جنات کے واقعات
علامہ منیر احمد یوسفی
”یوسف مصر محبت“ حصہ اول
جن کا واقعہ:
حضرت قبلہ صاحبزادہ پیر محمد اللہ دتہ زم زم یوسفی صاحب فرماتے ہیں: حضرت قبلہ بابا جی سرکار نگینہ نے جمعتہ المبارک پڑھانے کے لئے فیصل آباد جانا تھا اور میں موٹرسائیکل پر بٹھا کر چمڑیل جھال کے سٹاپ تک آپ کو چھوڑنے جارہا تھا۔ جب ہم چمڑیل جھال نہر کے کنارے پہنچے تو پیچھے سے ایک دوست نے آوازیں دیں۔ حضرت قبلہ بابا جی سرکار نگینہ نے فرمایا بیٹا! کوئی دوست آوازیں دے رہا ہے۔ قبلہ صاحبزادہ صاحب فرماتے ہیں ‘ نہر کی پٹڑی پر پانی چھڑکا ہوا تھا، بریک لگانے سے موٹرسائیکل پھسل گئی اور ہم گِرگئے۔ آپ سرکار نے مجھ سے پوچھا‘ بیٹا چوٹ تو نہیں لگی؟ میں نے عرض کیا، جی نہیں حضور چوٹ نہیں لگی اتنے میں وہ آواز دینے والا دوست بھی آگیا۔ اُس نے سر پر کپڑا باندھا ہوا تھا۔ اُس بندھے ہوئے کپڑے کا کچھ حصہ لٹک رہا تھا۔ اُس لٹکے ہوئے کپڑے میں اُس نے مٹھائی باندھی ہوئی تھی۔ اُس نے حضرت بابا جی سرکار نگینہ کی خیر و خبر پوچھی کہ گرنے پر کوئی چوٹ تونہیں لگی۔ آپ سرکار نے فرمایا: شکر ہے میں نے اپنے بیٹے کی منگنی کی ہے۔ میں خوشی میں آپ کو تحفہ پیش کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ اُس نے رومال سے شیرینی نکالی اور آپ سرکار کو پیش کی آپ نے اُس کا تحفہ قبول فرمایا۔ وہ کپڑے سے مٹھائی نکال کر دیتا جانے لگا۔ آپ نے اُس کو جزاک اللہ فرمایا۔ قبلہ صاحبزادہ صاحب فرماتے ہیں، آپ سرکار نے مجھے فرمایا: اس مٹھائی کو رومال میں باندھ لو اور چلو مجھے جمعہ شریف سے دیر ہورہی ہے۔ آپ سرکار نے فرمایا: اِس مٹھائی کو ان بچوں میں تقسیم کردینا جو گھر میں قرآن مجید پڑھنے آتے ہیں۔ قبلہ صاحبزادہ صاحب مدظلہ العالیٰ فرماتے ہیں ، میں نے آپ سرکار سے پوچھا حضور یہ شخص کون تھا؟ تو آپ سرکار نے فرمایا: یہ جن تھا۔ قبلہ صاحبزادہ صاحب فرماتے ہیں۔ آپ سرکار جمعہ شریف پڑھانے کے لیے فیصل آباد تشریف لے گئے۔ اور میں نے وہ مٹھائی اُن بچوں میں تقسیم کردی۔ جو عصر کی نماز کے بعد گھر میں قرآن مجید پڑھنے آتے تھے۔
جنوں والی مسجد:
حضرت قبلہ صاحبزادہ پیر محمد اللہ دتہ زم زم یوسفی صاحب فرماتے ہیں آپ سرکار نے فرمایا‘ گوجرہ کے پاس ایک اسٹیشن ہے جس کو جانی والا سرکار فرماتے ہیں۔ میں وہاں سائیکل پر گیا وہاں پہنچتے ہی پہلے تو آندھی آئی پھر بارش آگئی۔ آپ سرکار فرماتے ہیں‘ بارش سے بچنے کے لیے میں اسٹیشن پر چلا گیا تو اسٹیشن ماسٹر نے کہا آپ یہاں نہیں ٹھہرسکتے ہمیں تو کسی کو ساتھ رکھنے کی اجازت نہیں۔ اُس نے آپ سے عرض کیا، یہاں ساتھ ہی مسجد ہے آپ وہاں چلے جائیں۔ آپ سرکار نے وہاں جانے کا ارادہ فرمایا تو اسٹیشن ماسٹر کہنے لگا حضرت صاحب اس مسجد کو جنوں والی مسجد کہتے ہیں۔ آپ سرکار فرمانے لگے کوئی بات نہیں۔ آپ سرکاروہاں چلے گئے اور اعتکاف کی نیت کرلی اور کچھ دیر کے لئے لیٹ گئے۔ وہاں لیٹے لیٹے آپ کو نیند آگئی۔ اچانک آنکھ کھلی تو دیکھا کہ مسجد کے اندر روشنی ہی روشنی ہے۔ سفید لباس، سفید پگڑیوں والے لوگ ہیں۔ آرہے ہیں، جارہے ہیں۔ حضرت قبلہ بابا جی سرکار فرماتے ہیں میں لیٹا ہوا تھا کہ میرے قریب سے تین چار بندے گزرے اور کہنے لگے دیکھو بھئی ، یہ تو بابا جی نگینہ صاحب لیٹے ہوئے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں جب میں نے اپنا نام سنا تو جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ وہ بھی میرے پاس آکر بیٹھ گئے اور مصافحہ کیا اور کہنے لگے حضور آپ کھانے کے بارے میں بتائیں آپ نے کچھ کھانا ہے؟ آپ فرمانے لگے ۔میں نے کھانا کھایا ہوا ہے۔ انہوں نے جب یہ بات سنی تو ان میں سے ایک کہنے لگا کہ کھایا پیا تو ٹھیک ہے‘ لیکن آج شام کو کھانا نہیں کھایا۔ وہ کہنے لگے حضور اگر اجازت ہو تو ہم آپ کے کھانے کے لیے کچھ لائیں۔ آپ نے فرمایا: نہیں تم رہنے دو۔ وہ کہنے لگے حضور کیوں؟ حضرت قبلہ بابا جی سرکار علی فرمانے لگے تمہاری کون سی اپنی دُکان ہے اور تم تو سودا لینے جاﺅ گے اور چوری کرکے لے آﺅ گے اور دُکان والا صبح اُٹھ کر دیکھے گا اور اُسے ڈبے میں کوئی چیز نظر نہیں آئے گی تو بُر ابھلا کہے گا۔ اس لیے تم رہنے دو۔ ایک اور بولا حضور! آزاد کشمیر میں میرا اپنا باغ ہے اگر اجازت ہو تو میں اپنے باغ میں سے انگور لے آﺅں، آپ نے فرمایا ہاں تمہیں اجازت ہے، تم جاﺅ۔ وہ چلا گیا۔ پھر تھوڑی دیر بعد ہی واپس آیا اور السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کہا۔ اُس نے بڑے موٹے تازہ اور میٹھے انگور لا کر رکھے ۔ آپ سرکار فرماتے ہیں کہ میں نے بھی کھائے اور جو دوست ساتھ تھے انہوں نے بھی کھائے اور اُن جنات نے بھی کھائے جو انسانی شکل میں آئے ہوئے تھے اور کھانے کے بعد جو انگور بچے وہ انہوں نے آپ سرکار کو پیش کردئیے۔ آپ سرکار وہ انگور گھر لے آئے ۔ حضرت قبلہ صاحبزادہ صاحب فرماتے ہیں مجھے یاد ہے کہ وہ ہم سب نے کھائے تھے۔
دیوانہ اور محب جن:
پیر طریقت صاحبزادہ خلیل احمد یوسفی نے بندہ¿ ناچیز منیر احمد یوسف کو حضرت قبلہ بابا جی سرکار نگینہ کی 1988ءکی ڈائری دکھائی جس پر جناب صوفی علی محمد سپاہی چک نمبر176، گ ۔ ب پیلے گوجراں شریف کا 22-1-1990 کا لکھا ہوا واقعہ دکھایا۔
صوفی علی محمد صاحب فرماتے ہیں کہ میرے بڑے بھائی صوفی عالم دین صاحب مرحوم کے سُسر کے چھوٹے بیٹے محمد سلیمان کی شادی کا پروگرام تھا۔ انہوں نے صوفی عالم دین صاحب مرحوم سے کہا کہ میں اپنے بیٹے کی شادی کے موقع پر محفل میلاد منعقد کرانا چاہتاہوں اور سفارش کی کہ آپ پیر طریقت ، رہبر شریعت ، قطب جلی، عالمِ یلمعی، فاضلِ لوذعی، نائبِ غوث الثقلین ، منظورِ نظر داتا گنج بخش، حاجی محمد یوسف علی نگینہ علی کو تقریر کے لیے بلائیں۔ حضرت قبلہ بابا جی سرکار نگینہ ساری عمر بے لوث تبلیغ دین فرماتے رہے۔ آپ کو محفل کے لیے دعوت دی گئی۔ آپ نے دعوت قبول فرمائی۔ حضرت قبلہ بابا جی سرکار نگینہ شادی کے موقع پر تشریف لائے۔ بعد از نمازِ عشاءآپ سرکار نے وعظ شریف فرمایا۔ لوگوں کے قلوب منور ہوئے۔