہیں) غیر ملکی سفیر اور ان کی خفیہ ایجنسی جس نے یہ ٹیلی فون گفتگو ریکارڈ کی تھی وہ یہ کوڈ نہ سمجھ سکے کہ 35پنکچرز کے پیچھے کونسی اصلاح ہے یا اس کا کیا مقصد ہے مگر جن جن پاکستانی اینکرز اور دانشوروں نے اس گفتگو کی ’’آڈیو‘‘ سنی ہے وہ بخوبی سمجھ گئے ہیں کہ 11مئی 2013ء کو کونسی ٹیوب کو پنکچرز لگائے گئے ہیں؟ محترم نجم سیٹھی کاروباری شیخ برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور موصوف کے آبائواجداد کا تعلق حسن اتفاق سے میرے ہی گائوں ’’میترانوالی‘‘سے ہے ۔ ہمارے گائوں کے سبھی بزرگ اور میں بھی یہ گواہی دے سکتا ہوں کہ موصوف نگران وزیراعلیٰ خود یا ان کے خاندان کے کسی فرد نے ٹائر ٹیوب و سائیکل مرمت کا دھندا کبھی نہ کیا تھانہ ہے تو پھر وہ کونسے 35پنکچرز تھے جو موصوف سابقہ وزیراعلیٰ نے 11مئی کو لگا دیئے؟ سنا ہے کہ نجم سیٹھی صاحب کے پاس کوئی ’’چڑیا‘‘ ہے جو اندر کی باتیں بتاتی ہے مگر چڑیا بھی پنکچر تو نہیں لگا سکتی؟
دراصل 11مئی 2013ء کو دس بجے محترم نوازشریف نے جو حکم صادر فرمایا تھا کہ مجھے مکمل فتح درکار ہے۔ تو مبینہ طور پر انکی یہ خواہش پوری کر دی گئی۔ یہی وجہ ہے موصوف نگران وزیراعلیٰ کو جیسے ہی وہ اپنے فرائض سے فارغ ہوئے نوازشریف حکومت نے پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ کا چیئرمین لگا دیا۔ محترم ذکا ء اشرف کو پنکچر لگا کے یہ واردات اور پلان تو بہت زبردست تھا مگر ہوا یہ کہ محترم ذکاء اشرف بڑے جفاکش آدمی ہیں وہ تھک ہار کر گھر بیٹھنے والوں میں سے نہیں ہیں انہوں نے عدالتوں کیدروازے کھٹکھٹائے اور موجودہ چیف جسٹس کے زیر سایہ عدلیہ سے انصاف کے حصول مں کامیاب ٹھہرے۔ اسی دوران اس پنکچرکہانی کی بازگشت بھی سنائی دینے لگی اور ہو سکتا ہے جب نجم سیٹھی صاحب نے چیئرمین پی سی سی بی کی بیل منڈھے نہ چڑھتی دیکھی تو اپنی چڑیا کے ذریعے اوپر والوں کو خود ہی پیغام پہنچایا ہو کہ ہم نے 11مئی 2013ء کو 35پنکچرز لگا کر نوازشریف کے حصول اقتدار کے پلان کو حقیقت کا رنگ دیا تھا۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کے پروگرام میں ان حقائق کے پیچھے چھپے ہوئے بے شمار سوالات کے جواب بھی ہیں اور آگے چل کر یقینا اس سانحہ کے اثرات پاکستان کی موجودہ سیاست پر بھی پڑیں گے۔مگر عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ 1947ء سے عوام کو ٹیکے لگانے اور پنکچر لگانے کا یہ عمل کب اور کہاں اختتام پذیر ہو گا؟ کب تک جاگیردار، سرمایہ دار، بیوروکریٹس ،اسٹیبلشمنٹ عوام کی امنگوں کو پنکچر لگاتی رہے گی؟ کب تک عوام کے مینڈیٹ کو چرایا جاتا رہے گا؟ آج مجھے ڈاکٹر طاہر القادری کے الفاظ یاد آ رہے ہیں جو انہوں نے گذشتہ الیکشن سے پہلے کہے تھے کہ صورتیں نہیں نظام بدلنا ہوگا۔ آج وطن عزیز اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے نرغے میں ہے ہماری بقا کو خطرہ لاحق ہے اور ہم اقتدار کی خاطر اپنی ہی قوم کو پنکچر لگانے کے چکر میں ہیں اور اگر اسی طرح ہوتا رہا تو نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔کیونکہ اس سائیکل کا ایک پہیہ تو پہلے جدا کیا جا چکا ہے اور دوسرے پہیے کا ٹائر بھی پھٹ چکا ہے اور اندر سے ٹیوب کو بھی اتنے پنکچرز لگ چکے ہیں کہ اب کوئی معجزہ ہی اسے بچا سکتا ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024