وفاقی حکومت نے کراچی میں خلفشار ختم کرنے کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا: سپریم کورٹ
کراچی (نوائے وقت نیوز) کراچی بدامنی کیس میں سپریم کورٹ کے ازخود کیس کی سماعت سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ہوئی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ، جسٹس خلجی عارف، جسٹس سرمد جلال عثمانی اور جسٹس امیر ہانی مسلم پر مشتمل بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے کہ حکومت سندھ نے عوامی فیصلے پر عملدرآمد کی پیراوائز رپورٹ پیش نہیں کی۔ اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ عدالت میں بدھ کو پیش کی گئی رپورٹ میں ہر پیرے کا جواب موجود ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ یوں لگتا ہے ہم بے معنی مشق کررہے ہیں، معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا جا رہا۔ پیرا 131، بدامنی میں ملوث گروپوں کو سیاسی جماعتوں کی سرپرستی حاصل ہے، آپ نے اسکا کوئی جواب نہیں دیا اور نہ ہی جواب داخل کرنے کی کوشش کی۔ آپ نے تسلیم کیا ہے کہ بدامنی کی وجہ سیاسی مداخلت ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا کراچی میں ٹارچر کرنیوالے ملزمان کی گرفتاری کیلئے کیا اقدامات کئے۔ آئی جی سندھ نے عدالت کو بیان دیا ٹارچر والی ویڈیوز کے کوئی ملزمان گرفتار نہیں کئے گئے۔ 441 لینڈ گریبرز کےخلاف مقدمات درج کئے اور 50 کےخلاف چالان جمع کرائے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا باقی مقدمات اور ملزمان کا کیا ہوا؟ جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دئیے کہہ دیں سپریم کورٹ نے جو نشاندہی کی وہاں کارروائی کرتے ہوئے ہمارے پَر جلتے ہیں۔ بتا دیں کہ مافیا کے لوگ بڑے طاقتور ہیں، یہ کہنے کی جرا¿ت تو کریں۔ عدالتی بنچ نے ریمارکس دئیے سوا سال سے وفاقی حکومت نے کراچی میں اندرونی خلفشار کے خاتمے کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے آپ لوگ عوام الناس کے تنخواہ دار ہیں، وفاداری تو کرنی ہے۔ وفاقی حکومت کب جواب داخل کریگی، جب کراچی جل کر خاک ہوجائیگا؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا آپریشنل معاملات صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہیں۔ جسٹس خلجی نے کہا یہ جواب سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا آئین کے تحت صوبوں میں امن و امان کی ذمہ داری وفاق کی بھی ہے۔ کراچی کے شہریوں کو تحفظ دینے کیلئے وفاق نے کیا کیا؟ جسٹس خلجی عارف نے کہا وزیر آکر بیان دے جائے، کراچی والو! ہوشیار رہو، کچھ ہونےوالا ہے۔ آئی جی سندھ نے عدالت میں رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا کہ پولیس میں کوئی افسر یا اہلکار سیاسی وابستگی اور اثرورسوخ نہیں رکھتا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کراچی میں بدامنی، ٹارگٹ کلنگ جاری رہنی ہے تو پھر آرٹیکل 9 کو آئین سے نکال دینا چاہئے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا اگر کوئی سیاسی اثر نہیں ہے تو یہ رپورٹ بنانیوالوں کی انکوائری کرلیتے ہیں۔ سابق آئی جی نے بیان دیا ہے 40 فیصد پولیس ملازمین سیاسی وابستگی رکھتے ہیں۔ آئی جی سندھ نے عدالت میں بیان دیا کہ سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 16 جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ بنچ نے ریمارکس دئیے پولیس نے سیاسی اثرات ختم کرنے کیلئے سنجیدہ کوشش نہیں کی، جواب سے ہم مطمئن نہیں۔ عدالت نے گرفتار کئے گئے جرائم پیشہ افراد کی سیاسی وابستگی اور مقدمات کی تفصیلات طلب کرلیں۔ آئی جی سندھ نے کہا کہ محکمہ داخلہ نے سیاسی جماعتوں کو مسلح گروپس سے لاتعلقی کیلئے خط لکھے۔ صرف سنی تحریک کی جانب سے جواب موصول ہوا۔ جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دئیے کہ ایڈووکیٹ جنرل فتح ملک کا کام اذان دینا ہے، نماز پڑھنے کوئی آئے یا نہ آئے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا عدالت کو صفحہ کالا کرکے دیدیا گیا۔ آئین کے مطابق حکم دینے کا سوچ رہے ہیں۔ الیکشن کمشن کے وکیل منیر پراچہ نے عدالت کو بتایا مردم شماری کے بغیر قانون کے مطابق حلقہ بندی نہیں ہوسکتی۔ جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دئیے سیکرٹری الیکشن کمشن نے بیان دیا کہ کوئی قانون رکاوٹ نہیں۔ سیکرٹری الیکشن کمشن نے کہا الیکشن کمشن حلقہ بندی کیلئے تیار ہے۔ سیکرٹری الیکشن کمشن نے بیان دیا کہ سیاسی جماعتوں کا اجلاس بلالیا ہے۔ وکیل منیر پراچہ نے کہا سیکرٹری نے عدالتی حکم پر پیش ہو کر بیان دیا جس سے الیکشن کمشن متفق نہیں۔ جسٹس خلجی عارف نے جواب دیا سیکرٹری کا بیان اگر خلاف قانون سمجھا تو الیکشن کمشن نے درخواست کیوں نہیں دی؟ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ماشاءاللہ صوبے کو یہی نہیں پتہ کہ انکا دائرہ کیا ہے۔ 18 ویں ترمیم آپ نے کی، اسے تسلیم کرتے ہیں تو پھر مسئلہ کیا ہے۔ 18 ویں ترمیم میں اسلحہ پر قانون سازی صوبے کا معاملہ ہے، خواہ مخواہ معاملہ نہ الجھائیں۔ آئی جی سندھ کی رپورٹ کہ مختلف علاقوں میں کارروائی کے بعد 16924 اقسام کا اسلحہ برآمد کیا گیا۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ کراچی میں 99 فیصد جرائم غیرقانونی اسلحہ سے کئے جا رہے ہیں۔ غیرقانونی اسلحہ کیخلاف کیا اقدامات کئے؟ جسٹس جواد نے کہا چیف سیکرٹری صاحب شہر کی ذمہ داری آپ پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ایس ایس پی نیاز کھوسو نے کہا صوبے کی سرکار قانون بنا دے تو بدامنی ختم ہوجائیگی۔ جسٹس خلجی نے کہا الیکشن کمشن معتبر ادارہ ہے، اگر آپکا افسر غلط بیان دے تو کیا آپ ایکشن نہیں لیں گے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے مردم شماری کی ذمہ داری ایگزیکٹو کی ہے۔ حلقہ بندی کا کام الیکشن کمشن نے کرنا ہے، اگر انتظامیہ 50 سال تک مردم شماری نہ کرے تو کیا کیا جائے۔ اگر مردم شماری نہیں ہوگی تو ون مین ون ووٹ کا جمہوری نظریہ متاثر ہوگا۔ الےکشن کمشن اپنا کام کرکے رپورٹ دے، عدالت کا کام آئین کی تشریح ہے، ہم اپنا کام کرینگے۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا بتائیں کہ اسلحہ ایکٹ اسمبلی میں کب پیش کیا جائیگا۔ تھوڑی دیر کیلئے پاکستانی بن کر بتائیں شہر میں کتنے تارکین وطن ہیں؟ چیف سیکرٹری راجہ غلام عباس نے جوابدیا 14 لاکھ تارکین وطن کراچی میں ہیں۔ جسٹس امیر ہانی نے کہا رینجرز سنگین جرائم میں ملزمان گرفتار کرتی اور پولیس معمولی جرائم میں مقدمہ کرتی ہے۔ رینجرز کی رپورٹ نہیں الارمنگ ہے۔ کراچی بدامنی کیس کی سماعت آج جمعہ تک ملتوی کردی گئی۔