لوگ دریوں اور چارپایوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ شرکائے محفل میں آگیا۔ لوگ پریشان ہوکر چارپایوں سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور وہ بھینسا چارپایوں سے پھلانگتا ہوا گھر میں داخل ہوگیا۔ لوگ گھبراتے ہوئے گھر کے اندر کی طرف بھاگے کہ کہیں بھینسا گھر کی چیزوں کو نقصان نہ پہنچا دے۔ جب گھر والے افراد گھر کے اندرگئے تو بھینسا کہیں بھی نظر نہ آیا۔ صوفی علی محمد صاحب فرماتے ہیں حضرت قبلہ بابا جی سرکار نگینہ مسکرانے لگے اور پوچھا بھینسا کدھر گیا؟ عرض کیا کہ حضرت صاحب بھینسا اندر تو نہیں ہے۔ لوگ ششدرہ تھے کہ بھینسا کہاں گیا؟ آپ سرکار نے فرمایا کہ وہ جن تھا۔ میں جہاں بھی وعظ و خطابت کے لیے جاتا ہوں یہ وہیں آجاتا ہے۔ جب وجد میں آجاتا ہے تو کوئی نہ کوئی حرکت بھی کرتا ہے۔ حاجی صوفی علی محمد صاحب فرماتے ہیں۔ جنات بھی آپ پر عاشق تھے۔ صوفی علی محمد صاحب نے واقعہ لکھنے کے بعد اپنے دستخط بھی کیے ہیں اور 22-1-90 تاریخ بھی رقم کی ہے۔
جنات کا وجود:
کتاب و سنت سے جنات کا وجود ثابت ہے۔ البتہ جہمیہ، معتزلہ، نیچری اور دہرئیے ان کا انکار کرتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت کرتے ہیں ‘ وہ فرماتے ہیں: ”اللہ تبارک وتعالیٰ جل مجدہ الکریم نے جنات کو حضرت آدم ؑ سے دو ہزار سال پہلے پیدا فرمایا۔ اور ایک روایت کے مطابق دو ہزار سال زمین میں آباد رہے“۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں:
”جن زمین میں اور فرشتے آسمان میں رہتے ہیں اور وہ ان میں آباد ہیں“۔
حضرت اسحاق بن بشرؒ نے فرمایا مجھ سے حضرت جویبرؒ اور حضرت عثمانؒ نے اپنی اسناد سے بیان کیا کہ ”اللہ تبارک وتعالیٰ جلہ مجدہ الکریم نے جنات کو پیدا فرمایا اور ان کو زمین میں آباد ہونے کا حکم فرمایا وہ بہت عرصہ اللہ تبارک وتعالیٰ جل مجدہ الکریم کی عبادت کرتے رہے پھر انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ جل مجدہ الکریم کی نافرمانی کی اور قتل و غارت گری شروع کردی۔ ان میں ایک فرشتہ تھا جس کا نام یوسف تھا اس کو انہوں نے قتل کردیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ جلہ مجدہ الکریم نے پہلے آسمان کے فرشتوں کا ایک لشکر بھیجا تو فرشتوں کے چار ہزار لشکر نے جنات کو زمین سے باہر نکال دیا اور سمندروں کے جزیروں میں اُن کو بھیج دیا“۔
o”نیچریوں اور دہریوں نے جہاں فرشتوں کا انکار کیا ہے وہاں جنوں کا بھی انکار کیا ہے۔ ان سے تعجب نہیں، تعجب تو ان لوگوں سے ہے جو اپنے تئیں مسلمان کہتے ہیں اور پھر جنوں کے وجود، تصرف اور افعال کا انکار کرتے ہیں۔ قسطلانی نے کہا ہے جنوں کا وجود قرآن اور حدیث اور اجماع اُمت اور تواتر سے ثابت ہے اور فلسفہ اور نیچریوں کا انکار، قابل اعتبار نہیں۔ عبداللہ بن عمروبن عاص نے کہا اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ سے دو ہزار برس بیشتر جنوں کو پیدا کیا تھا“ (تیسیرالباری غیر مقلد جلد4ص390 عاشیہ نمبر امن و عن)۔